• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حالیہ ضمنی انتخابات اگرچہ اگلے عام انتخابات کے نتائج کا پیش خیمہ نہیں مگر چند حقیقتیں منکشف ہوئی ہیں جن کا ادراک و اظہار ضروری ہے۔
ذات برادری، دھڑے بندی اور دھن دولت کے علاوہ مسلح گروہ انتخابی نتائج پر بری طرح اثرانداز ہوئے اور ثابت ہوا کہ جب تک ان مکروہات کو قومی سیاست سے خارج کرنے کی شعوری کوشش نہیں ہوتی قوم اپنی آزادانہ رائے استعمال کرنے اور مرضی کے نمائندے چننے سے قاصر رہے گی۔ یہ عناصر سیاسی جماعتوں پر حاوی ہیں اور روایتی سیاسی خانوادوں کی کامیابی کا راز کوئی نظریہ یا جماعت نہیں یہ مکروہ عناصر ہیں اگر انہیں اپنی کامیابی کا یقین ہوتو یہ موقع پرست امیدوار خالصہ دل اور راشٹریہ سیوک سنگھ کا ٹکٹ لینے میں بھی عار محسوس نہ کریں ۔ بھلے کل تک ان کے خلاف بیان بازی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے ہوں۔
ساہیوال کے حلقہ این اے 162 سے زاہد اقبال کی کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ سیاسی جماعتوں نے دھڑے اور برادری کے سامنے سرنڈرکردیا ہے اوراصولوں ، نظریات اور سیاسی فلاسفی کو پس پشت ڈال کر محض انتخابی کامیابی کو مطمع نظر بنا لیا ہے موصوف کا غذات نامزدگی جمع کرانے تک پیپلز پارٹی میں تھے فریال تالپور سے پی پی کا ٹکٹ وصول کرنے اسلام آباد پہنچے اور پھر رائیونڈ کا رخ کرلیا کیونکہ انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ پیپلز پارٹی اب تین میں ہے نہ تیرہ میں۔ مسلم لیگ (ن) کو بھی یقین تھا کہ تحریک انصاف سے وابستگی کے سبب رائے حسن نواز کا مقابلہ صرف زاہد اقبال کرسکتے ہیں اس لئے اپنے کسی جانثار کارکن کی قربانیوں کا اعتراف کرنے اسے میدان میں اتارنے اور ”اقتدار کی سیاست“ کا بول بالا کرنے کے بجائے پنجاب کی حکمران جماعت نے ٹکٹ اسے تھما دیا جس کے نزدیک نظریہ اور جماعت شب خوابی کا لباس ہے پہننا اور اتارنا دونوں آسان۔
جو تجزیہ نگار پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ق) ایم کیو ایم اور اے این پی پر مشتمل اتحاد کے بارے میں اس خوش فہمی کا شکار تھے کہ اپوزیشن کے انتشار اور عمران فیکٹر کی وجہ سے مضبوط انتخابی قوت بن چکا ہے اور ایک بار پھر کامیابی کے جھنڈے گاڑ سکتا ہے انہیں صدر زرداری کی گٹھ جوڑ صلاحیت اور چودھری برادران کی معیت میں میاں منظور وٹو کی دھڑا سیاست کے حوالے سے اپنی رائے پر نظرثانی کرنی پڑ ے گی۔پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو وفاق میں برسراقتدار حکمران اتحاد سے کوئی خطرہ نہیں اور وہ تاحال اپنی مقبولیت برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔ دھاندلی کے الزامات اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لئے ہیں ورنہ انتخابی حلقوں میں تھوک کے حساب سے ترقیاتی فنڈز، وفاقی اداروں میں ملازمتیں، بجلی اور گیس کے کنکشن، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی رقم اور دیگر مراعات دے کر ووٹروں کی وفاداریاں خریدنے میں پیپلز پارٹی نے کوئی کسرنہیں چھوڑی،انتخابات کا بگل بجا تو ناہید خان، صفدر عباسی اور بھٹو و بے نظیر کے کئی دیگرساتھی بھی پیپلز پارٹی کی جڑوں میں بیٹھ کر اسے دن کو تارے دکھائیں گے اور مسلم لیگ (ق) اس کی کوئی مدد نہ کر پائے گا۔
کوئی مانے یا نہ مانے صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں مقابلہ اب مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف میں ہے۔ پیپلز پارٹی سندھ کے سوا کسی جگہ مسلم لیگ (ن) کی مدمقابل نہیں، بلوچستان اس کے ساتھ ہوگا جو مرکز میں حکومت بنائے گا،فیصلہ کن معرکہ پنجاب میں متوقع ہے اور لاہور، ملتان، ساہیوال کے ضمنی انتخابات میں ملک ظہیر عباس کھوکھر، شوکت حیات بوسن اور رائے حسن نواز کو ملنے والے ووٹ اس بات کا ثبوت کہ تحریک انصاف سے وابستگی کی کیااہمیت ہے؟ جبکہ یہ بھی سب جانتے ہیں کہ حکمران جماعت کے امیدوار کو مخالف پر نفسیاتی اور سیاسی برتری حاصل ہوتی ہے ضمنی انتخاب سے کسی تبدیلی کا امکان نہیں ہوتا اور مختلف دھڑے، برادریاں اور بااثر افراد اپنی اپنی وجوہات، توقعات اور مفادات کی بناء پر حکمران جماعت کو سپورٹ کرتے ہیں کیونکہ وہی ان کے مطالبات کو فوری طور پر پورا کرنے کی پوزیشن میں ہوتی ہے۔ پولیس و انتظامیہ کا بالواسطہ اور براہ راست تعاون بھی سرکاری امیدوار کو حاصل ہوتا ہے۔
اگر انتخابات وقت پر ہوئے کئی حلقہ بندیوں، ووٹروں کی جانچ پڑتال اور عدالتی فیصلوں پر مکمل عملدرآمد کے علاوہ امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال یا کسی ناگہانی آفت کی بناء پرطویل عرصہ تک ملتو ی نہ کردیئے گئے تو مقابلہ میاں نواز شریف اور عمران خان میں متوقع ہے۔ غیرجانبدار نگران حکومت اور غیر متنازعہ الیکشن کمیشن نے آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کی ذمہ داری بحسن و خوبی نبھائی اور 2008ء کی طرح کوئی این آر او کسی ایک جماعت کے اقتدار کی راہ ہموار کرنے کا ذریعہ نہ بنا تو موجودہ بدترین بدامنی، مہنگائی، بے روزگاری، غربت و افلاس، بدانتظامی، کرپشن، اقرباپروری اور امریکہ کی غلامی کا ملبہ حکمران جماعتوں پر گرے گا کسی پر زیادہ یا کسی پر کم اور کامیابی ماضی کے بوجھ سے آزاد جماعت کی جھولی میں آگرے گی۔ پکے ہوئے پھل کی طرح۔
تحریک انصاف اور عمران خان اگر جماعتی انتخابات کی دلدل سے بخیر و خوبی نکل آتے ہیں مدمقابل جماعتوں سے بہتر ساکھ کے امیدوار میدان میں اتارتے، انقلابی نعروں سے انتخابی ماحول گرم کرتے، کروڑوں پر جوش، پرعزم، پراعتماد نوجوانوں کو متحرک کرلیتے ہیں اور قوم کو یقین دلا دیتے ہیں کہ وہ کامیابی سے کم پر کسی صورت راضی نہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ تبدیلی کا خواب حقیقت کا روپ نہ دھارے اور گٹھ جوڑ، ذات برادری، مفاد پرستی، اقرباپروری کی موجودہ مکروہ سیاست کا کریا کرم نہ ہو۔ دنیا بدل رہی ہے پاکستان کے عوام نے نہ بدلنے کی قسم تو نہیں کھائی۔
تازہ ترین