• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گدھے غیر سیاسی ہوتے ہیں اور ان کی کوئی سیاسی جماعت نہیں ہوتی۔یہ فلسفہ شاید پرانا ہوگیا ہے کیونکہ اب گدھوں کے بغیر انسانوں کے ہاں ’’راج نیتی ‘‘ کا کھیل ادھورا محسوس ہوتا ہے۔امریکہ میں تو ڈیموکریٹک پارٹی کا انتخابی نشان ہی گدھا ہے مگر ہمارے ہاں ’’ڈونکی کنگ ‘‘جیسی فلموں کے ذریعے گدھے کو عظمت کا استعارہ بنایا جا رہا ہے اور کیوں نہ بنایا جائے،آخر محنت میں عظمت ہوتی ہے اور گدھے سے زیادہ جانفشانی کا دعویٰ کون کر سکتا ہے۔لیکن یہ سب کرنے سے پہلے گدھوں سے ان کی مرضی معلوم کرنی چاہئے تھی کہ وہ ریاست اور سیاست کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں یا نہیں۔یہ بات شاید بہت کم لوگوں کو معلوم ہو کہ ہمارے ہاں گدھا محض بوجھ اٹھانے والا جانور ہی نہیں ایک قابل قدر جنگی ہیرو بھی ہے جس کی خدمات کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ہری پور سے ایبٹ آباد جاتے ہوئے دریائے ہرو کے کنارے ایک گاؤں آتا ہے جو ’’کھوتا قبر‘‘ کے نام سے مشہور ہے اگرچہ اب اس کا نام تبدیل کرکے مسلم آباد رکھ دیا گیا ہے لیکن لوگ اب بھی اسے ’’کھوتا قبر‘‘ کے نام سے ہی جانتے ہیں۔مقامی روایات کے مطابق یہاں ایک قبرمیں وہ گدھا دفن ہے جسے جنگی ہیرو تسلیم کیا جاتا ہے۔سید احمد شہید سکھوں کے خلاف برسرپیکار تھے تو اپنے جنگجوؤں سے پیغام رسانی کے لئے مبینہ طور پر اس گدھے کی خدمات حاصل کی جاتیں۔کسی روز دشمن پر یہ راز کھل گیا کہ پیغام رسانی کا کام کس کے ذمہ ہے اور انہوں نے گدھے کو مارڈالا۔لیکن یہ گدھے بھی نرے ’’کھوتے‘‘ واقع ہوئے ہیں بمشکل ہیرو کا درجہ ملا لیکن عزت ہضم نہ ہوئی اور سیاست میں آکر نہ صرف ’’کھوتا‘‘ پھر سے ’’کھوہ‘‘ میں ڈال دیا بلکہ ایک بار پھر ہیرو سے زیرو ہوگئے۔اور یہ نوبت آگئی کہ بے حس سیاسی کارکن گدھوں پر سیاسی نعرے اور مخالفین کے نام لکھ کر تشدد کرنے لگے ہیں۔گدھے کو احمق جانور کے طور پر پیش کرنے میں سیاستدانوں اور ادیبوں کا بڑا ہاتھ ہے۔اردو لغت میں خر مغز اور خر دماغ جیسے تمام الفاظ گدھے سے منسوب کر دیئے گئے ہیں اور اسے ڈھٹائی و ہٹ دھرمی کا استعارہ بنا دیا گیا ہے۔لاہوریوں کو ’’کھوتا خور‘‘ کہہ کربالواسطہ گدھے کی قربانیوں کا مذاق اڑایا گیا۔پھر سیاسی کارکنوں پر گدھے کی پھبتی کسی گئی۔

’’ڈونکی کِنگ‘‘ پاکستان کی پہلی ’’حرکت پذیر‘‘فلم ہے جس میں گدھوں کو گاجروں کے بجائے اقتدار کا خواب دکھایا گیا ہے۔کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ شیر جنگل کا بادشاہ ہے لیکن جب اس کے گھٹنوں میں درد کے باعث انتقال اقتدار کی بات آتی ہے تو اس کے بیٹے کو تاج و تخت سے محروم کرنے کے لئے ایک گدھے کو اس کے مقابلے میں بطور امیدوار کھڑا کر دیا جاتا ہے۔گدھا جس کا نام ’’منگو ‘‘ ہے اور پیشے کے اعتبار سے دھوبی ہے وہ کچھ پس وپیش کے بعد الیکشن لڑنے پر آمادگی ظاہر کر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں ریاست کا بوجھ اٹھانے کے لئے تیار ہوں مگر وزن 30کلو سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے۔گدھے کی امیج بلڈنگ کا کام ٹی وی چینلز چلانے والے بندر سنبھال لیتے ہیں۔چالاک لومٹری ’’مس فتنہ ‘‘ جو ’’راج نیتی ‘‘ کے اس کھیل میں بادشاہ گر ہے وہ یہ تاویل پیش کرتی ہے کہ مشکل وقت میں لوگ گدھے کو باپ بنا لیتے ہیں،ہم نے تو صرف بادشاہ ہی بنایا ہے۔بہر حال سیاسی بندوبست کے تحت انتخابات میں گدھے کو کِنگ سلیکٹ کر لیا جاتا ہے۔’’منگو ‘‘ کے راجہ بنتے ہی آزادنگری کے مکینوں کی مشکلات بڑھ جاتی ہیں،لاقانو نیت انتہا کو چھونے لگتی ہے،چالاک لومڑی سرکس ماسٹرز کے ایما پر قانون کی دھجیاں اڑانے لگتی ہے۔جنگل کے معزول بادشاہ اور اس کے بیٹے کو نامعلوم مقام پر قید کر دیا جاتا ہے۔جانور اور ان کے بچے لاپتہ ہونے لگتے ہیں، گدھے کو ان حالات کی خبر ہی نہیں ہوتی۔یہاں تک تو فلم حقیقت کے قریب ترین ہے لیکن اس سے آگے ’’ہیپی اینڈنگ‘‘ کی شروعات ہو جاتی ہیں۔ایک دن ’’ڈونکی راجہ ‘‘ کو سرکس ماسٹرز کا کھیل سمجھ آجاتا ہے،وہ اپنی آنکھوں سے جانوروں کواغوا ہوتے دیکھ لیتا ہے ’منگو‘‘ جو ذات کا گدھا ہے اور جس کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ کبھی نہیں سدھر سکتا،وہ بدل جاتا ہے اور جنگل کے دیگر جانوروں کے ساتھ لاپتہ جنگلی حیات کی بازیابی کے لئےنکل کھڑا ہوتا ہے۔فتنہ فساد کا باعث بننے والی لومڑی ماری جاتی ہے جبکہ سب جانور آزاد ہو جاتے ہیں بادشاہ اور اس کا بیٹا بھی رہا ہو جاتے ہیں۔’’منگو‘‘ تسلیم کرتا ہے کہ وہ بطور مہرہ استعمال ہواجبکہ بادشاہت پر شیر کا حق ہے،شیر بھی وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’’منگو‘‘ کو کہتا ہے کہ تم مینڈیٹ لیکر آئے ہو، اقتدار پر تمہارا حق ہے یوں آزادنگری کے سب مکین ایک بار پھر ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں۔

پاکستان میں اس نوعیت کی پہلی فلم سید کمال نے 70ء کی دہائی میں بنائی جس کا نام تھا ’’گدھا اور انسان‘‘ اس میں منور ظریف اور رنگیلا نے مرکزی کردار ادا کیاتھا اگرچہ فلم تو گدھوں اور انسانوں کی مشترکہ خصوصیات پر مبنی تھی لیکن اس وقت کے سیاسی کارکنوں نے اسے اپنے قائد کے انداز خطابت پر جگت بازی سمجھا۔اسی طرح چند برس بعد ایک بھارتی فلم ریلیز ہوئی جس کانام تھا ’’چور سپاہی ‘‘ اس فلم کا سیاست سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا لیکن ایک سیاسی خاندان نے اتفاقی مماثلت پر اتنا برا منایا کہ اسے پنجاب کے سینما گھروں سے اتروا دیا گیا۔’’ڈونکی کنگ‘‘ بھی ایک غیر سیاسی فرضی کہانی ہے۔فرضی کہانی کے برعکس حقیقی زندگی میں بھلا یہ کیسے سوچا جا سکتا ہے کہ کسی گدھے کوعقل آجائے اور وہ سرکس ماسٹرز کا کھیل سمجھ جائے۔لیکن چونکہ گدھے کے سر پر سینگ نہیں ہوتے اس لئے بعض حلقوں کا خیال ہے کہ اس فلم میں ان کا مذاق اڑایا گیا ہے حالانکہ یہ فلم تو محض گدھوں کی حوصلہ افزائی کے لئے بنائی گئی ہے تاکہ انہیں حکمرانی کا لالی پاپ دے کر مزید محنت مشقت پر آمادہ کیا جا سکے۔

تازہ ترین