• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ موجودہ اتحادی حکومت کے دور کا شرمناک باب ہے۔ آج بھی سہیل نقوی جیسے باصلاحیت اور اعلیٰ تعلیم و تحقیق کے فروغ اور معیار کے لئے سرگرم ایچ ای سی کے ممبر کو مختلف طریقوں سے پریشر میں رکھا جا رہا ہے۔ ان کا جرم یہ ہے کہ وہ دنیائے علم کے سب سے بڑے جرم پلیجرازم کی بیخ کنی کے لئے سرگرم کیوں ہیں۔
بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ۔ قوم کو صبح نو کا خواب دکھانے والی پنجاب حکومت بھی پیچھے نہیں ہے۔ اس نے بڑی خاموشی کے ساتھ یونیورسٹی ایکٹ کا ترمیمی بل اسمبلی میں پیش کرا کر ایکٹ میں صوبے کی پبلک یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر کے انتظامی اختیار 15(3) کا سیکشن ختم کرا دیا۔ جس سیاسی لابی نے بیورو کریٹس اور سیاستدانوں کو گمراہ کر کے یونیورسٹیوں کی خودمختاری کی پیٹھ پر چھرا گھونپا ہے، اس کا بے نقاب ہونا یونیورسٹیوں کے نظام کو بغیر سیاسی رکاوٹوں اور دباؤ کے چلانے کا فوری تقاضا ہے۔ 15(3) وائس چانسلر صاحبان کا وہ اختیار ہے جو آئے دن کی فیصلہ سازی (جس کے لئے طویل وقفوں سے ہونے والے سنڈیکیٹ کے اجلاس کا انتظار نہیں کیا جا سکتا) کو تیز رکھنے اور معاملات کو جلد سے جلد نمٹانے کا اختیار ہے۔ اس کے تحت یونیورسٹی میں کام کرنے والی تمام تر باڈیز (ماسوائے سینٹ) سلیکشن بورڈ، فنانس کمیٹی، اکیڈیمک کونسل وغیرہ کی فیصلہ سازی پر عملدرآمد کرانے کے لئے وائس چانسلر کی عارضی منظوری ہوتی تھی، حتمی منظوری سنڈیکیٹ دیتی ہے، جس کے اجلاس (اس کی ساخت کے حوالے سے ) سال میں چار چھ سے زیادہ ممکن ہی نہیں۔ گویا بہت سے روٹین کے کام جن کا تعلق اساتذہ و طلبہ اور تدریس و تحقیق سے ہوتا ہے اور ان پر فوری عملدرآمد مطلوب ہو سنڈیکیٹ کے اجلاس کے بغیر بھی روبہ عمل آ جاتے تھے اب یہ روایتی سرکاری محکموں کی طرح ٹھپ ہو کر فائلوں میں پڑے رہیں گے۔ 15(3) کو باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے بڑے ”کور“ کے ساتھ ختم کرانے کے واقعہ کی تحقیق از حد ضروری ہے کہ اس کا محرک کون ہے؟
یہ کیسے ہوا کہ اتنا اہم ترمیمی بل تیار ہوا، ٹیبل ہوا، بحث سے بچ گیا، پاس ہو کر میڈیا میں آنے سے بچ گیا اور اچانک وائس چانسلر صاحبان کو اس سے آگاہ کیا گیا جس پر انہیں مدر یونیورسٹی پنجاب یونیورسٹی میں فوری جمع ہو کر اپنا کنسرن خادم اعلیٰ پنجاب کو نوٹ کرانا پڑا۔ جناب شہباز شریف کو کسی مخصوص سیاسی لابی اور بیورو کریٹس نے مل کر بڑی فنکاری سے انتخاب سے پہلے ایک امتحان سے دوچار کر دیا ہے۔ انہیں جتنا پیار اپنے واقعی قابل تعریف و توصیف پراجیکٹ ”دانش اسکول“ سے ہے کیا اتنا ہی اہم وہ صوبے کی دانش گاہوں کی خودمختاری کو بھی سمجھتے ہیں؟ اب نہیں تو انتخاب کے بعد یہ ترمیم بالآخر حکومتی جماعت کو واپس لینا پڑے گی۔ میاں صاحب اپنے خلاف اس سازش کا پتہ لگائیں کہ انہیں وفاقی اتحادی حکومت کا اتحادی کس نے بنا دیا کہ آپ کو بھی یونیورسٹیوں سے محاذ آرائی پر لگا دیا۔
تازہ ترین