• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ )

مجھے گزشتہ کالم اس بات پر ختم کرنا پڑا کہ واپڈا ہائوس لاہور میں واپڈا کے چیئرمین کی پریس کانفرنس کے دوران ان سے ایک سوال کیا جس کا وہ جواب دے رہے تھے‘ میں نے پنجاب کی طرف سے 91 کے معاہدے کے تحت ’’ٹین ڈیلیز‘‘ والی پنجاب کی رواں اسکیموں کے ساتھ ایک نئی اسکیم ’’گریٹر تھل‘‘ اسکیم کو شامل کرنے پر سندھ کے اعتراض کے حوالے سے بھی سوال کیا۔ بہرحال پریس کانفرنس ختم ہونے کے بعد چائے کا دور چلا‘ چائے پر میں واپڈا کے ممبر واٹر سے بات چیت کررہا تھا‘ اس بات چیت کے دوران میں نے ان سے فرمائش کی کہ براہ مہربانی مجھے گریٹر تھل اسکیم کی ایک کاپی دی جائے تاکہ میں بھی اس اسکیم کا جائزہ لے سکوں۔ ممبر واٹر نے حیران کن جواب دیا۔ انہوں نے کہاکہ یہ اسکیم پنجاب نے تیار کی ہے اور ابھی پنجاب حکومت کے پاس ہے اور یہ اسکیم ابھی تک واپڈا کے حوالے نہیں کی گئی ہے۔ یہ جواب سن کر میں حیران ہوگیا اور ممبر واٹر کو کہا کہ جب یہ اسکیم نہ واپڈا نے تیار کی ہے اور نہ یہ اسکیم واپڈا کے پاس ہے تو پھر اس اسکیم کے لئے مختص پانی کس طرح پنجاب کے حوالے کیا جائے گا۔ ممبر واٹر میرے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دے سکے کیونکہ ان کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ بہرحال اس کے بعد سندھ سے مدعو کئے گئے ہم صحافیوں کو لاہور کے ایک ہوٹل میں ٹھہرایا گیا۔ دوسرے دن ہم پھر واپڈا کی گاڑیوں میں آبیٹھے‘ وہ ہمیں دکھانے کے لئے کالا باغ کی سائٹ پر لائے حالانکہ اس وقت کافی وقت گزر چکا ہے مگر مجھے یاد ہے کہ اس سائٹ پر ہر طرف چٹانیں تھیں اور چٹانیں بھی عجیب و غریب تھیں‘ خوش قسمتی سے واپڈا کا جو اسٹاف ہمیں یہ سائٹ دکھانے کے لئے لایا ان میں سرائیکیوں کی کافی تعداد تھی۔ میرے ساتھ کھڑے واپڈا کے ایک سرائیکی اہلکار سے میں نے پوچھا کہ یہ چٹانیں اتنی عجیب و غریب کیوں ہیں۔ اس سوال کے جواب میں یہ سرائیکی دوست میرے قریب آیا اور میرے کان میں کہا کہ یہ چٹانیں زیادہ تر نمک کی چٹانیں ہیں‘ یہ سن کر میں اور حیران ہوگیا اور سوال کیا کہ اگر واقعی یہ نمک کی چٹانیں ہیں تو اگر یہاں ڈیم بناکر پانی جمع کیا جاتا ہے تو یہ نمک کی چٹانیں تو پانی میں تحلیل (Dissolve ) ہوجائیں گی‘ پھر اس طرح جب یہ نمکین پانی پنجاب‘ سرائیکی بیلٹ اور سندھ میں زراعت کے لئے استعمال ہوگا تو فصل کی اگائی تو نہیں ہوگی مگر یہ زمین آئندہ کے لئے کسی فصل اگانے اور حتیٰ کہ یہ پانی لوگوں کے پینے کے لائق بھی نہیں ہوگا‘ یہ سب سن کر سرائیکی دوست خاموش ہوگیا‘ بعد میں سندھ واپس آنے کے بعد میں نے اخبار میں یہ خبر شائع کی‘ بعد میں کچھ اطلاعات کے مطابق حکومت نے ڈیم بنانے کیلئے سائٹ اسی علاقے میں تبدیل کردی‘ اس سائٹ سے واپسی پر لنچ کے لئے ہمیں میانوالی میں لاکر ایک ریسٹورنٹ کے پاس اتارا گیا‘ راستے میں اور سائٹ پر چونکہ کافی دھول تھی لہٰذا اکثر صحافی ریسٹورنٹ کے باہر نلکے پر پانی سے ہاتھ منہ دھونے لگے‘ اس دوران ہم کالا باغ والی اس سائٹ کا ذکر بھی کررہے تھے کہ ایسا ہوا تو سندھ کا کیا ہوگا‘ جب ہم چہرے وغیرہ دھو رہے تھے اور آپس میں اس قسم کی باتیں کررہے تھے تو قریب ہی ایک چارپائی پر بیٹھے ہوئے میانوالی کے کچھ سرائیکی غور سے ہماری باتیں سن رہے تھے۔ آخر ان میں سے ایک نے ہمیں مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ سندھی بھائیو سامنے یہ کینال دیکھ رہے ہیں یہ تھل کینال ہے‘ یہ میانوالی کے درمیان سے گزرتی ہے مگر اس کینال سے ہم میانوالی والے پانی کا ایک قطرہ بھی حاصل نہیں کرسکتے‘ اسی دوران وہاں بیٹھے ہوئے ایک اور سرائیکی نے قہقہے مارکر ہم سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ’’ساڈے سندھی بھائیو‘‘ تخت لاہور دے اسیر تسی سندھی نہیں اسی سرائیکی آں‘‘ اس کے بعد یہ سرائیکی اور ہم ایک دوسرے سے گلے ملے‘ اس کے بعد ہم نے لنچ کیا اور پھر گاڑیوں میں واپس ہمیں لاہور لایا گیا۔ دوسرے دن صبح سویرے ہمیں گاڑیوں میں بٹھایا گیا اور کہا گیا کہ اب ایک لمبے سفر پر سرائیکی بیلٹ کے صحرا کی طرف جارہے ہیں‘ یہ سفر سارا دن جاری رہا‘ جب ہم سرائیکی صحرا میں داخل ہوئے تو اندھیرا چھا رہا تھا‘ ہوا بھی چل رہی تھی جس کے نتیجے میں ریت بھی اڑ رہی تھی‘ اچانک ہم نے دیکھا کہ دور صحرا میں روشنیاں ہیں‘ جب ہماری گاڑیاں وہاں پہنچیں تو ہم سب حیران ہوگئے‘ بڑی بڑی سرچ لائٹس کا بندوبست کیا گیا تھا‘ ساتھ ہی بڑی بڑی گاڑیاں اور ٹریکٹر چلتے ہوئے نظر آئے اور زور دار آوازیں آرہی تھیں جب ہم وہاں اترے تو ہمیں بتایا گیا کہ جناب یہ ٹریکٹر گریٹر تھل کینال کی کھدائی کررہے ہیں‘ یہ سن کر غیر ارادی طور پر میری چیخ نکل گئی اور چیخ چیخ کر پوچھتا رہا کہ ابھی تو یہ اسکیم پنجاب کے حوالے ہے اور یہ اسکیم واپڈا کے پاس نہیں بھیجی گئی یہ کہہ کر میں نے سوال کیا کہ یہ کیا ڈرامہ ہے جو سندھ کے ساتھ کھیلا جارہا ہے‘ اسی دوران واپڈا کے ایک سرائیکی اہلکار میرے نزدیک آئے اور کہنے لگے کہ یہ کھدائی سرکاری طور پر شروع نہیں ہوئی بلکہ پنجاب کے ایک ٹھیکیدار نے حکومت کو پیشکش کی کہ پنجاب کے انجینئرز ان کی رہنمائی کریں تو وہ اپنے خرچے پر گریٹر تھل کینال کی کھدائی کرتے ہیں‘ اخراجات بھلے حکومت اسے بعد میں دے‘ اس کے بعد ہمیں سرائیکی بیلٹ میں ایک مقام پر ٹھہرایا گیا‘ میں ساری رات سو نہیں سکا‘ یہ تفکرات لیکر سندھ واپس آئے ‘ ایک دو ماہ کے بعد ملتان میں منعقد کی گئی ایک پانی کانفرنس میں مجھے اور سندھ کے کچھ دیگر لوگوں کو بھی مدعو کیا گیا‘ اس کانفرنس میں جب مجھے تقریر کرنے کی دعوت دی گئی تو میں نے کالا باغ اور دیگر ایشوز پر کسی حد تک کھل کر بات کی مگر جب میں نے گریٹر تھل اسکیم کا ذکر کیا تو بات کھل کر کہنے کی بجائے گول مول انداز میں کی کیونکہ میرا یہ تاثر تھا کہ کیونکہ یہ کینال سرائیکی بیلٹ کے لئے ہے اس وجہ سے ہمارے سرائیکی بھائیوں کو یہ بات شاید ناگوار گزرے‘ جب میں یہ بات اس طرح کررہا تھا تو سامعین میں سے ایک آواز آئی کہ مغل صاحب گول مول انداز میں کیوں بات کررہے ہیں‘ کھل کر بات کریں‘ اس کے بعد میں نے اس اسکیم کے بارے میں سندھ کے سارے اندیشے سامعین کے سامنے رکھ دیئے‘ مجھے حیرت ہوئی کہ میری طرف سے دی گئی تفصیلات سن کر سامعین نے زور دار تالیاں بجائیں‘ بعد میں میری ملاقات ان صاحب سے ہوئی جنہوں نے مجھے مخاطب ہوکر کھل کر بات کرنے کو کہا تھا‘ میں اس وقت ان کا نام ظاہر کرنا نہیں چاہتا‘ وہ اس وقت پاکستان کے ایک چینل پر ملک کے ممتاز تجزیہ کار ہیں اور لوگ ان کی فراہم کی جانے والی معلومات سے استفادہ کرنے کے لئے اس چینل کے پروگرام کا روزانہ انتظار کرتے ہیں۔ دوسرے دن مجھ سے اور سندھ سے آئے ہوئے دوسرے وفد سے کچھ سرائیکی دانشور ملے۔ انہوں نے دعوت دی کہ ایک دو دن ملتان میں ٹھہریں‘ سارے سرائیلی بیلٹ سے دیگر سرائیکی دانشوروں کو بھی مدعو کررہے ہیں‘ اس طرح ہم اور آپ اکٹھے اجلاس کرکے نہ فقط کالا باغ ڈیم مگر گریٹر تھل اسکیم کے خلاف متفقہ قرارداد منظور کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گریٹر تھل کینال کھودی تو سرائیکی بیلٹ میں جارہی ہے مگر سرائیکیوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ اس کینال کے دونوں کناروں پر زمین سرائیکیوں کو نہیں مگر ان کو الاٹ کی گئی ہے جو سندھیوں کے تو ’’مہربان‘‘ ہیں مگر سرائیکیوں کے بھی ’’مہربان‘‘ ہیں‘ ہم سمجھ گئے کہ ان ’’مہربانوں‘‘ سے ہمارے ان میزبانوں کی کیا مراد ہے۔ (جاری ہے)

(نوٹ:کالا باغ ڈیم کے حوالے سے جی این مغل کے یہ ذاتی خیالات ہیں اگر آپ کا لا باغ ڈیم کے بارے میں کوئی رائے پیش کرنا چاہتے ہیں تو ادارتی صفحات حاضر ہیں۔ادارہ)

تازہ ترین