• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماہرینِ معیشت کو اس اَمر پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ دسمبر 2017ء کے بعد ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں 20فی صد کمی کیوں واقع ہوئی؟ نیز، یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ سابق وفاقی وزیرِ خزانہ، مفتاح اسمٰعیل اپنے مختصر دَور میں روپے کو ڈالر کے مقابلے میں 108سے 130روپے تک کیوں لے آئے؟ یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ روپے کی قدر کم کرنے کے نتیجے میں بیرونی قرضوں کا حجم بڑھنے سے پاکستان کو اربوں روپے کا نقصان ہوا۔ تاہم، مفتاح اسمٰعیل کی جانب سے روپے کی قدر میں کمی پر اتنا شور نہیں مچایا گیا، جتنا واویلا اب کیا جارہا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ مشرّف دَور کے وفاقی وزیرِ خزانہ، شوکت عزیز کو آئی ایم ایف نے اس بات کی اجازت دے رکھی تھی کہ وہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر (60روپے) مستحکم رکھ سکتے ہیں اور مسلم لیگ (نون) کے وزیرِ خزانہ، اسحٰق ڈار کو بھی اس بات کی اجازت تھی۔ تاہم، بعد ازاں مفتاح اسمٰعیل نے آئی ایم ایف کے نسخوں کے مطابق روپے کی قدر گھٹا دی، حالاں کہ تب اسٹاک مارکیٹ پوائنٹس کے تناظر میں عالمی ریکارڈ توڑ رہی تھی ۔ یاد رہے کہ سرمایہ دارانہ معاشی ضابطوں کے تحت اسٹاک مارکیٹ ہی ترقّی کا اشاریہ قرار پاتا ہے۔

آج حکومت کے آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے فیصلے کو مستحسن قرار نہیں دیا جا رہا اور یہ سوچ دُرست بھی ہے، لیکن پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ1986ء کے بعد سے اب تک پاکستان کی تمام حکومتیں ایک درجن سے زاید مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس کیوں گئیں؟ دِل چسپ بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے اس فیصلے کی مخالفت بھی وہی لوگ کر رہے ہیں، جو ماضی میں خود آئی ایم ایف کے دریوزہ گر رہے۔ پاکستان کے حُکم رانوں نے غالباً امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے خارجہ کی وہ رپورٹ نہیں پڑھی، جس میں صراحت کے ساتھ یہ بیان کیا گیا ہے کہ ’’امریکی ایکٹ کی دفعہ 201کے تحت کسی بھی مُلک میں ایسی پیداواری صنعت کی تعمیر یا کارکردگی بڑھانے کے لیے امداد نہیں دی جائے گی، جو امریکی صنعت کے مقابل ہو۔‘‘ نیز، اسی رپورٹ کے مطابق ہی آئی ایم ایف کے نسخے تیار ہوتے ہیں۔ عصرِ حاضر میںسودی نظام، دولت کے ارتکاز کو بڑھا کر دُنیا بَھر کے غریبوں کے لیے عذاب بن چُکا ہے، جب کہ غریب ممالک کی اشرافیہ (آبادی کا5فی صد) عیش کی زندگی بسر کر رہی ہے۔ چُوں کہ قرضوں سے حکومت چلانے والے سائنس اور ٹیکنالوجی سے نابلد ہیں، لہٰذا وہ یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہیں کہ ایک کم زور مُلک کی قیمت پر ایک طاقت وَر مُلک اور ایک مُلک کے غریب طبقے کی قیمت پر مال دار طبقہ کیسے امیر تر ہوجاتا ہے۔ ہمارے مُلک کے معاشی تبصرہ نگاروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اقتصادی گُتھیوں کو سُلجھانے کے لیے سرمایہ دارانہ معیشت پر لکھی گئی مغربی دانش وَروں کی کُتب پڑھیں۔ مثلاً، نوم چومسکی کی تصنیف، ’’پرافٹ اینڈ پیپل‘‘، جوزف اسٹک گاٹسز کی ’’نا برابری کی قیمت‘‘، نائومی کلائن کی ’’نو لوگو‘‘ اور جان پرکنز کی کتاب، ’’معاشی دہشت گرد کا اعتراف‘‘ (کنفیشن آف اکنامک ہِٹ مین) پڑھنے کے بعد کارل مارکس کی کُتب پڑھیں، تو پھر مُلک میں تبدیلی لانے کی رائے مستند ہو سکتی ہے۔ وگرنہ فضول باتوں سے صرف ابہام ہی بڑھے گا اور سٹّے بازی اور سودی مدو جزر کے نظام میں غریبوں کو کبھی بھی سُکھ کا سانس میسّر نہیں آئے گا۔

آج دُنیا کی تقریباً تمام بڑی اسٹاک مارکیٹس شدید مندی کا شکار ہیں۔ ان کے بارے میں دُنیا کا سب سے بڑا سٹّے باز، جارج سورس کہتا ہے کہ ’’مَیں دُنیا کی کسی بھی اسٹاک مارکیٹ کو ایک دن میں لُوٹ سکتا ہوں، جیسا کہ کچھ عرصہ پہلے لندن اسٹاک مارکیٹ میں دن بَھر میں، مَیں نے 2.5ارب ڈالرز جیتے اور اس دن کو لندن اسٹاک والے ’’بلیک فرائی ڈے‘‘ کہتے ہیں۔‘‘ پاکستان کے معیشت دانوں کو یہ بھی سوچنا ہو گا کہ سٹّے بازی اور سودی قرضوں کے اس ماحول میں کس طرح مُلک کے عوام کی خدمت کرنی ہے۔ اسلامی ممالک میں مہاتیر محمد کا ’’ملائیشیا ماڈل‘‘ ہمارے سامنے ہے۔ اسی طرح سنگا پور کو، جسے ’’کیچڑ کا دریا‘‘ کہا جاتا تھا، لی کوان یو نے 25سال میں دُنیا کا خُوب صُورت ترین مُلک بنا دیا، جس کی سالانہ برآمدات کا حجم 500ارب ڈالرز ہے، جب کہ پاکستان کی ایکسپورٹس کا حجم23ارب ڈالرز ہے، حالاں کہ قدرتی و انسانی وسائل کے اعتبار سے سنگا پور، پاکستان کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔

ہمارے معاشی ماہرین کو اچّھی طرح یاد ہو گا کہ 90ء کی دہائی میں، جب اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر، ڈاکٹر یعقوب تھے، شرحِ سود 23فی صد تھی اور مشرّف دَور میں ڈاکٹر عشرت حسین اسٹیٹ بینک کے گورنر تھے، جو ان دنوں ادارہ جاتی اصلاحات اور کفایت شعاری کے حوالے سے وزیرِ اعظم، عمران خان کے مُشیر ہیں۔ انہوں نے 2004ء میں شرحِ سود کم کر کے5فی صد کر دی تھی، جب کہ ان کے گرو اور25برس تک ’’ریزرو بینک آف امریکا‘‘ کے چیئرمین رہنے والے، ایلین گرین اسپین شرحِ سود کے بارے میں کہتے ہیں کہ’’ اگر ہم شرحِ سود ایک فی صد بڑھانے یا گَھٹانے کا سوچتے ہیں، تو ہمارے کانپتے ہاتھوں سے پیمانہ گر جاتا ہے۔‘‘ جب اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرحِ سود 23فی صد سے کم کر کے 5فی صد کی، تو اپنی سیونگز پر18فی صد منافع یا سود حاصل کرنے والی بیوائیں اور ریٹائرڈ ملازمین سڑکوں پر آ گئے۔ ان پریشان حال افراد کو اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کا مشورہ دیا گیا کہ وہاں اچّھا منافع ملتا تھا۔ کچھ افراد نے اسٹارک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کی، جہاں شوکت عزیز اور ان کے دوست اندرونی کھیل کھیلنے میں مشغول تھے۔ وہ 2004ء میں اسٹاک مارکیٹ کو انتہائی بلندی پر لے جا کر نیچے لے آئے اور چُوں کہ انہوں نے اپنے حوّاریوں کو پہلے ہی اس کی اطلاع دے دی تھی، لہٰذا وہ چند افراد ارب پتی ہو گئے، جب کہ اناڑی مارے گئے۔ اس واقعے کے بعد عوام کا اسٹاک مارکیٹ سے اعتماد اُٹھ گیا اور اب چند کھلاڑی ہی اسٹاک مارکیٹ کو اوپر اور نیچے لے جانے کے کھیل میں مصروف ہیں۔نیز، کچھ مُشیرایسے بھی ہیں کہ جو اعلیٰ ملازمتوں کے تعاقب میں مضامین لکھتے ہیں اور نمایاں ہونے کے لیے تمام حَربے استعمال کرتے ہیں، تاکہ حکومت میں کسی اعلیٰ عُہدے پر فائز ہو سکیں۔ ایسے میں اگر حکومت کا سربراہ، معاشیات کے عالمی نظام کو نہ سمجھتا ہو، تو وہ شوکت عزیز، اسحٰق ڈار یا اسد عُمر کا اسیر ہو جاتا ہے اور یہ سب معیشت کی نائو کو عالمی سرمائے کے بھنور میں لے جاتے ہیں۔

خیال رہے کہ آئی ایم ایف نے سٹّے بازی پر کبھی پابندی نہیں لگائی۔ آئی ایم ایف نے شوکت عزیز کو ڈالر کی قیمت 60روپے برقرار رکھنے کی اجازت اس شرط پر دی تھی کہ جب وہ حکومت سے الگ ہوں، تو ادائیگیوں میں عدم توازن بے قابو ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب شوکت عزیز مُلک سے غائب ہوئے، تو پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ تجارتی خسارہ18ارب ڈالرز تک جا پہنچا۔ مشرّف کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی، تو اسے برآمدات میں اضافے کے لیے مجبوراً روپے کی قدر 36روپے کم کرنا پڑی۔ نیز، اس حکومت نے ماضی کی حکومتوں کی طرح لُوٹ مار اور منی لانڈرنگ کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ مشّرف کے دَور میں پاکستان اسٹیل ملز کا سالانہ منافع 8ارب روپے تھا، لیکن پیپلز پارٹی کے عہد میں یہ ادارہ زبردست خسارے میں چلا گیا، جو آج بھی برقرار ہے۔ اسی طرح پی آئی اے کو بھی دُرست کرنے کی کوشش نہیں کی گئی اور آج اس ادارے کو سالانہ 360ارب روپے خسارے کا سامنا ہے، جب کہ پاکستان ریلویز سمیت تقریباً ہر سرکاری ادارہ ہی تباہی کے کنارے پر کھڑا ہے۔ اس صُورتِ حال کی ذمّے دار سِول اور ملٹری حکومتیں دونوں ہی ہیں۔

2013ء سے 2018ء تک اندرونی و بیرونی قرضوں کا انبار لگ گیا اور عالمی سطح پر کرپشن کی گونج سُنائی دینے لگی۔ تب پاکستان تحریکِ انصاف نے کرپشن کے خلاف بھرپور آواز اُٹھائی۔ تاہم، اس نے انسدادِ بد عنوانی کے لیے کوئی ہوم ورک نہیں کیا۔ پھر وزیرِ اعظم، عمران خان کو، جو کرکٹ کے اسرارو رموز سے تو گہری واقفیت رکھتے ہیں اور میدان میں اپنی ٹیم کی صلاحیتوں کو بہ خوبی بروئے کار لانا بھی جانتے ہیں، کرپشن سے اَٹے، تعلیم، صحت اور پانی جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم، قرضوں میں ڈُوبے، بیڈ گورنینس، مختلف اقسام کی عصبیتوں اور دولت کی منصفانہ تقسیم کے شکار پاکستانی معاشرے کے بارے میں کماحقہ علم نہ تھا اور پھر انہوں نے ایسے افراد پر مشتمل ٹیم بنائی کہ جو ’’پُرانے پاکستان‘‘ کی سیاسی جماعتوں سے ٹوٹ کر آئے تھے اور انہیں عمران خان یا عوام سے کوئی ہم دردی نہیں۔ یاد رہے کہ نظریات اور تبدیلی سے کوسوں دُور ان سیاسی عناصر نے سیاست کو کاروبار بنا دیا ہے اور یہ مُلک کو بھی روایتی انداز ہی میں چلائیں گے۔ موجودہ دَورِ حکومت میں بھی پاکستان میں مہنگائی، بے روزگاری اور امراض میں اضافہ ہو گا اور صرف طبقۂ اشرافیہ ہی ترقّی کرے گااوریہ غریبوں سے اُن کے حَسین خواب بھی چھین لے گا۔ حکومت کا ماننا ہے کہ اگر سی پیک پر، جسے ایک گیم چینجر منصوبہ قرار دیا جا رہا ہے، نظرِ ثانی نہ کی گئی، تو اس سے مُلک کو شدید نقصان پہنچے گا۔ نیز، متّحدہ عرب امارات سمیت پڑوسی ممالک کی ناراضی بھی مول لینا پڑے گی۔ تاہم، پاکستان کو سی پیک منصوبے میں بعض ایسی تبدیلیاں کرنا پڑیں گی کہ جو اس کے حق میں مفید ثابت ہوں۔ مثال کے طور پر مُلکی برآمدات بڑھانے کے لیے چین کا تعاون ضروری ہے اور دُنیا بَھر میں قائم پاکستانی سفارت خانوں میں ایسے سفراء تعیّنات کرنے کی ضرورت ہے کہ جو پاکستان اور پاکستانی مصنوعات کی ساکھ میں اضافہ کریں۔ گلگت بلتستان اور بلوچستان کے مقامی باشندوں کو خاص طور پر ہُنر مند بنانا ہو گا، تاکہ سی پیک منصوبے پر کام کرنے والی 50فی صد سے زاید افرادی قوّت پاکستانیوں پر مشتمل ہو۔ نیز، اسمگل شدہ چینی مصنوعات کی روک تھام کے لیے جوائنٹ وینچر بھی ضروری ہے۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ چینی بینکس میں موجود60ارب ڈالرز کا قرضہ پاکستان پر خرچ ہو رہا ہے اور ہمیں یہ ڈالرز کی صُورت میں ادا کرنا پڑے گا، لیکن اگر اس کا 30فی صد بھی اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں جمع ہوتا، تو ہمیں آئی ایم ایف کے سامنے کشکول لے کر نہ جانا پڑتا۔ خیال رہے کہ ابھی تک ایک ڈالر بھی پاکستان کے بینکس میں منتقل نہیں ہوا اور ہماری چینی درآمدات بڑھتی جارہی ہیں۔ پھر سی پیک کے تحت ہونے والے معاہدوں کے بارے میں بھی کسی کو کچھ علم نہیں۔ جرمنی کے ایک جریدے میں سری نواس معظم دار لکھتے ہیں کہ ’’اگر سرمایہ کاری مضبوط ہے، تو سی پیک پاکستان کی معیشت کو عُروج پر پہنچا سکتا ہے۔‘‘ لیکن تبصرہ نگاروں کا ماننا ہے کہ سی پیک کے تحت ملنے والے بعض قرضوں کی شرحِ سود اتنی زیادہ ہے کہ ان کی ادائیگی پاکستان کے بس کی بات نہیں اور کہیں یہ معاہدہ بھی آئی پی پیز سے ہونے والے معاہدے کی طرح نہ ہو کہ جس میں پاکستان بجلی کی خریداری کی مَد میں 40فی صد زیادہ ادائیگی کر رہا ہے اور بجلی تقسیم کرنے والی تمام کمپنیز خسارے میں ہیں۔ سابقہ حکومت نے 11ہزار میگا واٹ بجلی سسٹم میں ڈالی، لیکن بجلی کی تقسیم کے نظام کو دُرست کیا گیا اور نہ ہی بجلی چوری کا تدارک کیا گیا۔ اب یہ تمام مسائل پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کے سامنے ناگ کی طرح پَھن پھیلائے کھڑے ہیں، جس کے پاس باصلاحیت ٹیم موجود نہیں۔ البتہ اگر موجودہ حکومت حالات میں40فی صد بہتری لانے میں بھی کام یاب ہوتی ہے، تو پاکستان پٹری پر آسکتا ہے۔ فی الوقت، اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ ‘‘گُڈلک،وزیرِ اعظم عمران خان اور اسد عُمر۔۔۔۔!‘‘

تازہ ترین