• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حساب برابر کرنے کا معاملہ یا اختیارات کا ناجائز استعمال؟

انصار عباسی

اسلام آباد :… مسلم لیگ(ن) کے سربراہ اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی آشیانہ ہائوسنگ کیس میں گرفتاری سے قبل اس نمائندے کی خیبر پختون خوا میں نیب کے ایک سینئر افسر سے ملاقات ہوئی تاکہ مالم جبہ کیس میں وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے بارے میں خبر حاصل کی جا سکے۔ نیب کی نظروں میں کرپٹ مذکورہ افسر کے بارے میں ثبوت مانگا گیا تو نیب کے اس سینئرا فسرنے بتایا کہ بیورو اعظم خان کے ساتھ وہی کچھ کرنا چاہتا ہے جو اس نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے سابق پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کے ساتھ کیا۔ اعظم خان کی ایک صاف ستھرے بیورو کریٹ کی شہرت کے برخلاف نیب حکام کا اس بات پر زور ہے کہ لوگ اعظم خان کے اصل چہرے سے واقف نہیں ہیں جب ان سے کہا گیا کہ کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر لوگوں کو بدنام اور میڈیا کو استعمال میں لانا نیب کی عادت ہے تو جواب تھا ’’عباسی صاحب پلیز کرپٹ لوگوں کو تحفظ نہ دیں۔‘‘ نیب حکام کا کہنا تھا کہ اعظم خان کو تحفظ دینے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے مبینہ کرپشن کے ثبوت فراہم کرنے کا وعدہ کیا لیکن پھر کبھی نہیں پلٹے۔ اسی روز شہباز شریف کی آشیانہ کیس میں گرفتاری عمل میں آئی جبکہ مالم جبہ کیس میں نیب کی جانب سے ثبوت کا ہنوز انتظار ہے۔ ایک سینئر سرکاری ذر یعے نے بتایا کہ شہباز شریف کے بعد بیورو ہیڈکوارٹر کا اپنے پشاور دفتر پر مالم جبہ کیس کی تحقیقات تیز کرنے پرزور ہے جو بظاہر حساب برابر کرنے کا اقدام لگتا یا اختیارات کا ناجائز استعمال ہے۔ سرکاری ذرائع کا الزام ہے کہ شہباز شریف کی گرفتاری کے ذریعے نیب حساب برابر کرنے کی کوشش کر رہا ہے جس میں تحریک انصاف حکومت کے وزیر دفاع اور وزیراعظم کے اعلیٰ بیورو کریٹک معاون ہدف ہیں۔ اعظم خان کی ساکھ کے حوالےسے معتبر حکام اور خیبر پختون خوا کے سینئر صحافیوں سے استفسار کیا گیا تو سب کی یہ مثبت رائے تھی کہ وہ ایک صاف ستھرے اور اہل افسر ہیں۔ ہفتے کو شائع خبر کے مطابق مالم جبہ میں 275 ایکڑ اراضی کی مبینہ غیرقانونی لیز کی تحقیقات حتمی مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ نیب خیبر پختون خوا نے کیس میں وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان اور سابق چیف سیکرٹری خیبر پختون خوا امجد علی خان کو نیب پشاور آفس میں 25 اکتوبر کو طلب کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق کیس میں سابق ایڈیشنل چیف سیکرٹری خالد پرویز اور ٹور ازم کا رپوریشن کے منیجنگ ڈائریکٹر مشتاق احمد کے خلاف بھی تحقیقات ہو رہی ہیں۔ اعظم خان اور امجد علی کو تمام متعلقہ دستاویزات کے ساتھ حاضر ہونے کی ہدایت کی گئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سیاسی شخصیات اور افسر شاہی نےا یک نجی کمپنی کو محکمہ جنگلات کی محفوظ اراضی لیز کئے جانے کو نظرانداز کیا جہاں قواعد وضوابط کے برخلاف چیئر لفٹ اور تفریح گاہ بنائی جاتی۔ آشیانہ کیس میں نیب کی خام تحقیقات کو قریب سے دیکھنے کے بعد جو اسیر کے خلاف انتقامی کارروائی لگتی ہے اس نمائندے نے اعظم خان کی مالم جبہ کیس میں کئے کرائے کا اندازہ لگانے کے لئے خیبر پختون خوا حکام سے رابطہ کیا۔ ان ذرائع نے جو حقائق بتائے ان کے مطابق والئی سوات کی جانب سے وفاقی حکومت کو دی گئی 275 ایکڑ اراضی 1970 کی دہائی میں ایک ہوٹل اور اسکائی فیسلیٹی قائم کرنی تھی۔ یہ 1980 تک آپریشنل رہی، 1990 کی دہائی میں دوبارہ شروع ہوئی اور 2005-06 عسکریت پسندوں نے اسے تباہ کر دیا۔ 2013 میں مذکورہ اراضی حکومت خیبر پختون خوا کو منتقل کر دی گئی۔ اس شرط پر کہ اسےصرف سیاحتی مقاصد کیلئے استعمال کیا جائے گا۔ وسط جولائی 2014 میں اس وقت کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے ملٹی ڈپارٹمنٹل بی او آ ئی ٹی کی صدارت کی۔ 27 فروری 2014 کو اسکائی اور ہوٹل قائم کرنے کی خاطر اراضی33سال کیلئے آئوٹ سورس کی گئی۔ اس مقصد کیلئے 3 مارچ 2014کو اشتہارات شائع ہوئے۔ ایڈیشنل چیف سیکرٹری کے تحت 9 اپریل 2014 کو لیزنگ کمیٹی بنائی گئی جس میں مختلف محکموں کے ارکان شامل تھے۔ پری کوالیفکیشن کو حتمی شکل دینے کیلئے ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ تین فرموں کو شارٹ لسٹ کیا گیا ذیلی کمیٹی نے 26 مئی 2014 کو حتمی رپورٹ دی اور پھراس کی سفارشات پر مذکورہ تین فرموں کو 7 جولائی 2014 کو اپنی پریذینٹیشن دینے کیلئے کہا گیا جس کے بعد ایڈیشنل چیف سیکرٹری کی قیادت میں مرکزی کمیٹی نے سب سے بڑی بولی دہندہ (ایک کروڑ20 لاکھ سالانہ میں ہر سال 10 فیصد اضافے کے ساتھ) کو منصوبے کی تکمیل کے وقت کے تعین سے آگاہ کرنے کیلئے کہا تاکہ اسے لیز میں شامل کیا جا سکے۔ یہ سب کچھ ہونے کے بعد اعظم خان نے سیکرٹری ٹور ازم کا چارج 14 جولائی 2014 کو سنبھالا ۔ 12 اگست 2014 کو ایڈیشنل چیف سیکرٹری کی قیادت میں مرکزی کمیٹی کے اجلاس میں ایم ڈی ٹور ازم کارپوریشن خیبر پختون خوا کو سب سے بڑی بولی دینے والے کو آفر لیٹرجاری کرنے کے لئے کہا گیا۔ 18 اگست کوا یڈیشنل چیف سیکرٹری نے چیف سیکرٹری کو اس سارے عمل سے آگاہ کیا۔ فائل پر محکمہ قانون کا مؤقف تھا کہ سمجھوتہ قانون کے مطابق ہے لیکن لیز کی میعاد 33 سال لیز پالیسی کے مطابق نہیں ہے جو 15 سال 15سال تھی جس پر سیکرٹری سیاحت جو وزیراعظم کے اب پرنسپل سیکرٹری ہیں، فائل پر لکھا کہ حوالہ شرائط کی منظوری اور اشتہارات میں بھی لیز کی میعاد 33 سال ظاہر کی ہے۔ اعظم خان کا مؤقف تھا کہ بولی کے عمل کو واپس نہیں کیا جا سکتا اگر ایسا کیا گیا تو نجی شعبے کااعتماد خصوصاً عسکریت پسندی سے متاثر علاقوں میں تتر بتر ہو جائے گا۔ اعظم خان کے نوٹ پر بورڈ آف ریونیو کے سینئررکن جو لیز پالیسی کے نگراں بھی ہیں انہوں نے لیزپالیسی سے استثنیٰ کے لئے وزیراعلیٰ سے منظوری لینے کیلئے تجویز دی اس وقت کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری نے فائل پر تحریر کیا کہ معاملہ حوالہ شرائط کی منظوری کے وقت طے ہو گیا تھا اور وزیراعلیٰ نے 33 سالہ لیز کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن چیف سیکرٹری نے فائل کو دوبارہ منظوری کے لئے وزیراعلیٰ کے پاس بھیجا جنہوں نے اس کی منظوری دیتے ہوئے4 ستمبر 2014 کو منیجنگ ڈائریکٹر ٹور ازم کارپوریشن خیبر پختون خوا کو لیز معاہدہ کرنےکی اجازت دی۔ کیس کی تفصیلات سےواقف ایک نیب افسر نے اسے حساب برابر کرنے کا کیس ہونے کے تاثر کو مسترد کر دیا اور کہا کہ اسے خالصتاً میرٹ کی بنیاد پر رجوع کیا جا رہا ہے۔ بیورو افسر کا نیب سفارشات کے حوالے سے کہنا تھا کہ مالم جبہ ریزورٹ پروجیکٹ نااہل سیمنز گروپ آف کمپنیز کو دینے میں پروکیو رمنٹ رولز کی سنگین خلاف ورزی کی گئی اور 270ایکڑ جنگلات کی محفوظ اراضی کولیز میں شامل کرنا کے پی فارسٹ آرڈیننس 2002 کی بھی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 33 سالہ لیز بھی تمام قواعد، قوانین اور پالیسیوں کی خلاف ورزی ہے۔ مذکورہ کمپنی کو فائدہ اور قومی خز انے کو بھاری نقصان پہنچانے کے لئے اسے کوڑیوں کے مول دے دیا گیا۔ نیب سفارشات کے مطابق پروجیکٹ اپنی شروعات ہی سے بدنیتی پر مبنی ہے۔ اس کا کوئی فزیبلیٹی جائزہ اور نہ ہی لاگت کا تخمینہ لگایا گیا۔ نیب تحقیقات کے مطابق پیشکش دینے کی آخری تاریخ 31 مارچ سے بڑھا کر 10 اپریل کی گئی۔ کنٹریکٹ حاصل کرنے والی کمپنی نے اسی توسیعی میعاد میں اپنی پیشکش داخل کی۔ اس معاملے میں محکمہ جنگلات کو اعتماد میں نہ لئے جانےپر سنگین تحفظات تھے تاہم نیب تحقیقات کے مطابق لیز ایگریمنٹ اور لیز میں توسیع کی میعاد 33 سال میں سہولت دینے کی لیز پالیسی کا فیصلہ 4 مئی 2018 کو اور وہ بھی وزیراعلیٰ کی نیب تحقیقاتی ٹیم کےسامنے 25 اپریل کو پیشی کے بعد کیا گیا۔ 

تازہ ترین