• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بکھری یادیں اور باتیں۔ بیرسٹر صبغت اللہ قادری کی کتاب کا نام ہے، جس کی تقریب رونمائی گزشتہ دنوں آرٹس کونسل آف پاکستان میں منعقد ہوئی۔ یہ کتاب ایک عہد، ایک نسل کی کہانی ہے۔ ایک ایسا عہد، جس میں باقی پوری تاریخ انسانی کے مقابلے میں سب سے زیادہ انقلابات رونما ہوئے اور ایک ایسی نسل، جس میں باقی پوری انسانی تاریخ کے مقابلے میں سب سے زیادہ عظیم لوگ پیدا ہوئے۔ یوں تو یہ کتاب بیرسٹر قادری کی خود نوشت ہے لیکن ان کے بقول یہ آپ بیتی نہیں بلکہ جگ بیتی ہے۔ بیرسٹر قادری لندن میں مقیم ہیں لیکن پاکستان کے جمہوری، سیاسی اور ترقی پسند حلقوں کی وہ انتہائی مقبول شخصیت ہیں۔ صبغت اللہ قادری کا تعلق اس نسل کے لوگوں سے ہے، جنہوں نے تاریخ کا شعور دیا اور جنہوں نے اپنے نظریات اور اپنی جدوجہد سے لوگوں کو متاثر کیا۔

اس کتاب کا مطالعہ کرکے ایک پورے عہد کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ 20ویں صدی علم و دانش کی صدی تھی۔ یہ بڑے لوگوں کی صدی تھی۔ جس طرف نظر گھمائی جاتی تھی، عظیم لوگوں کی ایک کہکشاں نظر آتی تھی۔ اس صدی میں انسان نے اپنی آزادی، مساوات اور امن کے لئے تاریخ انسانی کی سب سے بڑی جنگیں لڑیں۔ 20 ویں صدی تاریخ کے سب سے اہم واقعات اور بڑے انقلابوں کی صدی ہے۔ اس میں سب سے زیادہ ممالک نے نو آبادیاتی شکنجوں سے آزادی حاصل کی۔ اشتراکی انقلابوں نے تاریخ کا دھارا موڑ دیا۔ جمہوری تحریکوں نے عوام کو طاقت کا سرچشمہ بنا دیا۔ اس عہد میں پاکستان میں جو کچھ ہوا، ’’ بکھری یادیں اور باتیں ‘‘ اس عہد کا تذکرہ ہے، جو صبغت اللہ قادری جیسے شخص نے بہت تنظیم اور ترتیب کیساتھ کیا ہے۔ وہ اگرچہ کراچی سے لندن منتقل ہو گئے لیکن پاکستان کی ہر سیاسی اور جمہوری تحریک میں ان کی شمولیت پاکستان میں رہنے والوں سے زیادہ رہی۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ ان تحریکوں اور جدوجہد کے تسلسل میں ہیں اور کتاب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان لوگوں کی طرح گمراہ نہیں ہوئے، جو اس تسلسل میں نہیں رہے۔ صبغت اللہ قادری کراچی کی طالب علم تحریکوں کے ہر اول دستے میں رہے۔ وہ ہم سے سینئر طالب علم رہنما تھے۔ وہ کراچی میں 7 جنوری 1953 ء کے طلباء کے اس احتجاج میں شامل تھے، جس میں اس وقت کے وزیر داخلہ مشتاق گورمانی کی گاڑی کا گھیراؤ کیا گیا اور پولیس کی فائرنگ سے طلباء سمیت 27 افراد شہید ہو گئے تھے۔ اس احتجاج کی ڈاکٹر سرور، ڈاکٹر ادیب رضوی اور ڈاکٹر ہارون احمد جیسے طالبعلم رہنما قیادت کر رہے تھے۔ بیرسٹر قادری کا خاندان ہندوستان کے تاریخی شہر بدایوں سے ہجرت کرکے 1951ء میں پاکستان پہنچا تھا۔ لاہور اور شکارپور سے ہوتے ہوئے وہ کراچی کے علاقے پی آئی بی کالونی میں آباد ہوئے۔ بیرسٹر قادری نے میٹرک پرائیویٹ امیدوار کے طور پر کیا اور اس کے بعد ایس ایم سائنس کالج میں داخلہ لے لیا۔ وہ کالج میں آنے سے قبل ہی اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کر چکے تھے۔ بیرسٹر قادری طلباء تحریکوں میں صف اول کے رہنما میں شامل ہوگئے۔ انہوں نے ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن ( ڈی ایس ایف ) اور نیشنل اسٹوڈنٹ فیڈریشن (این ایس ایف ) کے پلیٹ فارم سے جدوجہد جاری رکھی۔ ایوب خان کے مارشل لاء میں وہ پہلے سیاسی قیدیوں میں شامل تھے۔ وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جیسے ہی مارشل لاء نافذ ہوا، ہم نے دنیا کو باور کرانا شروع کر دیا کہ یہ مارشل لاء امریکہ نے لگوایا ہے۔ بیرسٹر قادری کی اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس عہد کے لوگ ہر معاملے کا واضح ادراک رکھتے تھے۔ آج کے عہد کے لوگوں میں یہ خصوصیت ناپید ہو گئی ہے۔ بیرسٹر قادری یہ بھی لکھتے ہیں کہ ’’ گرفتاری کے وقت پولیس نے مجھ پر الزام لگایا کہ میں کمیونسٹ نظریات کا پرچار کرتا ہوں۔ میں ہاری تحریک کا حصہ ہوں حالانکہ میںکبھی ہاری تحریک کا حصہ نہیں رہا تھا اور میں ایوب خان اور امریکہ کی مخالفت کرتا ہوں۔ ایوب اور امریکہ کی مخالفت کا الزام درست تھا کیونکہ ہم اس گٹھ جوڑ کے خلاف بات کرتے تھے۔ ‘‘ دسمبر 1960ء میں بیرسٹر قادری اپنی ہمشیرہ کی عیادت کیلئے لندن گئے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ واپس آئینگے لیکن وہ پھر وہیں کے ہو رہے۔ 1951ء سے 1960ء تک وہ پاکستان خصوصاً کراچی میں رہے لیکن پاکستان کی سیاست میں پاکستانیوں سے زیادہ ملوث رہے۔ یہ انکا کمال ہے۔ انہوں نے فن لینڈ کی ایک ترقی پسند سیاسی کارکن کرتیا نامی خاتون سے شادی کرلی اورکرتیا بھابھی پاکستان سے جانیوالے سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کی سب سے بڑی میزبان رہیں اور ہیں۔ وہ پاکستانی کھانوں سے مہمانوں کی تواضع کرتی ہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ جب بیرسٹر قادری لندن روانہ ہو رہے تھے، ایئرپورٹ پر انہیں الوداع کہنے کیلئے دوست احباب جلوس کی شکل میں آئے تھے۔ ان دوستوں میں اداکار محمد علی، سید عبدالودود، محمد شفیع، علی مختار رضوی، فتحیاب علی خان، معراج محمد خان، شیر افضل ملک، ڈاکٹر محبوب، برکات عالم اور صغیر احمد جیسے لوگ شامل تھے۔ لندن جانے کے بعد نہ صرف ان دوستوں سے بیرسٹر قادری نے تعلق برقرار رکھا بلکہ پاکستان بھر کے سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں سے انکے پاکستانیوں سے زیادہ رابطے رہے۔ پاکستان سے جلا وطنی اختیار کرنے والے سیاسی رہنماؤں کا مسکن بیرسٹر قادری کا گھر تھا۔

پاکستان میں صرف 9سال قیام کا رشتہ بیرسٹر قادری گزشتہ 6عشروں سے نبھا رہے ہیں۔ وہ نہ صرف ہم سے زیادہ پاکستان کے معاملات میں شامل رہے بلکہ پاکستان کی سیاسی اور جمہوری تحریکوں کو چلانے میں اہم کردار ادا کرتے رہے۔ دنیا نے دیکھاکہ شیخ مجیب اور ذوالفقار علی بھٹو سے لیکر آج کے سیاسی رہنماؤں تک انہوں نے سب کی میزبانی کی۔ انہوں نے میر مرتضیٰ بھٹو اور شاہ نواز بھٹو کیساتھ ملکر جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء اور بھٹو کی پھانسی کیخلاف ’’ پاکستان بچاؤ بھٹو بچاؤ ‘‘ تحریک چلائی۔ انہوں نے پاکستان کے قوم پرستوں اور جمہوری رہنماؤں کو لندن میں پلیٹ فارم مہیا کیا۔ انہوں نے ایوب خان کا لندن میں گھیراؤ کیا اور مشرف کی آمرانہ حکومت کیخلاف بھی وہاں تحریک منظم کی۔ بیرسٹر قادری نے انگلینڈ کی سرزمین پر رہتے ہوئے اس مٹی کا حق بھی ادا کیا اور وہاں نسل پرستی کے خلاف تحریکوں میں سرگرم کردار ادا کیا۔ وہ پاکستان میں جمہوری اور بنیادی حقوق کیلئے ہمیشہ لڑتے رہے۔ بیرسٹر قادری ایک کامیاب وکیل تھے اور ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی سیاستدان کا ان سے مسلسل رابطہ رہا۔ نیلسن منڈیلا جیسے عالمی لیڈروں کیساتھ ملاقاتوں کا بھی انہیں شرف حاصل رہا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے کئی ایسے راز ہیں، جو بیرسٹر قادری کے پاس ہیں کیونکہ پاکستان کی اہم سیاسی شخصیات نے کئی تحریکوں کی منصوبہ بندی ان کے سامنے کی اور انہوں نے لندن میں ان تحریکوں کیلئے پلیٹ فارم مہیا کئے۔ کتاب دیکھ کر بہت سی باتیں یاد آ رہی ہیں۔ میں جب ماڈل اسکول پاکستان چوک میں زیر تعلیم تھا، انکے ساتھ شاید پہلی ملاقات سید سعید حسن کیساتھ ہوئی تھی لیکن ان سے زیادہ ملاقاتیں لندن میں رہیں۔ میں جب بھی لندن گیا یا وہ جب بھی کراچی آئے، ہماری ملاقات ضرور ہوئی۔ انہوں نے یہاں میرے گھر میں اور میں نے لندن میں انکے گھر میں کئی بار قیام کیا بیرسٹر قادری نابغہ روزگار شخصیت ہیں۔ وہ اپنی ذات میں ایک ادارہ ہیں اور لندن میں ایک ایسے پاکستانی ہیں، جنہوں نے پاکستان کے لئےوہ کچھ کیا، جو شاید یہاں رہتے ہوئے بھی بہت کم لوگ کر پائے ہوں گے۔ کتاب میں ان کی سابق آرمی چیف آصف نواز جنجوعہ سے لندن میں ہونے والی ملاقات کا احوال بہت دلچسپ ہے۔ انہوں نے آصف نوازسے کہا کہ اس سے پہلے کہ میرے بارے میں ایم آئی والے آپ کو بتائیں، میں خود آپ کو بتاتا ہوں کہ میں کیا ہوں اور میرے نظریات کیا ہیں۔ بیرسٹر قادری نے اپنا جو تعارف کرایا، وہ انکے الفاظ میں ہی پڑھنا مناسب ہو گا۔ وہ ایک غیر معمولی عہد کے غیر معمولی انسان ہیں۔

تازہ ترین