• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز سینئر صحافیوں سے ملاقات میں دعویٰ کیا کہ پاکستان کے سیاستدانوں میں سے اکثر مجرم ہیں اور ان کیخلاف اتنے ثبوت موجود ہیں کہ وہ بچ نہیں سکتے۔ بیوروکریسی کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انتظامی سطح پر ہمارے لئے مشکلات پیدا کی جا رہی ہیں۔انہوں نے اپنی حکومت گرائے جانے کی سازشوں کا شکوہ کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ کسی دباؤ میں نہیں آئیں گے ۔تحریک انصاف کی مخلوط حکومت کے ابتدائی دو ماہ کی تکمیل پر وزیر اعظم عمران خان کی سیاسی مخالفین اور بیوروکریسی کے ارکان کے خلاف یہ الزام کہ وہ ملی بھگت سے ان کی حکومت ختم کرنے کی سازشیں کررہے ہیں ، اگر گمان کے بجائے حقائق کی بنیاد پر عائد کیا گیاہے تو بلاشبہ ایک سنگین بات ہے۔اسکے بعد ضروری ہے کہ اس کے ثبوت و شواہد بھی قوم کے سامنے لائے جائیں ،تاہم اگر اس موقف کی بنیاد محض قیاس و گمان ہے تو تصویر کے دوسرے رخ کو بھی سامنے رکھا جانا چاہیے۔یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ عام انتخابات سے پہلے تحریک انصاف کی قیادت نے عوام سے کم سے کم وقت میں ان کے مسائل حل کرنے کی جو یقین دہانیاں کرائی تھیں، اس کی بناء پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے فطری طور پر یہ توقع قائم کرلی تھی کہ تحریک انصاف کے اقتدار سنبھالتے ہی عوام کو مصائب سے نجات ملنے کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ یہ سوچ یقیناً حقیقت پسندی پر مبنی نہ تھی لیکن یہ نتیجہ بہرحال ان ہی یقین دہانیوں کا تھا جو پچھلے کئی برسوں سے پاکستان کے لوگوں کو کرائی جارہی تھیں۔چنانچہ اختیارات سنبھالنے کے بعد لوگ منتظرتھے کہ ان یقین دہانیوں کو کس طرح عملی جامہ پہنایا جاتا ہے ۔تحریک انصاف کے شیدائی یہ گمان نہ رکھتے تھے کہ ان کی محبوب سیاسی قیادت بھی ماضی کی حکومتوں کی طرح وعدوں کے مطابق کارکردگی میں مشکلات کا سبب پچھلی حکومت سے ملنے والے ورثے پر عائد کرکے اپنی گلوخلاصی کی کوشش کرے گی۔ مکمل اعتماد کے ساتھ کیے گئے دعووں کی بناء پر عوام کی ایک بڑی تعداد خوش گمان تھی کہ تحریک انصاف کی لائق ٹیم نے اتنا ہوم ورک کررکھا ہے کہ حکومت میں آتے ہی اصلاح احوال کی خاطر طے شدہ اقدامات عمل میں لائے جانے کا سلسلہ شروع ہوجائیگا۔ نہ بجلی ،گیس اور پٹرول کی قیمتیں بڑھا نی پڑیں گی، نہ مہنگائی میں کوئی اضافہ ہوگا، نہ مالی وسائل کی قلت دور کرنے کیلئے آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کی ضرورت پڑے گی اور نہ کسی دوسرے دروازے کو کھٹکھٹانا ہوگا۔لیکن حکومت میں آنے کے بعد تحریک انصاف کیلئے ان توقعات کی تکمیل ممکن ثابت نہ ہوئی ، گیس بجلی کی قیمتوں کے بڑھنے اور روپے کی قدر گرنے سے مہنگائی کا سیلاب امنڈ آیا، آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے معاملے میں جس تذبذب کا مظاہرہ ہوتا رہا اس نے شیئرمارکیٹ کریش کرکے رکھ دی ، پچھلے ہفتے ضمنی انتخابات میں ان حالات کا اثر نمایاں رہا اور تحریک انصاف کی قیادت نے خود بھی تسلیم کیا کہ لوگوں کی توقعات پوری نہ ہونے کی بناء پر وہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی جو متوقع تھی۔ لہٰذا حکومت کو درپیش مشکلات کا سبب سیاسی مخالفین اور بیوروکریسی کی مبینہ سازش کو قرار دینے کے بجائے حالات کے تمام پہلوؤں کا معروضی تجزیہ کرکے درست نتائج تک پہنچنے کی کوشش کی جانی چاہیے ۔احتساب کے عمل کو بے لاگ اور غیرجانبدارانہ رکھنے کیلئے ضروری ہے قومی احتساب بیورو اور ملک کی اعلیٰ عدالتوں کو کسی حکومتی مداخلت اور اکساہٹ کے بغیر کام کرنے دیا جائے۔ محض الزامات کی بنیاد پر کسی کو بھی مجرم قرار دینے سے اجتناب کیا جائے کیونکہ اس سے احتساب کا اعتبار مجروح ہوتا ہے۔یہ حقیقت بھی پوری طرح ملحوظ رکھی جانی چاہیے کہ ملک کی ہموار ترقی کیلئے غیرجانبدارانہ احتساب اورپرامن سیاسی ماحول دونوں یکساں طور پر ضروری ہیں۔ پارلیمنٹ میں پوری سوچ بچار کیساتھ درست پالیسی سازی، پرامن سیاسی ماحول ہی میں ممکن ہے لہٰذا ذمہ داران حکومت کی جانب سے ہوش کو جوش پر غالب رکھنا اور ایسے ہر اقدام سے گریز کرنا ضروری ہے جو سیاسی ماحول میں غیرضروری طور پر اشتعال کا سبب بن سکتا ہو۔

تازہ ترین