• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ننھی زینب کا قاتل، جُرم سے تختہ دار تک....
زینب کی یادگار تصویر

’’مَیں ایک لڑکی ہوں۔ میرا نام زینب ہے۔ میرے والد کا نام امین ہے۔ میری عُمر 7سال ہے۔ مَیں قصور میں رہتی ہوں۔ مَیں اوّل جماعت میں پڑھتی ہوں۔ مُجھے آم بہت پسند ہیں۔‘‘ کم و بیش 80 ہزار نفوس پر مشتمل پنجاب کے معروف شہر، قصور کی 7سالہ رہائشی زینب جب 4جنوری 2018ء کو ’’اپنی ذات‘‘ کے عنوان سے یہ مضمون لکھ رہی تھی، تو اُس کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ یہ اس کی زندگی کا آخری ہوم ورک ہے۔ ہوم ورک مکمل کرنے کے بعد وہ شام کو سپارہ پڑھنے کے لیے گھر سے نکلی اور پھر زندہ واپس نہ لوٹی۔ آخری مرتبہ گھر کی دہلیز پار کرنے کے بعد وہ 5روز کے لیے لاپتا ہو گئی۔ تب اُس کے والد، امین انصاری اپنی اہلیہ کے ساتھ عُمرے پر تھے اور انہیں علم بھی نہ تھا کہ وہ اپنی جس بیٹی کی درازیٔ عُمر کی دُعا مانگ رہے ہیں، وہ ہمیشہ کے لیے اُن سے بِچھڑ چُکی ہے۔ زینب کی گُم شدگی کے بعد اُس کے چچا، محمّد عدنان اور دیگر رشتے دار اُسے تلاش کرنے نکلے، تو 5روز کی بھاگ دوڑ کے بعد وہ ننّھی پری انہیں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر مُردہ حالت میں پڑی ملی۔ زینب کی لاش بتا رہی تھی کہ اُسے کسی درندے نے زیادتی کے بعد قتل کیا ہے۔

یوں تو پنجاب کا ضلع، قصور گزشتہ 3برس سے جرائم پیشہ افراد کی ہول ناک سرگرمیوں کی وجہ سے دُنیا بَھر میں پاکستان کی بدنامی کا سبب بن رہا تھا، لیکن زینب کے بہیمانہ قتل کے بعد تو جیسے عوام کے دِلوں میں حکومت اور پولیس کے خلاف پکنے والا لاوا پَھٹ پڑا اور انتظامیہ کی نا اہلی کے خلاف مُلک گیر مظاہرے شروع ہو گئے۔ خیال رہے کہ اس واقعے سے قبل قصور میں ایک سے ڈیڑھ برس کے دوران 10معصوم بچّیوں کو جنسی تشدّد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا گیا تھا اور ان کی بھی مسخ شُدہ لاشیں کچرے کے ڈھیر اور زیرِ تعمیر عمارات سے ملی تھیں، جب کہ ان اندوہ ناک واقعات سے قبل قصور ہی میں رونما ہونے والا 387بچّوں کی غیر اخلاقی ویڈیوز بنانے کا واقعہ عالمی ذرایع ابلاغ کی توجّہ حاصل کر چُکا تھا، لیکن اس کے باوجود پنجاب پولیس ان وارداتوں میں ملوّث کسی مُجرم کو پکڑنے میں کام یاب نہ ہوسکی تھی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان کے چہرے پر بد نما داغ لگانے والے جرائم پیشہ عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی بہ جائے اُس وقت کے صوبائی وزیرِ قانون، رانا ثناء اللہ نے ان رُوح فرسا واقعات کو مخالفین کی باہمی چپقلش کا نتیجہ قرار دیا۔ البتہ اب یہ بات زبانِ زدِ عام ہے کہ بچّوں کی ان غیر اخلاقی ویڈیوز کے پس پردہ بین الاقوامی مافیا سے منسلک ایک ایسا گروہ موجود ہے کہ جسے مقامی سیاست دانوں اور پولیس کی اَشیر باد حاصل ہے اور یہ تمام انسانیت سوز سرگرمیاں کروڑوں ڈالرز کے حجم کی مالک، ’’پورنو گرافی انڈسٹری‘‘ جیسی گھنائونی صنعت کا حصّہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ کے اس سب سے بڑے اسکینڈل میں ملوّث افراد کو تاحال بے نقاب نہیں کیا جا سکا۔

بہر کیف، زینب کے بہیمانہ قتل نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور احتجاج کا سلسلہ آگ کی مانند قصور سے نکل کر پورے مُلک میں پھیل گیا، جب کہ ننّھی پری کے ساتھ غیر انسانی سلوک کا درد ہر خاص و عام نے محسوس کیا۔ نیز، اُس وقت کے وزیرِ اعظم، شاہد خاقان عبّاسی، آرمی چیف، جنرل قمر جاوید باجوہ، چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس میاں ثاقب نثار، پیپلز پارٹی کے چیئرمین، بلاول بُھٹّو زرداری، پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ، عمران خان، وزیرِ اعلیٰ پنجاب، میاں شہباز شریف اور مُلک کی سیاسی قیادت سمیت ہر طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے شدید غم و غصّے کا اظہار کیا۔ مسلم لیگ (نون) اور پاکستان تحریکِ انصاف نے اس واقعے پر پنجاب اسمبلی میں تحریک التوا جمع کروائی اور قصور میں ایک احتجاجی مظاہرہ بھی ہوا، جسے منتشر کرنے کے لیے پولیس کی جانب سے چلائی گئیں گولیاں لگنے سے دو افراد لقمۂ اجل بھی بن گئے۔ تواتر کے ساتھ رونما ہونے والے مذکورہ بالا واقعات کے سبب قصور کے شہری خود کو ایک نہایت با اثر مافیا کا یرغمال سمجھنے لگے تھے اور انہیں ایسا محسوس ہورہا تھا، جیسے پورے شہر میں جرائم پیشہ افراد دندناتے پِھر رہے ہیں، جن کے سامنے قانون بے بس اور انتظامیہ لاچار ہے اور قصور عالمی سطح پر سرگرم درندہ صفت انسانوں کا پسندیدہ ہدف بن چُکا ہے کہ جہاں سرِ عام منشّیات فروشی، پورنو گرافی اور عِصمت کی نیلامی کا سلسلہ جاری ہے۔ اس صورتِ حال میں بپھرے ہوئے مظاہرین نے ارکان اسمبلی کے ڈیروں اور تھانوں پر حملے شروع کر دیے اور انہی دِنوں قصور میں تعیّنات بعض پولیس افسران کے بارے میں یہ خبریں بھی شایع ہوئیں کہ یہاں تعیّناتی کے دوران وہ کروڑ پتی ہو چُکے ہیں۔

زینب کے قتل کا مقدّمہ درج ہونے کے بعد پولیس سمیت دیگر تحقیقاتی اداروں نے مجرم کی تلاش شروع کر دی، جب کہ پہلے سے جاری 8کم سِن بچّیوں کے قتل کی تفتیش میں بھی تیزی آ گئی۔ اس سے قبل پولیس نے فروری 2017ء میں ایمان فاطمہ نامی کم سِن بچّی کے قتل کے الزام میں مدثّر نامی ایک نوجوان کو دھر لیا تھا اور اگلے روز یہ خبر سامنے آئی کہ وہ نوجوان پولیس مقابلے میں مارا گیا، جب کہ بعد ازاں بتایا گیا کہ زینب کے قاتل، عمران اور ایمان فاطمہ کا ڈی این اے مَیچ کر گیا ۔ یعنی عمران ہی ایمان کا قاتل تھا اور مدثّر پولیس کی نا اہلی کی بھینٹ چڑھ گیا، لیکن اس بے قصور نوجوان کو قتل کرنے والوں سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی گئی۔ پولیس کی اس بے حِسی ایک اور نمونہ اُس وقت دیکھنے میں آیا کہ جب زینب کی لاش تلاش کرنے پر ایک پولیس افسر نے زینب کے غم زدہ باپ کو، کانسٹیبل کو 10ہزار روپے بہ طور انعام دینے کے لیے کہا۔

بڑھتی ہوئی بے چینی

زینب کے قتل پر جب مُلک بَھر میں بے چینی بڑھی اور متعلقہ حُکّام کو تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا، تو پولیس کے علاوہ دیگر تحقیقاتی ادارے بھی میدان میں کُود پڑے۔ اس موقعے پر ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی، لیکن زینب کے والد نے اُس پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا۔ اس دوران پولیس نے درجنوں افراد سے پوچھ گچھ کی اور چند مشتبہ افراد کو شاملِ تفتیش بھی کر لیا۔ نیز، اُن کے خون کے نمونے ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے فرانزک سائنس ایجینسی میں بھیجے گئے، جہاں زینب کے بلڈ سیمپلز پہلے سے موجود تھے۔ اب روایتی تفتیش کے ساتھ ساتھ جدید ترین سائنسی آلات پر بھی انحصار کیا جانے لگا کہ اگر کسی مشتبہ شخص کا ڈی این اے زینب کے ڈی این اے سے مَیچ کر جاتا ہے، تو وہی قاتل قرار پائے گا۔ اسی اثناء میں 12جنوری کو پولیس نے سپریم کورٹ میں تفتیش میں ہونے والی پیش رفت کی رپورٹ پیش کر دی، جس میں یہ بتایا گیا کہ اب تک 227مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ کی جا چُکی ہے۔ مذکورہ رپورٹ میں اُس سی سی ٹی وی فوٹیج کا بھی ذکر تھا کہ جس میں زینب ایک نا معلوم باریش شخص کے ساتھ جاتے ہوئے دکھائی دے رہی تھی۔ زینب کے والد کے مطابق، یہ فوٹیج انہوں نے اپنی کوششوں سے نکلوائی تھی۔ تاہم، درجنوں افراد سے تفتیش کے باوجود بھی پولیس اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے میں مصروف تھی اور زینب قتل کیس تفتیشی اداروں کے لیے ایک کڑا چیلنج بن چُکا تھا ۔ دوسری جانب عوام میں مایوسی اور بے چینی اس لیے بھی بڑھتی جا رہی تھی کہ ضلع قصور میں مختلف اوقات میں رونما ہونے والے واقعات میں 8بچّیاں قتل ہونے کے باوجود پنجاب پولیس کسی ملزم کو نہیں پکڑ سکی تھی۔ تب یہ سوال بھی اُٹھایا جانے لگا کہ اگر پنجاب حکومت، پولیس پر سالانہ 90ارب روپے خرچ کرتی ہے، تو قانون نافذ کرنے والے اس ادارے کی کارکردگی میں بہتری کیوں نہیں آئی؟ پنجاب پولیس نے سپریم کورٹ میں پیش کی گئی اپنی رپورٹ میں یہ بھی بتایا تھا کہ اب تک تقریباً 800مشکوک افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ کیے جا چُکے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’’صرف ڈی این اے کے پیچھے نہ پڑیں، بلکہ روایتی طریقے بھی اختیار کریں۔ پولیس جس انداز سے تفتیش کر رہی ہے، اس طرح تو 22کروڑ افراد کے ڈی این اے لینا پڑیں گے۔’’ چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ’’ ہم زینب قتل کیس کو سَستی شُہرت کے حصول کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔‘‘ بعد ازاں، چیف جسٹس، جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں بننے والے تین رُکنی بینچ نے آئی جی پنجاب کو 72گھنٹے میں مجرم پکڑنے کا حُکم دیا۔ عدالتِ عظمیٰ کی سرزنش کے بعد پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں اور انتظامی مشینری کی دوڑیں لگ گئیں، جس کے مثبت نتائج سامنے آئے اور بالآخر 23جنوری کو اُس وقت کے وزیرِ اعلیٰ پنجاب، میاں شہباز شریف نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ زینب کے قاتل کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور ملزم نے اعترافِ جُرم بھی کرلیا ہے ۔ اس موقعے پر زینب کے والدین بھی موجود تھے۔ یہ قاتل 24سالہ عمران علی تھا، جسے زینب کی نمازِ جنازہ میں بھی دیکھا گیا تھا۔ نیز، وہ مقتولہ کے رشتے داروں کے ساتھ مل کر اُسے تلاش بھی کرتا رہا ۔

عمران کی گرفتار ی کیسے عمل میں آئی؟

لاہور میں واقع، فرانزک سائنس ایجینسی ایک ہزار سے زاید مشکوک افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ کر چُکی تھی، لیکن اُسے ہر بار مایوسی کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا کہ کوئی بھی ڈی این اے زینب کے ڈی این اے سے مَیچ نہیں ہو رہا تھا۔ تاہم، ایک روز ایسے خون کے نمونے لیبارٹری میں آئے کہ جن کے تجزیے سے ماہرین کی شب و روز کی محنت رنگ لے آئی اور جدید ترین خُرد بینی آلات سچ سامنے لے آئے۔ یہ نمونے عمران علی کے خون کے تھے اور ان کے حصول کی کہانی بھی خاصی دِل چسپ ہے۔ 24سالہ عمران روڈ کوٹ کا رہائشی اور زینب کا پڑوسی تھا۔ اس کے دو بھائی ہیں اور والدہ کی محلّے میں پرچون کی دکان ہے۔ عمران اوائلِ عُمری ہی سے بد قماش تھا اور اسے کئی مرتبہ اسکول سے نکالا جا چُکا تھا۔ چُوں کہ وہ کبھی کبھار بہ طور مستری کام کرتا تھا۔ لہٰذا، ’’مانا مستری‘‘ کے نام سے مشہور تھا اور خود کو پارسا ثابت کرنے کے لیے محلّے کی تقاریب میں نعتیں بھی پڑھتا تھا۔ اُس نے پہلی مرتبہ 20برس کی عُمر میں ایک کم سِن بچّی سے زیادتی کی اور گرفت نہ ہونے کی وجہ سے بعد ازاں قصور کی 7بچّیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا۔ تاہم، مقتولہ بچّیوں سے ڈی این اے مَیچ کرنے کے باوجود بھی وہ درندہ اس وجہ سے پکڑ میں نہ آ سکا کہ وہ اپنا حلیہ بدل کر چکمہ دینے میں کام یاب ہو جاتا تھا۔ وہ کبھی داڑھی بڑھا لیتا، کبھی مونچھیں رکھ لیتا اور کبھی سَر کے بال منڈوا دیتا۔ علاوہ ازیں، نعتیں پڑھ کر اور خواتین کے لیے تعویز بنا کر خود کو ایک مذہبی شخص کے طور پر پیش کرتا، تاکہ کوئی اس پر شک نہ کر سکے۔ نیز، وہ اداکاری بھی اچّھی کر لیتا تھا، جس کی وجہ سے بچّیاں اس کے جھانسے میں آ جاتیں۔ عمران کم سِن بچیّوں کو ورغلا کر کسی زیرِ تعمیر عمارت یا ویرانے میں واقع کوڑے کے ڈھیر پر لے جاتا اور وہاں زیادتی کے بعد انہیں قتل کر دیتا۔ محلّے داروں کا کہنا ہے کہ زینب کے قتل کے بعد انہوں نے عمران پر شک کا اظہار کیا تھا، لیکن پولیس نے اُسے دو بار شاملِ تفتیش کر کے چھوڑ دیا۔ 

اُسے پہلی بار 14جنوری کو گرفتار کیا گیا، تو اُس نے مِرگی کا دورہ پڑنے کی اداکاری کی اور پھر بعض محلّے داروں نے پولیس کے سامنے یہ کہہ کر اُس کی صفائی پیش کی کہ وہ نعت خواں ہے اور ایسی گھنائونی حرکت نہیں کر سکتا، جس پر پولیس نے اُسے چھوڑ دیا۔ تاہم، پولیس نے عمران کی نگرانی جاری رکھی۔ بعد ازاں، جب پولیس پہلی مرتبہ اُس کے خون کے نمونے لینے اس کے گھر گئی، تو اس نے یہ کہہ کر جان چُھڑوالی کہ ’’آج میرے والد کا چالیسواں ہے۔ لہٰذا ،مَیں بعد میں ٹیسٹ کروائوں گا۔‘‘ پولیس دوسری مرتبہ عمران کے گھر گئی، تو وہ پاک پتن فرار ہو گیا، جس پر پولیس کا شک قوّی ہو گیا اور اہل کاروں نے عمران کے چچا پر دبائو ڈال کر اس کی والدہ کے ذریعے اسے گھر بلوا لیا۔ پھر اس کے خون کے نمونے حاصل کر کے اُس کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا گیا، جو زینب کے ڈی این اے سے مَیچ ہو گیا۔

فرانزک لیبارٹری میں عمران اور مقتولہ کا ڈی این اے مَیچ ہونے کے بعد عمران کو قاتل قرار دیا گیا، تو پولیس سمیت دیگر تفتیشی ادارے اسے ڈھونڈنے نکل پڑے۔ ملزم نے اُس وقت پاک پتن میں اپنے رشتے داروں کے گھر پناہ لے رکھی تھی۔ اس سے قبل پولیس اس ویڈیو پر بھی کافی غور و خوض کرتی رہی کہ جس میں ایک نامعلوم شخص زینب کو اپنے ساتھ لے جاتے ہوئے دِکھائی دے رہا تھا، لیکن چُوں کہ ویڈیو میں اُس شخص نے ایک ڈھیلا ڈھالا جیکٹ نُما کوٹ پہن رکھا تھا، اس لیے وہ اپنی عُمر سے کئی برس بڑا دکھائی دے رہا تھا ، تب ہی پولیس ملزم کی عُمر 30سے 40برس کے درمیان بتاتی رہی، جب کہ اُس کی اصل عُمر 24برس تھی۔ نیز، پولیس نے ملزم کے جو خاکے جاری کیے تھے، وہ بھی اُس کی وضع قطع سے میل نہیں کھاتے تھے۔ بہرکیف، پولیس جب عمران کو گرفتار کرنے کے لیے اُس کے گھر پہنچی، تو وہ وہاں سے فرار ہو گیا۔ تاہم، ماں کے کہنے پر یہ سوچ کر واپس آ گیا کہ وہ ایک مرتبہ پھر پولیس کو چکمہ دینے میں کام یاب ہو جائے گا، مگر چھاپے کے دوران پولیس کے ہاتھ ایک ایسا ثبوت آ گیا کہ جس نے اس کے جُرم پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی۔ یہ وہی جیکٹ نما کوٹ تھا، جو سی سی ٹی وی فوٹیج میں زینب کے ساتھ نظر آنے والے شخص نے پہن رکھا تھا۔ اب مزید کسی شک و شُبے کی گنجائش باقی نہیں بچی تھی، لہٰذا پولیس نے اسے گرفتار کر لیا۔ تفتیش کے دوران اپنے جُرم کا اعتراف کرتے ہوئے عمران نے یہ بھی بتایا کہ وہ اب تک 8بچّیوں کو درندگی کا نشانہ بنا چُکا ہے، جس میں سے 5کو اس نے زیرِ تعمیر عمارت میں قتل کیا تھا، جب کہ 3کو قتل کرنے کے بعد کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر پھینک دیا تھا۔ اس درندہ صفت انسان کا مزید کہنا تھا کہ وہ پکڑے جانے کے خوف سے زیادتی کے بعد بچّیوں کو قتل کر دیا کرتا تھا۔ بعد ازاں، مجرم کی ماں اور چچا نے پولیس کو بتایا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھنے کے بعد انہیں یقین ہو گیا تھا کہ عمران ہی زینب کا قاتل ہے، لیکن انہوں نے خوف کی وجہ سے پولیس سے حقیقت چُھپائی۔ عمران کی گرفتاری کے بعد سوشل میڈیا، اخبارات اور چینلز سمیت معاشرے میں اُٹھنے والا طوفان قدرے تھم گیا کہ بالآخر ایک درندہ صفت شخص قانون کے شکنجے میں آگیا تھا۔ عدالت نے مجرم کو سزائے موت سُنائی، تو زینب کے والدین اور معاشرے کے بعض طبقات کی جانب سے عمران کی سرِ عام پھانسی دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ تاہم، عدلیہ نے یہ مطالبہ رَد کر دیا۔

پھانسی گھاٹ تک…

ننھی زینب کا قاتل، جُرم سے تختہ دار تک....
جلاّد، صابر مسیح

جُرم کے ارتکاب کے تقریباً 9ماہ بعد 17اکتوبر2018ء کی صبح ساڑھے 5بجے کوٹ لکھپت جیل، لاہور میں مجرم، عمران علی کو تختۂ دار پر لٹکا دیا گیا۔ ملزم کو سیشن کورٹ، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے موت کی سزا سُنائی تھی اور صدرِ مملکت نے ملزم کی جانب سے رحم کی اپیل خارج کر دی تھی۔ اطلاعات کے مطابق، تختۂ دار پر چڑھتے وقت بھی اس درندہ صفت انسان کے چہرے پر ندامت کے آثار دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ بُھٹّو کو پھانسی دینے والے جلاّد، تارا مسیح کے پوتے، صابر مسیح نے عمران کے گلے میں پھندا ڈال کر لیور کھینچا، تو وہ چند سیکنڈز کے لیے تڑپا اور پھر اُس وقت تک لٹکتا رہا کہ جب تک ڈاکٹر نے اُس کے مَرنے کی تصدیق نہیں کر دی۔ اس موقعے پر زینب کے والدین بھی موجود تھے۔ پونے سات بجے لاش ورثاء کے حوالے کر دی گئی، جب کہ پھانسی سے ایک روز قبل جب اس کے لواحقین سے، جن کی تعداد 20 سے 30 کے درمیان بتائی جاتی ہے، ملاقات کروائی گئی، جو ایک گھنٹے تک جاری رہی، تو اس دوران وہ گڑگڑا گڑگڑا کر معافیاں مانگتا رہا اور ساتھ ہی یہ بھی کہتا رہا کہ مَرنے کے بعد اس کی ماں کا خیال رکھا جائے اور زینب کے اہلِ خانہ سے معافی مانگی جائے۔ پھانسی کے روز مجرم کے لواحقین کو اپنے ساتھ ایک ایمبولینس، ایک سوٹ اور ایک چادر لانے کا کہا گیا تھا۔ عمران کو قصور کی بہ جائے لاہور میں دفن کیا گیا کہ قصور کے شہریوں میں شدید غم و غصّہ پایا جاتا تھا اور اکثر سماجی تنظیمیں پہلے ہی یہ واضح کر چُکی تھیں کہ اس شیطان صف شخص کو قصور کی سرزمین میں دفن ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ایک درندہ صفت انسان کی پھانسی کے ساتھ ہی 17اکتوبر کو پاکستان کی جرائم کی تاریخ کا ایک ہول ناک باب بہ ظاہر اختتام پزیر ہو گیا اور زینب سمیت قتل ہونے والی دیگر بچّیوں کے لواحقین کو حصولِ انصاف پر قدرے اطمینان بھی ملا، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کے زخموں کا مداوا اور بچیّوں کے چھوڑے ہوئے خلا کو پُر کرنا ممکن نہ ہو گا اور یہ زینب کی کاپی کے اُن صفحات کی طرح خالی رہے گا، جن پر وہ 4جنوری کے بعد کوئی تحریر نہ لکھ سکی۔

تازہ ترین