جب کوئی معیشت اپنے ذمے واجب الادا قرضے واپس کرنے کے قابل نہ رہے یا زرمبادلہ کے ذخائر اس قدر نچلی سطح پر آجائیں کہ قرضے اور ان پر عائد سود کی واپسی کی کوئی صورت نہ رہے تومعیشت دیوالیہ قرار پاتی ہے۔گزشتہ دودہائیوں کے درمیان دیوالیہ ہونے والے ممالک میں ارجنٹائن اورروس کے بعد اب بڑی حد تک پاکستان بھی اس کے قریب پہنچ گیا ہے جبکہ 1999کے بعد دیوالیہ ہونے والے ممالک کی فہرست میںوینزویلا،یونان،ایکواڈور،بیلائز،ڈومینیکن ری پبلک،یورا گوئے اور مالدووابھی شامل ہیں۔ پاکستان اس سے قبل ایٹمی دھماکوں کے وقت بھی دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکا تھا اورموجودہ صورتحال کے پیچھے بھی واجب الادا غیر ملکی قرضے اوران کاسود ہے جو مجموعی طورپر بڑھتے بڑھتے 28ہزار ارب روپے تک پہنچ چکاہے۔غیر ملکی قرضوں کارسک اس وقت جنم لیتا ہے جب لگاتار قومی بجٹ کے محاصل پورے نہ ہوسکیںاورادائیگیوں کا عدم توازن بڑھتا چلا جائے اس لحاظ سے یہ بدقسمتی رہی ہے کہ وطن عزیز میں کاروباری طبقے کی اکثریت نے ہمیشہ سے اپنا منافع غلط طریقے سے بڑھانے کے لئے ٹیکسوں کی عدم ادائیگی سمیت ہر جگہ مجرمانہ طور طریقے اختیار کئے اوربچ نکلے،قومی اداروں سے کھربوں روپے قرضے لیکر انہیں معاف کرایاگیا جس کاخمیازہ آج ملک کے بائیس کروڑ عوام بھگت رہے ہیں جو آئے دن مہنگائی کے ایک نئے طوفان کاسامنا کررہے ہیں ۔وفاقی وزیرخزانہ کے بقول دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لئے بیل آؤٹ پیکیج ناگزیر ہے تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی یہ آخری کوشش ہے اوراگلے سات سے آٹھ ماہ میں ڈالر کی قدر میں چھبیس ستائیس فیصد کمی ہوگی۔وزیرخزانہ کو اس بیان کی روشنی میں اپنی طے کردہ حکمت عملی کے ساتھ ساتھ دیوالیہ پن کی کیفیت سے باہر آنے والے ممالک کے تجربات پر بھی غور کرنا چاہئے۔تاہم ٹیکس چوری اور قومی معیشت کو اس نہج پرپہنچانے والوں سے ایک ایک پیسہ وصول کرناملک و قوم کے محفوظ مستقبل کے لئے ناگزیر ہے۔