• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عام طور پر جواں سال یا زیادہ سے زیادہ ڈھلتی عمر کے لوگوں پر زندگی کی آخری بہاروں سے لطف اندوز ہونے کے لئے ناجائز تعلقات کے الزامات عائد کئے جاتے ہیں جو کسی حد تک قرین قیاس بھی ہوسکتے ہیں۔ ان الزامات کو غیرت مندی کے زعم میں مبتلا لوگوں اور بہانہ بازوں نے ”کاروکاری“ کا نام بھی دے رکھا ہے جو عرف عام میں قتل و غارت کا لائسنس بھی کہلاتا ہے کیونکہ ایک اندازے کے مطابق لائسنس تقریباً نوے فیصد وارداتوں میں قطعی ناجائز طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور انصاف پسندی یا قانون کی حکمرانی کے بلند بانگ مگر کھوکھلے دعوے کرنے والے وحشت اور بربریت کے اس خوفناک ہتھیار کو بے اثر بنانے کی اہلیت، ہمت اور ارادہ نہیں رکھتے۔
اس کا تازہ ترین ثبوت یہ ہے کہ سندھ کے ایک گاؤں بہرام پدافی میں ایک بالکل مختلف اور اتنی ہی ناقابل قیاس و یقین کہانی نشر کی گئی ہے کہ وہاں کی ایک ستر سالہ خاتون حنیفاں جو چلنے پھرنے سے بھی معذور ہیں اپنے ایک سترہ سالہ رشتے دار بلکہ اپنی بھانجی کے بیٹے یعنی اپنے نواسے راشد کے ساتھ ناجائز جنسی تعلقات میں ملوث ہیں اور ان دونوں کو جرگے کے بزرگوں کے ذریعے ”کاروکاری“ کے جرم میں ملوث ہونے کی بنا پر واجب القتل بھی قرار دے دیا گیا ہے۔
ستر سالہ خاتون حنیفاں بی بی نے اپنے خاوند بشیر احمد کی طرف سے عائد کئے گئے اس بھیانک بہتان کی سختی سے تردید کرتے ہوئے اپنے علاقے کے پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی احمد علی پدافی سے رابطہ قائم کیا ہے اور ان سے انصاف اور تحفظ طلب کیا ہے۔ بزرگ خاتون کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر بشیر احمد قرض کے بوج تلے دبے ہوئے ہیں۔ یہ قرض اتارنے کے لئے بشیر احمد نے راشد کے والدین سے چار لاکھ روپے مانگے ہیں اور یہ دھمکی بھی دی ہے کہ اگر چار لاکھ روپے ادا نہ کئے گئے تو وہ ان کے بیٹے راشد کو موت کے گھاٹ اتار دے گا۔ اپنی اس دھمکی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بشیر احمد نے راشد پر الزام عائدکیا ہے کہ وہ اس کے بیوی حنیفاں یعنی اپنی نانی کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کئے ہوئے ہے چنانچہ ”کاروکاری“ کے ضابطے کے تحت واجب القتل ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اگر راشد کی جاں بخشی کے لئے بشیر احمد کو چار لاکھ روپے حاصل کرنے کے سودے میں کامیابی ہوگئی تو اس سے کچھ رقم ”ٹریکل ڈاؤن“ ہو کر جرگے کے بزرگوں کے پاس بھی پہنچ جائے جو ”کاروکاری“ کے الزام کو درست قرار دے چکے ہیں مگر فی الحال راشد اور اس کے والدین کسی نامعلوم مقام پر روپوش ہوچکے ہیں۔ صوبائی اسمبلی کے رکن احمد علی پتافی نے حنیفاں کو یقین دلایا ہے کہ ان کے ساتھ انصاف ہوگا اور انہیں مکمل تحفظ فراہم کیا جائے گا مگر جب تک ہمارا معاشرہ ”کاروکاری“ جیسے ضابطوں اور جرگوں کو تحفظ فراہم کرتا رہے گا حنیفاں اور راشد کو تحفظ اور انصاف فراہم نہیں کیا جاسکے گا۔ حنیفاں کے خاوند بشیر احمد نے اپنے بھائی حضور بخش اور کزن لقمان کے ساتھ مل کر حنیفاں کو ”کاری“ قرار دلوایا اور اسے جسمانی طور پر شدید اذیتوں سے بھی دوچار کیا اور گھر سے نکال بھی دیا۔ بتایا جاتا ہے کہ بشیر احمد نے حنیفاں سے اپنی دوسری شادی چند ماہ پہلے کی تھی اور پھر حنیفاں کے بھائی سے کہا تھا کہ وہ اسے بیس ہزار روپے ادا کرے یا اپنی بہن کو وہاں سے لے جائے۔ مذکورہ بالا واردات کی تفصیلات اخبارات کے ذریعے حکام بالا تک پہنچیں تو ان کے نمائندے ان تفصیلات کی تصدیق کے لئے آئے اور حنیفاں کی جانب سے بشیر احمد اور ان کے بھائیوں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا گیا مگر اس نوعیت کے مقدمات کی سماعت کب ہوگی؟ فیصلے کب ہوں گے؟
تازہ ترین