• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم سے یہ دوسری ملاقات، پہلی بار ملے وزیراعظم سیکرٹریٹ میں، صحافی 20سے زائد، اس بار بنی گالہ میں، صحافی 15، میرا بنی گالہ کا بھی یہ دوسرا پھیرا، اس سے پہلے استادِ گرامی حسن نثار کے ہمراہ بنی گالہ تب گیا جب شاہد خاقان عباسی وزیراعظم تھے، وہ ملاقات اس لئے بھی یادگار کہ اس روز جب ہم ڈرائنگ روم میں بیٹھ چکے، کپتان اور حسن نثار کی گرما گرم بحث شروع ہو چکی تو پہلے فریش جوس آیا، پھر ڈرائی فروٹ، عجوہ کھجوریں اور پھر چائے کے ساتھ چکن بوٹی، پیزا، شامی کباب اور فریش کیک، یہ سب دیکھ کر میں نے خان صاحب سے کہا ’’ہم نے تو سنا تھا کہ بنی گالہ میں چائے کا کپ بھی مانگنے پر ملتا ہے مگر آج یہ...‘‘ عمران خان شرماتے اور مسکراتے ہوئے بولے ’’آج تمہاری بھابھی گھر پر، سب اسی نے بھجوایا‘‘ لیکن وزیراعظم سیکرٹریٹ اور بنی گالہ میٹنگز بھگتا کر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ جہاں واقعی اس دن کمال بھابھی کا، وہاں یہ حسن نثار صاحب کی آؤ بھگت بھی تھی، ورنہ ہم تو چائے کے ایک کپ اور 2بسکٹوں والے۔

دوپہر ڈیڑھ بجے جب ہم کانفرنس روم میں بیٹھ چکے تو 5منٹ بعد فواد چوہدری اور افتخار درانی کے ہمراہ وزیراعظم بھی آگئے، نعیم الحق پہلے سے موجود، سینیٹر فیصل جاوید بعد میں آئے، علیک سلیک کے بعد گفتگو شروع ہوئی، دو تین اینکرز نے شکوہ کیا، فواد چوہدری، نعیم الحق اور افتخار درانی کے علاوہ آپ کا کوئی وزیر ہمارے پیغام کا جواب بھی نہیں دیتا، رابطے کا یہ فقدان کیوں، عمران خان کا جواب تھا ’’یہ ہماری غلطی، واقعی گزشتہ دو ماہ میں حکومتی پالیسیوں کے حوالے سے جس طرح ہمیں آگاہ کرنا چاہئے، نہیں کر سکے، مؤثر رابطہ نہیں رکھ پائے لیکن آئندہ ایسا نہیں ہو گا‘‘، خراب معیشت اور آئی ایم ایف کے کنفیوژ سوالوں پر وزیراعظم کا کہنا تھا ’’آئی ایم ایف کے پاس جا رہے، کوئی کنفیوژن نہیں، بس بات اتنی سی کہ چین، سعودی عرب، یو ا ے ای سمیت دوست ممالک سے بات کر رہے ہیں، جتنا پیسہ یہاں سے ملے گا، اتنا کم پیسہ آئی ایم ایف سے لیں گے کیونکہ ان کی شرائط بہت سخت اور اس کے اثرات بہت برے، لہٰذا کوشش یہی کہ آئی ایم ایف سے کم سے کم پیسہ لیاجائے‘‘۔

اپوزیشن کے احتجاج، اتحاد پر عمران خان بہت کلیئر تھے کہا، یہ جعلی، کمزور اپوزیشن، یہ اکٹھے ہونے کی اداکاری کر رہے، مقصد لوٹ مار کا پیسہ بچانا، زیادہ تر کو میں سیاستدان ہی نہیں مانتا، یہ ڈاکو، لیٹرے، قومی مجرم، ملک کے ساتھ وہ کر گئے جو دشمن بھی نہ کرے، جس سے سوال پوچھ لو اس کی جمہوریت خطرے میں پڑ جائے، اس دن جب شہباز منڈیلا اسمبلی میں تقریر کر رہا تھا، غصہ تو بہت آیا، مگر نہ بولا، کہیں ان کا استحقاق مجروح، جمہوریت خطرے میں نہ پڑے جائے، ان کے شور شرابے، دباؤ کا مقصد کوئی این آر او ہو جائے یا حکومت گر جائے مگر حکومت گرے گی نہ این آر او ہو گا، نہ یہ بچیں گے‘‘، ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا ’’میری زندگی کے دکھی لمحے وہ جب مخالفین نے پیسے دے کر خواتین کے ذریعے میری کردار کشی کی، تب بھی مشکل وقت تھا جب ایک سال سپریم کورٹ نے میری تلاشی لی، جمائما سے علیحدگی کے پیپرز، 40سال پہلے کا ریکارڈ اور نجانے کیا کیا، جو چیزیں مجھ سے مانگی گئیں، کسی بھی پارلیمنٹرین سے مانگ لی جائیں، نہیں دے پائے گا‘‘، موجودہ حالات پر گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا ’’بلاشبہ ہم مشکل دور سے گزر رہے، حالات بہت برے مگر میری پوری زندگی ہی گزری اسی قسم کے پریشر ہینڈل کرتے، آپ کو یہ سن کر حیرانی ہو گی کہ بیورو کریسی ابھی تک تعاون نہیں کر رہی، ایل این جی ٹرمینل پر معلومات لیتے لیتے دو ماہ لگ گئے، اب ہم ایسے لوگوں کو نکال رہے، یہ وقت گزر جائے گا، بہت کچھ اچھا بھی ہو رہا، بلدیاتی انتخابات کے بعد نئے صوبے کا ڈرافٹ پارلیمنٹ میں آنے والا، اگلے آٹھ دس دنوں میں ’غربت مٹاؤ‘ پلان آرہا، بیورو کریسی اصلاحات پر کام ہو رہا، 50لاکھ گھروں کا منصوبہ شروع ہو چکا، بینکوں کے کنسورشیم اور قوانین پر کام تیزی سے جاری‘‘، ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے بتایا ’’پچھلی حکومتوں نے ڈالر کو مصنوعی طور پر روکنے کیلئے 6ارب ڈالر لگا دیئے، اتنے پیسے ہمارے پاس ہوتے تو آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا پڑتا، بیڈ گورننس کا حال یہ کہ اربوں کی گیس چوری کے علاوہ ہر 100یونٹ بجلی پر 30یونٹ چوری یا لائن لاسز میں ضائع ہو رہی، یہ نقصان بنا 14ارب کا، اسی وجہ سے ہمیں بجلی کی قیمتیں بڑھانا پڑ رہیں‘‘۔

ڈیڑھ گھنٹے کی اس بیٹھک میں بڑے دلچسپ مراحل بھی آئے، جیسے جب لوٹی دولت پر بات ہو رہی تھی تو عمران خان کہنے لگے ’’ہم نے یو اے ای حکمراں سے کہا، آپ ہماری لوٹی دولت ہی واپس کر دیں، قرضہ نہ بھی دیں تو کام چل جائے گا‘‘ ایک موقع پر عمران خان بولے ’’مجھ پر یوٹرنز کا الزام، بتائیں یہ یوٹرنز ہوتے کس لئے ہیں، لینے کیلئے، اب چلتے چلتے سامنے دیوار آ جائے تو بندہ یوٹرن نہ لے تو کیا کرے، کوئی بے وقوف ہی ہو گا جو مڑنے کی بجائے دیوار کو ٹکریں مارتا رہے گا‘‘۔ ایک معاملے پر جب عمران خان یہ بتانے لگے کہ ’’پچھلی حکومت نے یہ کیا، پچھلوں نے وہ کر دیا‘‘ تو میں نے بات کاٹی ’سر یہ ہم بیسیوں بار سن چکے، انہی کرتوتوں پر پچھلے گھر جا چکے، اب آگے بڑھیں‘‘ یہ سن کر عمران خان بولے ’’میں اپنی بات مکمل کر لوں‘‘ میں نے کہا ’’سر! جو کچھ آپ بتانا چاہ رہے، وہ آپ سے سن سن کر ہم نے رٹ لیا، اب حل بتائیں‘‘ وزیراعظم نے قدرے تلخ لہجے میں کہا ’’میری بات تو سن لو‘‘ میں نے کہا ’’سر! آپ اس پر کیوں نہیں بات کرتے کہ کل جس ناصر درانی کے ذکر بنا آپ کی کوئی تقریر مکمل نہیں ہوتی تھی، آج وہ مستعفی ہوئے، تو آپ نے پلٹ کر خبر بھی نہ لی، کل اسد عمر جس اسحاق ڈار کے کھاتے میں ہر برائی ڈال رہے تھے، آج اسی اسحاق ڈار کی تعریفیں کر رہے، کل تک ن لیگ کی فنانس ٹیم بری تھی، آج جہانزیب خان، طارق باجوہ، شاہد محمود سمیت ساری ٹیم ن لیگ کی‘‘ اس بار عمران خان نے میری بات کاٹی ’’پھر تم بھی رؤف کلاسرا کی طرح بتا دو، مجھے کن بندوں کو کہاں لگانا ہے‘‘۔ میں نے اِردگرد دیکھ کر کہا ’’اچھا اسی وجہ سے آج رؤف کلاسرا یہاں نہیں، مطلب اگلی واری میں وی نئیں‘‘ عمران خان سمیت سب ہنس پڑے، اس کے بعد ایک دو بار وزیراعظم نے رؤف کلاسرا کا ذکر یوں بھی کیا کہ ایک بندہ لگاؤ تو اس کیخلاف چارج شیٹ، دوسرا لگاؤ تو اس کے خلاف لمبی لسٹ، ہم کیا کریں، پھر مجھے مخاطب کر کے بولے ’’تم دیکھ لینا چھ ماہ بعد پاکستان میں حالات بدل چکے ہوں گے، یہاں ڈالر ہی ڈالر ہوں گے‘‘ میں نے کہا ’’چلو آپ کو چھ ماہ دے دیئے لیکن آپ پرفارم نہ کر سکے تو پھر واقعی رؤف کلاسرا سے درخواست کرنا پڑے گی‘‘ وزیراعظم ہنس کر بولے ’’کیا خیال ہے،میں رؤف کو اپنا ایڈوائزر نہ رکھ لوں‘‘ ایک دوست نے لقمہ دیا ’’سر کہیں کلاسرا صاحب یہ نہ کہہ دیں خان صاحب کو کہیں وہ میرے ایڈوائزر بن جائیں‘‘ ایک قہقہہ لگا اور یوں تلخ، کڑوے کسیلے سوالوں کے جواب انتہائی صبر سے دینے اور مسائل و مصائب میں گھرے مگر پرعزم وزیراعظم کے ساتھ ہماری یہ دوسری ملاقات اختتام پذیر ہوئی۔

کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین