• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

73 برس 3 ماہ23 دن۔ غالبؔ کے نَفَس کی آمدوشد کی یہ تو ظاہری کیفیت ہے اور معنوی کیفیت کا حال یہ ہے کہ نثر اور نظم غالبؔ کی ساحرانہ اور شاعرانہ ادا کی ایسی قائل ہوئی کہ ادب کے مسافر سے معاصر تک اور گزشتگان سے آیندگان تک کی نظر میں غالبؔ سب سے انوکھا اور نرالا ٹھہرا۔ آسان اتنا کہ مصرعے پر نثر کا گمان ہو۔ مثلاً؎ پوچھتے ہیں وہ کہ غالبؔ کون ہے۔ اور مشکل اتنا کہ؎ غالبؔ صریرِ خامہ نوائے سروش ہے۔ نثر ایسی کہ زمانے کے مزاج کو بدل ڈالا اور مُرصّع اور مُقفّیٰ تحریر کو مکالمے کا پیکر عطا کر دیا۔ جدّت، نُدرت، تغزّل، تعقّل، ظرافت، متانت، شگفتگی، بے ساختگی، کھلنڈرا پن، بیانِ رنج و محن، طنز کی کاٹ اور الفاظ کی کاٹ چھانٹ، غرض جس رُخ سے بھی غالبؔ کو دیکھا، بے اختیار زبان پر آیا کہ؎ ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ ساکہیں جسے۔

27 دسمبر 1797ء کو آگرہ میں عبداللہ بیگ خان اور عزّت النّساء بیگم کے گھر ایک بچّے نے جنم لیا۔ عزّت النّساء آگرے کے ایک انتہائی امیر فوجی عُہدے دار، میرزا غلام حسین خاں کمیدان کی صاحب زادی تھیں۔ لکھنا پڑھنا خُوب جانتی تھیں۔ سو، خانگی اُمور میں بھرپور دِل چسپی لیا کرتیں۔ بچّے کا نام اسد اللہ بیگ خان رکھا گیا۔ بچّے کے دادا، میرزا قوقان بیگ خان سلجوقی تھے، جو محمد شاہ رنگیلے کے عہدمیں اپنے والد، ترسم خاں سے ناراض ہو کر سمرقند سے ہندوستان آئے تھے۔ ترکی زبان بولتے تھے، جب کہ ہندوستانی زبان سے شاید واجبی سی شناسائی تھی۔ وہ اوّل لاہور اور پھر دہلی میں عہدِ شاہ عالم میں شاہی ملازم قرار پائے۔ کچھ وقت کے بعد وہاں سے ہجرت کی اور مہاراجہ جے پور کے ہاں ملازمت اختیار کر لی۔ جب تک قوقان بیگ حیات رہے، اُن کے بیٹے عبداللہ بیگ کو معاش کے لیے کوئی تگ و دَو نہیں کرنی پڑی، مگر باپ کے انتقال کے بعد جب مُغلیہ سلطنت کی بنیادیں کم زور پڑنا شروع ہوئیں، تو عبداللہ بیگ نے اوّل لکھنٔو میں نواب آصف الدّولہ کے یہاں ملازمت کی اور وہاں سے کچھ ہی عرصے میں دکن چلے آئے اور آصفی سرکار میں سپاہیانہ خدمات انجام دینے لگے۔ خانہ جنگی ہوئی، تو وہ ملازمت بھی جاتی رہی۔ پھر وہ آگرے سے الور روانہ ہوئے۔ وہاں راجا بختاور سنگھ کی حکومت تھی۔ راجا نے ابھی عبداللہ بیگ سے نوکری کا وعدہ بھی نہ کیا تھا کہ راجا کے کچھ زمین داروں نے بغاوت کر دی۔ اُن کی سرکوبی کے لیے جس فوج کو بھیجا گیا، اُس میں عبداللہ بیگ بھی شامل تھے۔ بد قسمتی سے اُنہیں ایک گولی لگی، جس کے نتیجے میں وہ جانبر نہ ہو سکے۔

عبداللہ بیگ کی عُرفیت میرزا دولہا تھی۔ سو، اسی نسبت سے اُن کے بیٹے، اسد اللہ بیگ کی عُرفیت مرزا نوشہ قرار پائی۔ایک اہم بات یہ بھی تھی کہ عبداللہ بیگ نے اپنی زندگی گھر داماد کے طور پر بسر کی ، جس کی وجہ یہ تھی کہ عزّت النّساء بیاہی جانے کے باوجود اپنے باپ کے گھر ہی میں رہیں۔ یہی سبب تھا کہ بچّے کی ابتدائی عُمر ننھیال میں بسر ہوئی۔1802ء کا سال تھا اور ابھی بچّہ 5برس ہی کا تھا کہ باپ دُنیا سے چل بسا۔ اتنی کم عُمری میں باپ کا سایہ سَر سے اُٹھنے کے باعث بچّہ شدید احساسِ محرومی کا شکار ہو گیا۔ اس بچّے سے بڑی ایک بہن، چھوٹی خانم تھی، جب کہ ایک سب سے چھوٹا بھائی، مرزا یوسف بیگ تھا۔ تاہم، راجا بختاور سنگھ کی طرف داری کرتے ہوئے مارے جانے کا صلہ راجا نے یہ دیا کہ ریاست الور کی طرف سے یتیم بچّے کو دو گاؤں عطا کر دیے گئے اور اسی کے ساتھ ہی روز کی گزر اوقات کے واسطے بھی کچھ رقم دی جانے لگی۔ یوں بچّے کا یہ دَور کسی حد تک معاشی خوش حالی میں بسر ہونے لگا۔ بچّے کے نانا، خواجہ غلام حسین کمیدان تھے اور آگرہ میں اچّھی خاصی جائیداد کے مالک بھی۔ بہت سے گاؤں زیرِ ملکیت ہونے کے باعث آگرے کے رئوساء میں اُن کا شمار ہوتا تھا۔

بعد ازاں، بچّہ اپنے چچا، نصر اللہ بیگ کی سرپرستی میں آ گیا، جو مرہٹوں کی طرف سے اکبر آباد کے صوبے دار تھے۔ چُوں کہ نصر اللہ بیگ کی کوئی اولاد نہ تھی ، اس لیے انہوں نے بھائی کی اولاد ہی کو اپنی اولاد جانا۔ انگریز کمشنر نے نصر اللہ بیگ کی بہادری کے سبب انہیں اچّھی خاصی زمین بھی عطا کر دی تھی۔ یہ پورا سلسلہ ظاہر کرتا ہے کہ بچّے کا ذہنی و ارتقائی سفر ایک شاہانہ اور سپاہیانہ مزاج کے ساتھ آگے بڑھا۔ ابھی بچّے کا تعلیمی سلسلہ ڈھنگ سے شروع ہی نہ ہوا تھا کہ 1806ء میں چچا، نصر اللہ بیگ ہاتھی سے گر کر زخمی ہوئے اور انتقال کر گئے۔ خوش قسمتی سے نصر اللہ بیگ کی اہلیہ، والیٔ فیروز پور جھروکا، لوہارو، احمد بخش خاں کی بہن تھی۔ لہٰذا، احمد بخش خاں کی سفارش پر انگریز سرکار کی طرف سے اُن کی بیوہ بہن کو 10ہزار روپیہ سالانہ وظیفہ جاری ہوا۔ وظیفے کے حصّے داروں کی تعداد مع اسد اللہ بیگ خان6تھی۔ ابھی اس انگریزی وظیفے کو جاری ہوئے دوسرا مہینہ ہی شروع ہوا تھا کہ ایک نیا حُکم نامہ جاری ہوا، جس کے تحت وظیفے کی رقم 10ہزار سے کم کر کے 5ہزار سالانہ کر دی گئی اور اُس 5ہزار سالانہ میں بھی 2ہزار سالانہ کے حصّے دار چچا کے ملازم، خواجہ حاجی قرار پائے، جنہوں نے خود کو نصر اللہ بیگ کا عزیز ظاہر کررکھا تھا۔ یوں 3ہزار روپے سالانہ میں سے 1.5ہزار روپے مرزا نصر اللہ بیگ کی والدہ اور تین بہنوں اور اتنے ہی اسد اللہ بیگ اور اُن کے چھوٹے بھائی، مرزا یوسف کو دیے جانا قرار پایا۔ گویا اسد اللہ بیگ 750روپے سالانہ وظیفے کے حق دار ٹھہرے۔

جیسے تیسے کر کے زندگی بسر ہونے لگی اور تنگی تُرشی کے ساتھ چند برس گزر گئے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب آگرہ میں فارسی کا غلبہ تھا اور فارسی شعر و شاعری عمومی رُجحان تھا۔ اس پورے عرصے میں بچّہ، جو فطری طور پر ذہین تھا، شاعری میں یک گونہ دل چسپی لینے لگا۔ یہ 1807-8ء کا زمانہ تھا۔ عجیب بات یہ تھی کہ اسد اللہ بیگ کو اپنے آباء کا پیشہ یعنی سپہ گری ناز کرنے کی حد تک پسندتو تھا، مگر اسے اپنانے میں کوئی دل چسپی نہ تھی۔1810ء میں اسد اللہ بیگ کو مولوی محمد معظّم کے مکتب واقع آگرہ میں تعلیمی سفر طے کرنے کے لیے داخل کروایا گیا۔ گرچہ باپ کے سایۂ عاطفت سے محروم ہونے کا قلق اُن کے ہم رکاب تھا، مگر طبیعت کی ذکاوت و فرحت ہر قسم کی تفریح کا موقع ڈھونڈتی رہتی تھی۔ تعلیمی سفر شروع ہوا ،تو اسد اللہ خاں غالبؔ نے کتاب میں دِل چسپی لینا شروع کی، لیکن ابھی عُمر13یا 14برس ہی تھی کہ بیگم نصر اللہ بیگ نے اپنی بھتیجی، امراؤ بیگم سے مرزا غالبؔ کی شادی کروا دی۔ شادی ہوتے ہی مرزا نے دلّی سے رختِ سفر باندھا اور آگرے چلے آئے۔ اب زندگی کا نیا رنگ ڈھنگ سامنے آیا۔ کبھی گنجفہ، کبھی چوسر، کبھی شطرنج تو کبھی پتنگ۔ غرض گھر سے باہر دل لگانے کا سامان وافر تھا۔ 1811ء کا سال تھا کہ عبدالصّمدنامی شخص ایران سے بہ غرضِ سیّاحت ہندوستان آیا اور سیر سپاٹا کرتے کرتے آگرہ پہنچ گیا۔ یہاں اُس کی ملاقات غالبؔ سے ہوئی۔ گفتگو فارسی ادبیات پر آئی، تو غالبؔ نے عبدالصّمد کو اپنا استاد مان لیا اور استاد نے بھی ایک ہونہار شاگرد کو زبان کے تمام اسرار و رموز سکھا دیے۔ یوں عُنفوانِ شباب آتے آتے غالبؔ فارسی میں رواں ہو گئے۔ استاد عبدالصّمد کی صحبت، غالبؔ کی فارسی زبان سے قدرتی نسبت کو خُوب راس آئی۔

1813 ء کے آس پاس غالبؔ دلّی چلے آئے۔ اسی اثناء میں شعر گوئی سے رغبت اس حد تک بڑھی کہ شعر کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔ ابتدا میں تخلّص اسدؔ رکھا، مگر بعد میں اُسے غالبؔ کر دیا۔ تخلّص کی تبدیلی کے ذیل میں ایک واقعہ کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ مرزا غالبؔ کے ایک جاننے والے بنارس سے دلّی آئے۔ حال احوال دریافت کرنے کے بعد انہوں نے غالبؔ کے سامنے اُن کے ایک شعر کی بہت تعریف کی۔ غالبؔ نے کہا کہ ’’آپ نے میرے شعر کی اتنی تعریف کر دی۔ اب شعر بھی سُنا دیجیے۔‘‘ اُن صاحب نے شعر پڑھا۔؎ اسدؔ اس جفا پر بُتوں سے وفا کی… مِرے شیر شاباش رحمت خدا کی۔ شعر دراصل استاد الشّعراء، مرزا رفیع سوداؔ کے شاگرد، میر امانی کا تھا، جو اسدؔ تخلّص کیا کرتے تھے اور جو صاحب غالبؔ سے ملنے آئے تھے، وہ اس بات سے نا واقف تھے کہ یہ شعر مرزا سوداؔ کے شاگرد کا ہے اور اسدؔ کی مناسبت سے انہوں نے یہی گمان کیا کہ یہ شعر غالبؔ کا ہے۔ غالبؔ نے شعر سُننے کے بعد کہا کہ ’’اگر یہ شعر کسی اور اسدؔ نے کہا ہے، تو اُس پر رحمت خدا کی اور اگر مَیں نے کہا ہے، تو مجھ پر لعنت خدا کی۔‘‘

غالبؔ نے شاعری میں کسی کی شاگردی اختیار نہیں کی اور محض اپنی طبیعت ہی کو اپنا رہبر جانا۔ 1813ءتا1816ء وہ آگرے اور دلّی کے درمیان وقت گزارتے رہے اور پھر 1816ءہی میں دلّی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ اب عُنفوانِ شباب تھا اور نو عُمری سے سُخن وَری کی عادت کثرتِ مشق سے اس حد تک بڑھ چُکی تھی کہ اُردو میں کہا گیا کلام دیوان کی شکل اختیار کر گیا۔ تاہم، اشاعت سے اس وجہ سے دُور تھا کہ بہت سے مسائل و معاملات اُنہیں گھیرے ہوئے تھے۔ ممتاز محقّق، مالک رام نے ’’ذکرِ غالبؔ‘‘ میں اُس دَورِ شاعری کے بارے میں کچھ یوں تحریر کیا ہے کہ ’’شروع میں اُن کی زیادہ تر توجّہ اُردو کی طرف رہی اور وہ بھی بیدلؔ، اسیرؔ اور شوکتؔ کے رنگ میں۔ 25برس کی عُمر تک تقریباً دو ہزار اشعار کا ایک دیوان تیار ہو گیا۔ اگر یہی روش رہتی، تو اُن کی ادبی موت میں کسے شُبہ ہو سکتا تھا، لیکن غنیمت ہے کہ اُن کی خداداد صلاحیت نے اُن کی رہنمائی کی اور انہوں نے یہ راہ ترک کر دی۔‘‘ صحت و عدم صحت کی بحث سے قطعِ نظر ایک واقعہ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ میر تقی میرؔ کے زمانۂ آخر میں کسی نے اُنہیں غالبؔ کی کوئی غزل دکھائی۔ میرؔ نے رائے دی کہ’’ اگر اس لڑکے کو (غالبؔ کی عُمر اُس وقت 13،14برس ہی ہو گی) کوئی استادِ کامل مل گیا، تو شاعری میں بڑانام پیدا کرے گا، ورنہ مہمل گو بن جائے گا۔‘‘

اُس زمانے کی دلّی مٹتی ہوئی تہذیب کی شاید آخری جھلک تھی۔ مُغلیہ سلطنت کا سورج تقریباً غروب ہو چُکا تھا۔ مقامی حُکم راں تو محض نام کے رہ گئے تھے اور اصل حُکم رانی انگریز کی تھی۔ گرچہ ہندوستانی سماج میں اپنے شان دار ماضی میں خود مختاری کے ساتھ واپس جانے کی خواہش موجود تھی، مگر خواہش سے جُڑی حکمتِ عملی کا فُقدان لوگوں کو ذہنی خلجان میں مبتلا کیے ہوئے تھا۔ دلّی میں غالبؔ کو شعر و شاعری کے علاوہ تصوّفانہ فضا بھی میسّر آئی، جس سے اُفقِ ذہنی کچھ اور وسیع ہو چلا۔ اسی دلّی میں غالبؔ کو مولوی فضلِ حق خیر آبادی سے صحبتوں کا موقع ملا، جنہیں غالبؔ بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اُن دنوں دلّی بڑی مذہبی بحث کی آماج گاہ تھی۔

چُوں کہ غالبؔ کو فارسی سے ایک خاص نسبت تھی، لہٰذا ابتدائی رنگِ شاعری بھی فارسی طرز ہی کا رہا، بلکہ کبھی کبھی تو یوں بھی ہوا کہ پورے پورے اشعار میں اُردو کا کوئی ایک آدھ لفظ ہی شامل ہوتا۔ فارسی شعراء، بالخصوص بیدلؔ کے رنگِ شاعری نے غالبؔ کو شُہرت کی بہ جائے ذہنی اذیّت میں مبتلا رکھا۔ اُن کے ہم عصر شاعر اُنہیں مُہمل گو شاعر کہہ کر یاد کرنے لگے۔ حکیم آغا جان عیشؔ ایک کُہنہ مَشق شاعر تھے۔ انہوں نے ایک رُباعی میں غالبؔ کو کچھ اس طرح سخت طنز و استہزاء کا نشانہ بنایا کہ ؎اگر اپنا کہا تم آپ ہی سمجھے تو کیا سمجھے… مزہ کہنے کا جب ہے، اک کہے اور دوسرا سمجھے… کلامِ میرؔ سمجھے اور زبانِ میرزا ؔ سمجھے… مگر اُن کا کہا، یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے۔ تاہم، جلد ہی غالبؔ نے اس رنگ کو ترک کر دیا اور اب جو رنگ اختیار کیا، تو وہ غالبؔ پر ایسا چڑھا کہ کوئی اور شاعر مقابلے میں ٹھہر ہی نہ سکا۔ تاہم، اب خانگی مسائل نے سَر اٹھانا شروع کر دیا۔ ازدواجی زندگی غالبؔ کو بہت حد تک بوجھ معلوم ہونے لگی۔ اوپر تلے غالبؔ کے 7بچّے ہوئے، مگر بد قسمتی سے ایک بھی نہ بچ پایا۔1822ء غالبؔ کے لیے ایک کٹھن سال ثابت ہوا۔ وجہ یہ تھی کہ نواب احمد بخش خاں نے اپنی جائیداد اولاد میں اس طرح تقسیم کی کہ غالبؔ کے وظیفے کی تقسیم کے سارے معاملات اُن کے بڑے بیٹے، شمس الدّین کے پاس آ گئے۔ شمس الدّین خاں ایسے نواب تھے کہ جو غالبؔ کو ناپسند کرتے تھے، چناں چہ نا پسندیدگی رنگ لائی اور غالبؔ پینشن سے محروم کر دیے گئے۔ غالبؔ اپنی بے اعتدال زندگی کی وجہ سے لوگوں سے قرض لینے کی حاجت بہت کثرت سے محسوس کرتے تھے اور جب قرض خواہوں کو اپنی دی ہوئی رقم ڈوبتی نظر آنے لگی، تو انہوں نے غالبؔ سے مسلسل رقم کی واپسی کا تقاضا شروع کر دیا۔ یہ غالبؔ کے لیے خاصی مشکل اور پیچیدہ صورتِ حال تھی۔ ان تمام مشکلات کے ہوتے ہوئے 1826ء کا سال آیا، تو ایک اور اُفتاد آن پڑی۔ پریشانی کی وجہ یہ تھی کہ اُن کے چچا، نصر اللہ بیگ کے ملازم، خواجہ حاجی، جو سرکاری وظیفے میں سے2ہزار سالانہ کے حصّے دارتھے، انتقال کر گئے۔ غالبؔ توقّع کر رہے تھے کہ خواجہ حاجی کے بعد وظیفے کی رقم اُنہیں ملنے لگے گی، مگر ایسا نہ ہوا اور وہ وظیفہ خواجہ حاجی کے دو بیٹوں کو منتقل ہو گیا۔ اب غالبؔ دُہری مشکل میں تھے۔ ایک مشکل نواب شمس الدّین کا مخالفانہ طرزِ عمل کہ جس کے نتیجے میں غالبؔ وظیفے سے محروم کر دیے گئے اور دوسری مشکل یہ کہ خواجہ کی وظیفے کی جو رقم غالبؔ کے حصّے میں آنی چاہیے تھی، وہ بھی نہ مل پائی اور ان ساری مشکلات سے بڑی مشکل، قرض خواہوں کے پیہم تقاضے تھے۔ یہ سارے عوامل دیکھ کر غالبؔ نے فیصلہ کیا کہ اس صریحاً ناانصافی کے خلاف انگریز سرکار سے فریاد کی جائے۔ سو، انہوں نے قانونی چارہ جوئی کی غرض سے مقدّمے کے لیے کلکتہ (اب کول کتہ) جانے کا فیصلہ کیا۔ اُس زمانے میں ہندوستان پر ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت تھی اور اُس کا صدر مقام کلکتہ تھا، جہاں گورنر جنرل بھی تھا اور اُس کی انتظامی کائونسل بھی۔ غالبؔ دلّی سے چلے، تو اوّل کان پور آئے اور وہاں سے لکھنٔو پہنچے۔ لکھنٔو میں اُن کی خوب آؤ بھگت ہوئی۔ وہاں اُن کے اعزاز میں ایک مشاعرہ بھی منعقد ہوا، جس میں خود غالبؔ نے یہ غزل پڑھی۔؎ لکھنٔو آنے کا باعث نہیں کھلتا، یعنی… ہوسِ سیر و تماشا، سو وہ کم ہے ہم کو … مقطعِ سلسلۂ شوق نہیں ہے یہ شہر… عزمِ سیرِ نجف و طوفِ حرم ہے ہم کو۔

غالبؔ کی زندگی پر لکھی جانے والی پہلی کتاب خواجہ الطاف حسین حالیؔ کی ’’یادگارِ غالبؔ‘‘ ہے اور یہ صحیح معنوں میں یوں ایک یادگار کتاب ہے کہ یہ غالبؔ کی پہلی سوانح حیات قرار دی جا سکتی ہے۔ حالیؔ نے غالبؔ کو اُس وقت دیکھا کہ جب غالبؔ زندگی کی آخری سیڑھیاں چڑھ رہے تھے اور خود حالیؔ زینۂ حیات کے ابتدائی مدارج طے کر رہے تھے۔ حالیؔ نے غالبؔ کے قیامِ لکھنٔو کے سلسلے میں ایک لطیفہ بیان کیا ہے کہ ’’لکھنٔو کی ایک صحبت میں جب کہ مرزا وہاں موجود تھے، ایک روز لکھنٔو اور دلّی کی زبان پر گفتگو ہو رہی تھی۔ ایک صاحب نے مرزا سے کہا کہ ’’جس موقعے پر اہلِ دہلی ’’اپنے تئیں‘‘ بولتے ہیں، وہاں اہلِ لکھنٔو ’’ آپ کو‘‘ بولتے ہیں۔ آپ کی رائے میں فصیح ’’آپ کو‘‘ ہے یا ’’اپنے تئیں‘‘؟‘‘مرزا نے کہا کہ ’’فصیح تو یہی معلوم ہوتا ہے، جو آپ بولتے ہیں، مگر آپ کو فرشتہ خصائل جانتا ہوں اور مَیں اس کے جواب میں اپنی نسبت سے یہ عرض کروں کہ مَیں تو آپ کو کتّے سے بد تر سمجھتا ہوں، تو سخت مشکل واقع ہو گی۔ مَیں تو اپنی نسبت کہوں گا اور آپ ممکن ہے کہ اپنی نسبت سمجھ جائیں۔‘‘ تمام حاضرین یہ لطیفہ سن کر پھڑک گئے۔‘‘

غالبؔ نے تقریباً 5ماہ لکھنٔو میں قیام کیا اور وہاں سے الہ آباد، بنارس ،پٹنہ اور پھر کلکتہ آئے۔ کلکتے کے شملہ بازار میں ایک مکان کرائے پر لیا۔ یہاں رہتے ہوئے غالبؔ کو بہت اچّھا محسوس ہوا اور کچھ وقت کے لیے وہ اپنے سارے دُکھ درد اور پریشانیاں بُھول گئے۔ یہاں کی آب و ہوا خاص طور پر اُنہیں بہت پسند آئی۔ اُس زمانے میں کلکتہ میں انگریزوں کا اصل حساب کتاب چلتا تھا۔ انگریزوں نے اپنے روزمرّہ کے اُمور نمٹانے کے لیے جدید مشینیں نصب کی تھیں۔ سڑکوں، پُلوں اور دفاتر کا نظام چُوں کہ اُن ہی کے ہاتھ میں تھا، لہٰذا ہر چیز میں سلیقہ اور حُسنِ انتظام نمایاں تھا۔ یہ تمام چیزیں غالبؔ کو بہترین معلوم ہوئیں اور وہ انگریزوں کے نظام سے بہت حد تک متاثر بھی ہوئے۔ کلکتہ میں بھی مشاعروں کا سلسلہ جاری رہا۔ چناں چہ ایسے ہی کسی مشاعرے میں غالبؔ نے جب اپنا کلام سُنایا، تو اُن کے بعض اشعار پر لوگوں نے تنقید کی۔ غالبؔ نے ناقدین پر جوابی تنقید کی ،جس سے کافی شور اور ہنگامہ برپا ہوا۔ یہ ایک طرح سے اجنبی سرزمین پر غالبؔ کا ادبی معرکہ تھا، جس کی انتہا یہ ہوئی کہ غالب ؔنے اپنے معترضین کے جواب میں ’’بادِ مخالف‘‘ کے عنوان سے مثنوی تحریر کی اور یوں اُن کی شُہرت میں اضافہ ہوا۔ یہ سب کچھ تو ہوا ہی، تاہم جس مقصد کے تحت یہ سارا سفر اختیار کیا گیا تھا، وہ حاصل نہ ہو سکا۔ یعنی غالبؔ کو وظیفے کے مقدمّے کے سلسلے میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ کلکتے سے واپسی کے سفر میں غالبؔ مرشد آباد اور باندہ میں بھی کچھ وقت کے لیے ٹھہرے اور بالآخر 1829ء کے اختتام پر واپس دہلی آ گئے۔

دہلی میں بھی پریشانیاں اُن کا پیچھا چھوڑنے پر آمادہ نہ تھیں۔ کلکتے کے سفر کے سلسلے میں قرض کا بوجھ کچھ اور بڑھ گیا۔ اُدھر قرض خواہ تھے کہ اپنی رقم واپس لینے کے لیے بے تاب تھے اور ساتھ ہی وہ یہ بھی سمجھ رہے تھے کہ غالبؔ کے پاس قرض واپس کرنے کو کچھ نہیں ہے۔ چناں چہ ایسے ہی قرض خواہوں میں سے کسی نے غالبؔ کے خلاف مقدّمہ دائر کر دیا اور ڈگری حاصل کر لی۔ یہ 1835ء کا سال تھا اور یہ وقت غالبؔ کے لیے سخت ترین تھا، چناں چہ اُنہیں کچھ اور تو نہ سوجھا، سو روپوشی اختیار کر لی۔ اسی سال ایک اور واقعہ یہ پیش آیا کہ ریزیڈینٹ دہلی، ولیم فریزر کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ فریزر سے غالبؔ کے دوستانہ مراسم بھی تھے اور غالبؔ کو یہ توقّع تھی کہ مستقبل قریب میں فریزر اُن کے وظیفے اور جائیداد کے سلسلے میں معاون ثابت ہو گا۔ دہلی کے مجسٹریٹ نے جہاں دیگر افرادسے اس قتل کے سلسلے میں معلومات حاصل کیں، وہیں غالبؔ سے بھی عوامل دریافت کیے۔ اس کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ فریزر کے قتل کے سلسلے میں نواب شمس الدّین خاں اور اُن کے ایک ملازم کو دھر لیا گیا۔ یہی نہیں، بلکہ نواب شمس الدّین کو اختتامِ سال کے قریب کشمیری باغ میں سرِ عام پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ لوگوں میں چہ میگوئیاں ہوئیں کہ نواب شمس الدّین خاں کی پھانسی کے پیچھے غالبؔ کا ہاتھ ہے، کیوں کہ یہ نواب شمس الدّین خاں ہی تھے کہ جنہوں نے غالبؔ کا وظیفہ روک لیا تھا۔ یہ ساری صورتِ حال غالبؔ کے لیے ایک اعصاب شکن آزمائش تھی۔ اسی سال غالبؔ نے لیفٹیننٹ گورنر کے پاس ایک اور عرضداشت داخل کی کہ اُن کے وظیفے کا مسئلہ حل کیا جائے۔ 1836ء کے وسط میں فیصلہ غالبؔ کے خلاف آیا۔ تاہم، ابھی امیدوں کا چراغ گُل نہیں ہوا تھا۔ اسی سال کے اختتام پر غالبؔ نے اپنا مقدّمہ کورٹ آف ڈائریکٹرز کے پاس بھیجنے کی درخواست دی، جس پر عدالت کی طرف سے کہا گیا کہ کاغذات ولایت بھیجے جائیں گے۔ اگلے برس یعنی 1937ء میں کاغذات لندن بھیجے گئے۔ اسی اثناء میں غالبؔ نے نواب شمس الدّین خاں کے دَور کی بقایا پینشن کی بھی درخواست دی، جو منظور کر لی گئی اور اُنہیں بقایا جات ادا کر دیے گئے۔

گلشنِ ادب کا عندلیب
دہلی میں واقع مرزا اسد اللہ خان غالبؔ کی حویلی میں موجود اُن کا مجسمّہ

1841 ء کا سال غالبؔ کے لیے یوں خوش گوار رہا کہ اُن کا اُردو دیوان شایع ہوا۔1842ء میں انگریزوں کے قائم کردہ دہلی کالج میں فارسی کے استاد کی اسامی خالی تھی۔ لیفٹیننٹ گورنر، ٹامسن نے مقامی منتظمین سے کہا کہ ایسے افراد تلاش کیے جائیں کہ جو فارسی پر کامل دسترس رکھتے ہوں۔ اُنہیں بتایا گیا کہ حکیم مومن خاں مومنؔ، شیخ امام بخش صہبائیؔ اور مرزا اسداللہ خاں غالبؔ وہ اشخاص ہیں کہ جو اس خدمت کو اچّھی طرح انجام دے سکتے ہیں۔ گورنر نے غالبؔ کا نام سُن رکھا تھا، چناں چہ طے ہوا کہ پہلے غالبؔ کو یاد کیا جائے۔ اگلے دن غالبؔ گورنر کے بنگلے پر پہنچے، مگر اندر اس لیے داخل نہ ہوئے کہ کوئی استقبال کو باہر نہ آیاتھا۔ جب گورنر کو خبر ہوئی تو وہ باہر آیا اور گویا ہوا کہ ’’مَیں آپ کے استقبال کو نہیں آیا۔ استقبال اُس وقت کرتا کہ جب آپ ملاقات کو آتے اور آپ ملاقات کو نہیں، بلکہ ملازمت کے لیے آئے ہیں۔‘‘ غالبؔ یہ کہہ کر واپس چلے آئے کہ ’’مَیں ایسی ملازمت نہیں کر سکتا کہ جس میں پہلے سے موجود عزّت میں بھی کمی آجائے۔‘‘ اسی سال غالبؔ کی جانب سے دائر کیے گئے مقدّمے میں کورٹ آف ڈائریکٹرز، لندن نے اُن کے خلاف فیصلہ دیا۔ 1845ء میں پہلی بار دہلی سے غالبؔ کا فارسی دیوان شایع ہوا، جس کی غالبؔ کو بہت مسرّت ہوئی۔1847ء غالبؔ کے لیے بہت اچّھا ثابت نہ ہوا۔ وہ قمار بازی کے جُرم میں گرفتار ہوئے اور سزا بھی پائی۔ یہ سزا 6ماہ کی قید تھی۔ گرچہ مجسٹریٹ نے سزا میں تخفیف کرتے ہوئے غالبؔ کو تیسرے ہی ماہ رہائی دے دی، مگر غالبؔ کو زندان کی قید کا بہت صدمہ رہا۔

1850 ء میں دہلی کے بادشاہ نے غالبؔ کو ملازمت کا پروانہ عطا کیا۔ یہ بادشاہ کوئی اور نہیں، بلکہ بہادر شاہ ظفرؔ تھے۔ شاہی دربار میں غالبؔ کو ’’تاریخِ شاہانِ تیموری‘‘ مرتّب کرنے کا فریضہ سونپا گیا۔ معاوضہ 600روپے سالانہ مع خلعتِ فاخرہ مقرّر ہوا، جب کہ نجم الدّولہ، دبیر الملک، نظام جنگ کے خطابات اس کے علاوہ تھے۔ دربار میں غالبؔ کے ہم عصر شاعر، ذوقؔ دہلوی بادشاہ کے استاد تھے اور بادشاہ اُن کی خدمت بجا لانے میں بہت مستعد رہا کرتے تھے۔ یہی وہ سال بھی تھا کہ جس میں غالبؔ نے فارسی خطوط نویسی کی بہ جائے تواتر سے اُردو میں خط تحریر کرنا شروع کیے۔ ممتاز اہلِ قلم اور غالبیات کے ماہر، مولانا غلام رسول مہر اپنی کتاب ’’خطوطِ غالبؔ‘‘ کے مقدّمے میں غالبؔ کی نثر یا اُن کی خطوط نویسی پر یوں اظہارِ خیال کرتے ہیں کہ ’’میرزا کے اندازِ نگارش کی ممتاز ترین خصوصیت یہ ہے کہ وہ جو کچھ لکھتے تھے، بے تکلّف لکھتے تھے۔ اُن کے خطوط کا مطالعہ کرتے وقت شاید ہی کہیں یہ احساس ہو کہ الفاظ کے انتخاب یا مطالب کی تلاش و جستجو میں انہیں کاوش کرنی پڑی ہو۔ برابر یہ محسوس ہوتا ہے کہ مطالب دِل کش الفاظ کا جامہ پہن کر اس طرح بہے چلے آ رہے ہیں، جس طرح فوّارے کا منہ کُھل جانے سے پانی خود بہ خود اُچھلا چلا آتا ہے۔ عام ادبی بول چال کا سہارا لے کر کہہ سکتے ہیں کہ میرزا کے اُردو خطوط سراسر آمد تھے اور تصنّع سے اُن کا دامن ِ قلم پاک تھا۔‘‘

1851ء میں جواں بخت کی شادی ہوئی۔ بہادر شاہ ظفرؔ اُسے بہت عزیز رکھتے تھے۔ غالبؔ نے اس موقعے پر سہرا کہا اور مقطع میں ذوقؔ پر طنز کیا۔؎ ہم سُخن فہم ہیں غالبؔ کے طرف دار نہیں…دیکھیں اس سہرے سے بڑھ کر کوئی کہہ دے سہرا۔ بادشاہ کو یہ اندازِ سُخن نہیں بھایا، سو استاد کو حکم ہوا کہ ’’آپ اس کا جواب دیں۔‘‘ ذوقؔ نے بھی سہرا کہا اور مقطع ہی میں غالبؔ کو جواب دیا کہ؎ جس کو دعویٰ ہے سُخن کا یہ سُنا دے اس کو…دیکھ اس طرح سے کہتے ہیں سُخن ور سہرا۔ بہادر شاہ ظفرؔ کی ناگواری اپنی جگہ، تاہم غالبؔ کی اجتہادانہ شعری صلاحیت کا اعتراف اب خاص و عام میں ہونے لگا تھا۔1854ء میں بہادر شاہ ظفرؔ کے ولی عہد، مرزا فخرو نے مرزا غالبؔ کی تلمیذی اختیار کی۔ یہی نہیں، بلکہ خود بہادر شاہ ظفرؔ نے اُنہیں اپنا استاد مقرّر کر دیا۔ تاہم، بہادر شاہ ظفرؔ نے غالبؔ کو اپنا استاد اُس وقت مقرّر کیا کہ جب شیخ ابراہیم ذوقؔ دہلوی انتقال کر گئے۔ غالبؔ، مومن اور ذوقؔ تینوں ہم عصر شاعر تھے۔ یوں تو تینوں ہی شعراء کا اپنا اپنا رنگ تھا اور تینوں ہی نے اُردو شاعری کو اپنے سُخن سے مالامال کیا۔ تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ مومنؔ اور ذوقؔ، اُفقِ شعری پر چمکتے ستارے غالبؔ کے سامنے ماند پڑ گئے۔ مومن خاں مومنؔ کے ایک شعر کے بارے میں مشہور ہے کہ غالبؔ اُس کے بدلے اپنا دیوان دینے کو تیار تھے۔ مومنؔ کا وہ شعر یہ ہے؎ تم میرے پاس ہوتے ہو گویا…جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا۔ اسی طرح ذوقؔ دہلوی نے بھی درجۂ کمال پر یہ شعر کہا تھا کہ ؎فکرِ سُخن سے ذوقؔ قیامت تلک ہے نام… اولاد سے یہی نا کہ دو پُشت چار پُشت۔

1857 ء کا ہنگامہ خیز سال غالبؔ کو ایک تو غدر کے ہنگاموں اور دوسرے اپنے چھوٹے بھائی، مرزا یوسف بیگ کی دیوانگی کے عالم میں ہونے والی موت کے باعث خاصا بھاری پڑا۔ غدرکے ہنگامے میں، جہاں دوسرے بہت سے مصائب کا سامنا کرنا پڑا، وہیں غالبؔ کی پینشن بھی بند ہو گئی، جو 1861ء میں بحال ہوئی۔ یہ سب کشاکشِ زیست کے مرحلے تھے، جو جاری رہے اور غالبؔ کو امیدی و نا امیدی، رنج و خوشی اور دل کی پامالی و عزم کی استقلالی کے ساتھ لے کر چلتے رہے۔ تاہم، تخلیق کار غالبؔ تھکا نہیں، ہارا نہیںاور ایک عزم کے ساتھ آگے بڑھتا رہا۔؎لکھتے رہے جُنوں کی حکایاتِ خونچکاں…ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے۔

غالبؔ کی زندگی اس حد تک تنگی تُرشی سے گزری کہ انہیں اپنا مکان تا عُمر نصیب نہ ہو سکا اور یکے بعد دیگرے ہونے والی اولاد میں سے کوئی ایک بھی زندہ نہ رہ سکا۔ لہٰذا، انہوں نے اپنی بیوی کے بھانجے، زین العابدین خاں عارفؔ کو گود لے لیا۔ عارفؔ کو وہ ٹوٹ کر چاہتے اور اپنا سب کچھ اُس پر نچھاور کرنے کو بے چین رہتے۔ عارفؔ کی جواں عُمری میں ہونے والی موت کا اُنہیں شدید ترین صدمہ تھا۔ اُس کی موت پر کہی گئی اُن کی غزل، جو دراصل ’’عارفؔ کا نوحہ‘‘ تھی، بہت مشہور ہوئی۔؎ ہاں اے فلکِ پیر،جواں تھا ابھی عارفؔ… کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور۔ غالبؔ نے عارفؔ کے انتقال کے بعد اس کے دو کم سِن بچّوں کو گود لے لیا اور ان کی بہت ناز برداری کیا کرتے۔ مسلسل مصائب، پریشانیاں، بادِ مخالف کی تُندی کی غالبؔ پر یلغار رہی، مگر طبیعت کی ظرافت، تجسّس اور ہر لمحہ کچھ نہ کچھ جاننے کی بے چینی شخصیت کا شاید سب سے طاقت وَر جزو رہی۔ جدید عہد کے معتبر ترین نقّاد، ڈاکٹر شمس الرحمٰن فاروقی نے ’’اندازِ گفتگو کیا ہے‘‘ میں غالبؔ کی شخصیت کے اس رُخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ’’وہ ہمارے پہلے شاعر ہیں، جو کثرت سے سوال پوچھتے ہیں اور نئے نئے سوال پوچھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بیسویں صدی کے ذہن نے شروع ہی سے انہیں کُھلے دِل سے قبول کیا۔‘‘ سخت محرومی و ابتلا میں بسر کی جانے والی زندگی کے باوجود غالبؔ نے زندگی کا مرثیہ اور نوحہ نہیں لکھا اور جو چیز عُمر بھر غالبؔ کے ہم رکاب رہی، وہ اُمید تھی۔ غالبؔ کی بڑائی یہ تھی کہ اُنہوں نے شمعِ اُمید کو کبھی گُل نہ ہونے دیا، گو کہ حوادث کی تیز ہواؤں سے اُس کی لَو دھیمی ضرور پڑی، مگر بُجھنے کبھی نہ پائی۔

اصنافِ سُخن میں غزل کو منتخب کرنا غالبؔ کا ضروری اور شعوری کام تھا۔ افکار کو اظہار کا اور احساس کو الفاظ کا لباس پہنانے کے لیے غالب کو غزل سب سے معتبر صنف معلوم ہوئی۔ غالبؔ کو معلوم تھا کہ گُل و بلبل اور قفس و صیّاد سے اور دل سے نکلی ہوئی فریاد سے بات کو بنانا اور آگے تک پہنچانا کارِ دشوار تو ہے، کارِ بیکار نہیں۔ اُنہیں ہمیشہ بامعنی سخن راس نہیں آتا اور وہ جب بے معنی بات کرتے، تو اُسے بھی یہ معنی ضرور پہناتے کہ ؎گر نہیں ہیں مِرے اشعار میں معنی نہ سہی۔ غالبؔ کی شاعری اس لیے زندہ ہے کہ زندگی سے کشید کی گئی ہے۔ اس لیے توانا ہے کہ سوچ میں توانائی ہے۔ اس لیے تازہ ہے کہ فکر میں تازگی ہے۔ غالبؔ کا طرزِ اظہار اور اندازِ بیان سب سے جدا ہے، جس کا خود ہی اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ؎ کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے اندازِ بیاں اور۔ غالبؔ کی شاعری کے بے شمار رنگ ہیں۔ ان رنگوں میں شاعر کی مختلف کیفیات ہیں۔ کبھی یہ کیفیت ایک ایسے انسان کی ہے، جو رشتے ناتوں میں جکڑا ہے اور اُس سے پیدا ہونے والی حالتوں سے گزرتا ہے۔ کبھی نالۂ غم، نغمۂ شادی، عقلی موشگافیاں، جذباتی ہیجان اور طوفان، احساس کی گہرائی، تخیّل کی کارفرمائی، غمِ جاناں، غمِ دوراں، رومانیت، رجائیت، قنوطیت، خود پرستی، بُت پرستی، خُدا پرستی، حقیقت پسندی، جنون و حکمت کا اتصال، اُمیدی و نا امیدی کا وبال، زندگی کے خواب اور زندگی سے ملنے والا اضطراب، روایت پر ایستادہ اور کبھی بغاوت پر آمادہ۔غالبؔ کا اعمال نامہ بھی خوب ہے۔ جب جیے، توعُسرت اور بے سروسامانی تھی اور جب مَرے تو ایسی قدر دانی کہ شاید ہی کوئی دوسرا اُن کے مقابلے میں ٹھہر سکے۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی نے ایک مقام پر بے تکلّفی سے اظہار ِخیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ’’مجھ سے اگر پوچھا جائے کہ ہندوستان کو مُغلیہ سلطنت نے کیا دیا، تو مَیں بے تکلّف یہ تین نام لوں گا۔ غالبؔ، اُردو، تاج محل۔‘‘

گرچہ غالبؔ کا فارسی کلام اُن کے اُردو کلام کے مقابلے میں مقداری حیثیت سے بہت زیادہ ہے۔ یہی نہیں، بلکہ خود غالبؔ اپنے فارسی کلام کو اُردو پر فوقیت دیتے رہے، لیکن غالبؔ کے اُردو کلام کو غیر معمولی شُہرت حاصل ہوئی۔ اُن کے اُردو کلام کی جتنی شرحیں لکھی گئیں، فارسی کلام کو اُس کا عُشرِ عشیر بھی حاصل نہ ہو سکا۔ شاید اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ انیسویں صدی آتے آتے برّصغیر میں اُردو کا فارسی پر بھرپور غلبہ ہو چُکا تھا۔ گرچہ غالبؔ کے اُردو اور فارسی دیوان دونوں ہی کے کئی کئی ایڈیشنز شایع ہوئے، تاہم بڑھتی ہوئی مانگ ہمیشہ اُردو دیوان ہی کی رہی اور وہ بھی اس حقیقت کے ساتھ کہ اُن کی اُردو شاعری کو خاصا مشکل پسند قرار دیا گیا۔ غالبؔ کے اُردو دیوان میں اشعار کی تعداد 4ہزار تک پہنچتی تھی، جسے انہوں نے خود قلم زد کر کے 1800اشعار تک محدود کر دیا تھا۔ اس کے مقابلے میں فارسی اشعار کی تعداد 10ہزار تک بیان کی جاتی ہے۔ مثنویوں کی تعداد 11ہے، جن میں سے 4معروف ہیں اور ان کے اُردو تراجم بھی کیے جا چُکے ہیں۔ غالبؔ کا اوّلین اُردو دیوان 1841ء میں شایع ہوا اور دِل چسپ بات یہ تھی کہ اُس کا دیباچہ غالبؔ نے فارسی میں تحریر کیا۔ تاہم، بعد کی اشاعت میں فارسی دیباچہ غائب ہو گیا۔ غالبؔ کی فارسی اور اُردو تصانیف میں مکاتیب، پنج آہنگ، مہر نیم روز، درفشِ کاویانی، قاطعِ بُرہان، دستنبو، کُلّیات،عودِ ہندی، اُردوئے مُعلّیٰ،لطائفِ غیبی، تیغِ تیز، فارسی دیوان،اُردو دیوان، نامۂ غالبؔ،سبد چین اور دیباچے وغیرہ شامل ہیں۔ 15 فروری 1869ءکو تاریخِ ادب کا یہ درخشندہ ترین ستارہ ایک ہنگامہ خیز زندگی بسر کر کے اوراُفقِ ادب سے اپنی تابانیاں دکھلا کر روپوش ہو گیا۔

تازہ ترین