• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں روپے کی قدر میں ریکارڈ کمی، گیس کی قیمتوں میں اضافہ، ریگولیٹری ڈیوٹیز کا نفاذ، بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا اشارہ، آئی ایم ایف قرضے کی شرائط اور اسٹاک ایکسچینج میں مندی جیسے مسائل نے پاکستان کی بزنس کمیونٹی کو تشویش میں مبتلا کردیا۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (FPCCI) اور پاکستان بزنس کونسل (PBC) نے وزیراعظم پاکستان ، وزیر خزانہ، وزیراعظم کے معاون خصوصی نعیم الحق، پرنسپل سیکریٹری اعظم خان سےاہم ملاقات کی۔ ملکی معاشی بحران کے پیش نظرفیڈریشن کے مختصر وفد جس میں، میں بھی شامل تھا، نے وزیراعظم سیکریٹریٹ میں اس اہم میٹنگ میں شرکت کی۔ وزیراعظم نے اس بات سے اتفاق کیا کہ ملک کو بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے اور معاشی بحران سے نکلنے کیلئے بزنس کمیونٹی پر دبائو ہے۔ فیڈریشن کے وفد نے ایکسپورٹرز کے سیلز اور انکم ٹیکس ریفنڈ کی عدم ادائیگی، امپورٹیڈ انڈسٹریل خام مال پر اضافی ریگولیٹری ڈیوٹی، گیس کی قیمتیں بڑھانے سے پیداواری لاگت میں اضافہ، نیب اور ایف آئی اے کا بزنس کمیونٹی کو ہراساں کرنا، کمرشل ایکسپورٹرز کو وزیراعظم کے ایکسپورٹ رعایتی پیکیج میں شامل نہ کرنا جیسے مسائل سے آگاہ کیا۔ وزیراعظم اور ان کی ٹیم نے بزنس کمیونٹی کو یقین دلایا کہ ان کی حکومت جلد ان تمام مسائل پر ایکشن لے گی۔ وزیراعظم کی ہدایت پر وزیر خزانہ خصوصی طور پر کراچی آئے اور اسٹاک ایکسچینج اور فیڈریشن کے ممبران سے تفصیلی میٹنگز کیں۔ انہوں نے بتایا کہ آئندہ 7 سے 8 ماہ میں ڈالر کی قدر میں مزید کمی متوقع ہے اور 12 ارب ڈالر کے مالی گیپ کو پورا کرنے کیلئے آئی ایم ایف کے پاس جانا ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ رئیل اسٹیٹ کو بھی اسٹاک مارکیٹ کی طرح ایک منظم نظام میں لائیں گے۔ کرنٹ اکائونٹ خسارہ جو ڈھائی ارب ڈالر سے بڑھ کر 18 ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا، کم ہونا شروع ہوگیا ہے اور حکومت کے پاس فروری 2019ء تک ادائیگیوں کے بیرونی ذخائر موجود ہیں۔ انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ پاکستان میں پیداواری لاگت میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو کرنٹ اکائونٹ خسارے اور بیرونی ادائیگیوں کیلئے 27 ارب ڈالر کی ضرورت ہے جس میں حکومت کو اس سال 9 سے 10ارب ڈالر کی بیرونی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ وہ ملک میں بینکوں سے ادائیگیوں کا رجحان بڑھانے اور بینکنگ سسٹم میں اضافی فنڈز کی دستیابی کیلئے اسٹیٹ بینک کی ڈپازٹ کے مقابلے میں کیش مارجن رکھنے کی حد کو کم کرکے 25 فیصد تک کرنا چاہتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں کیش ڈپازٹ تناسب صرف 16 فیصد ہے اور اس طرح پاکستانی بینکوں میں قرضہ داروں کیلئے اضافی 2 کھرب روپے مہیا ہوں گے جس کو ملک میں مکانات بنانے کی طرح بڑے منصوبوں میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ حکومت نے ورکرز ویلفیئر فنڈز، ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ فنڈز اور ایکسپورٹرز کے سیلز اور انکم ٹیکس ریفنڈز کے 40 ارب روپے مالی خسارہ کم کرنے کیلئے استعمال کئے اور یہی وجہ ہے کہ آج ایکسپورٹرز کو گزشتہ کئی سالوں سے ان کے 37 فیصد ریفنڈز کی ادائیگی نہیں کی جاسکی۔ انہوں نے گیس انفرااسٹرکچر ٹیکس (GIDC) کے پرانے ایشو کیلئے بزنس کمیونٹی کو مزاکرات کی دعوت دی۔ انہوں نے کہا کہ بلیک منی کی کم ویلیوایشن کی وجہ سے اس کی آسان پارکنگ رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ٹیکس ریفارمز کمیٹی اس سلسلے میں سفارشات مرتب کررہی ہے۔ ان کے مطابق پیٹرولیم مصنوعات کی امپورٹ سے پاکستان کا امپورٹ بل تیزی سے بڑھ رہا ہے جس میں کمی کیلئے بزنس کمیونٹی کو پیٹرولیم اور گیس کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنا ہوگی تاکہ ملک میں تیل اور گیس کی دریافت میں اضافہ ہو۔ میں نے وزیر خزانہ سے کہا کہ موجودہ حالات میں حکومت کو ایکسپورٹ، ایگریکلچر اور ایس ایم ایز گروتھ پر فوکس کرنا چاہئے۔ میں نے انہیں مشورہ دیا کہ وزیراعظم نے بیرون ملک پاکستانیوں سے ڈیم فنڈز میں ہزار ڈالر عطیات کی جو درخواست کی ہے، اس کا خاطر خواہ نتیجہ نہیں آیا، اگر حکومت بیرون ملک پاکستانیوں کے عطیات کو نئے ڈیم کے پروجیکٹس میں ان کی شیئر ہولڈنگ کے طور پر لیں تو اس کا بہتر نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے یا حکومت اوورسیز پاکستانیوںکیلئے ڈالر/ سکوک بانڈز کا اجراء کرے۔ وزیر خزانہ نے میری بانڈز کی تجویز کو سراہا اور کہا کہ ان کی حکومت اوورسیز پاکستانیوں کیلئے بانڈز کے اجراء کا ارادہ رکھتی ہے۔

وزیر خزانہ سے ایک خصوصی ملاقات میں بزنس کمیونٹی کے لیڈر افتخار علی ملک نے ان سے درخواست کی کہ میڈیا میں ملکی معیشت کو آئی سی یو میں یا دیوالیہ کے قریب قرار دینے سے سرمایہ کاروں پر نہایت منفی اثر پڑتا ہے، ہمیں سرمایہ کاروں کے اعتماد کو مضبوط رکھنے کیلئے اس طرح کے بیانات سے گریز کرنا چاہئے۔ اسد عمر نے کہا کہ اس کی وجہ میڈیا کا ہمارے بیانات کو سیاق و سباق کے بغیر رپورٹ کرنا ہے۔ اخبارات میں FATF کے بارے میں بے شمار بیانات چھپے ہیں جس میں یہ تاثر دیا گیا ہے کہ منی لانڈرنگ اور ٹیررفنانسنگ پر حکومت کے اقدامات پر پاکستان کا دورہ کرنے والی FATF کی ایشیاء پیسفک گروپ (APG) ٹیم غیر مطمئن واپس روانہ ہوئی ہے جبکہ اس ٹیم سے میری ملاقات میں انہوں نے کسی تشویش کا اظہار نہیں کیا۔ یاد رہے کہ گزشتہ دنوں FATF کی APG ٹیم نے متعلقہ حکام ایف آئی اے، نیب، ایف بی آر، ایس ای سی پی، اسٹیٹ بینک کے ایف ایم یو سے تقریباً 2 ہفتے ملاقاتیں کیں اور ان اداروں کی جانب سے دیئے گئے جوابات خاص طور پر پاکستان میں رئیل اسٹیٹ ٹرانزیکشن پر اپنے عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ انہوں نے منی لانڈرنگ کیسز میں رقوم کی برآمدگی اور سزا کی کم ترین شرح پر گہری تشویش ظاہر کی جس کی بنیاد پر پاکستان کے بارے میں FATF فائنل رپورٹ ہمارے لئے زیادہ مددگار ثابت نہ ہوگی۔ فی الحال FATF کی APG ٹیم نے پاکستان کو منی لانڈرنگ کی روک تھام کیلئے این جی اوز، ٹرسٹ، بینکنگ اور فنانشل اداروں اور رئیل اسٹیٹ کے متعلق نئے قوانین بنانے اور ان کی تمام بڑی مالی ٹرانزیکشن کی نشاندہی کرنے کے ایک منظم سسٹم کی تشکیل کیلئے 6 مہینے یعنی مارچ 2019ء کا وقت دیا ہے۔ اگر پاکستان نے ستمبر 2019ء تک اپنے 10 نکاتی ایکشن پلان پر عملدرآمد کرلیا تو پاکستان گرے لسٹ سے نکل سکتا ہے۔ میرا حکومت بالخصوص وزیر خزانہ کو مشورہ ہے کہ وہ مقررہ وقت میں ایکشن پلان پر عملدرآمد یقینی بنائیں نہیں تو پاکستان کو منی لانڈرنگ اور ٹیررفنانسنگ کی بلیک لسٹ میں شامل کرلیا جائے گا جس کے ہم متحمل نہیں ہوسکتے۔

تازہ ترین