• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گہری نیند کے خواب بھی حقیقتوں اور تعبیروں سے بڑا دور کا رشتہ رکھتے ہیں لیکن جاگتی آنکھوں کے خواب محرومیوں اور نامرادیوں کے ایسے زخم دے جاتے ہیں جو برسوں بھرنے میں نہیں آتے۔ ”خواب خرامی“ یعنی نیند میں چلنے کا مرض بھی ایک ایسا ہی عارضہ ہے۔ انسان آنکھیں بند کئے ایک تخیلاتی جنت کی طلسماتی وادیوں میں محو سفر ہوتا ہے کہ یکایک سر یا پاؤں کسی ”زمینی حقیقت“ سے ٹکرا جاتا ہے۔ ”خواب خرامی “ ٹوٹ جاتی اور خوابوں سے سجی آنکھیں حقائق کے سنگریزوں سے اٹ جاتی ہیں۔
تحریک انصاف کا فلسفہٴ سونامی دراصل اسی خواب خرامی کا فریب نظر آتا ہے۔ یہ طلسم ٹوٹنے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔ میرے دوست اور تحریک کے ترجمان اعلیٰ، جناب شفقت محمود نے ضمنی انتخابات سے کچھ دانشورانہ نتائج اخذ کئے ہیں۔ ایک نتیجہ یہ ہے کہ پی پی پی معدوم ہوگئی۔ دوسرا یہ کہ تحریک انصاف نے ضمنی انتخابات میں حصہ نہیں لیا لیکن کچھ عرصہ قبل ملتان میں شوکت بوسن اور اب رائے حسن نواز کا اتنی بھاری تعداد میں ووٹ لینا اور فتح کے قریب پہنچ جانا قابل توجہ ہے ۔ تیسرا یہ کہ اب مقابلہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے درمیان رہ گیا ہے۔ ان نتائج کی بنیاد پر انہوں نے اپنے ٹویٹر پیغام میں پاکستان پیپلزپارٹی کے جیالوں سے اپیل کی ہے کہ آؤ تحریک انصاف کے کندھے سے کندھا ملا کے کھڑے ہوجاؤ تاکہ نواز شریف کو نمونہ عبرت بنایا جاسکے۔
شفقت محمود سیاسی فلاسفر ہیں۔ ان کی بات کو سرسری لینا بے ہنری کی دلیل ہوگی۔ سو اس پر کسی اگلی نشست میں تفصیل سے بات ہو گی۔ پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ انتخابات کے حوالے سے تحریک انصاف اور خان صاحب کی سوچ کس طرح جھولا جھولتی رہی ہے۔ پہلا موقف یہ تھا کہ 2008ء کے انتخابات جعلی اور پارلیمنٹ چوروں کی منڈلی ہے سو اس کا حصہ نہیں بنیں گے۔ شرط لگادی گئی کہ اگر کوئی تحریک انصاف میں آتا ہے تو پہلے پارلیمنٹ کی رکنیت سے مستعفی ہوجائے،کچھ مستعفی ہوگئے پھر یہ شرط بھی ساقط ہوگئی۔ تحریک انصاف میں شامل لغاری برادران اور افضل سندھو آج بھی پارلیمنٹ کا حصہ ہیں۔ پھر یہ بھی ہوا کہ چوروں کی اسمبلی میں جانے کے لئے اپنے وابستگان کو باقاعدہ ٹکٹ جاری کئے گئے۔ اس کے بعد نئی حکمت عملی آئی کہ ٹکٹ جاری نہیں ہو گا البتہ کوئی پی ٹی آئی کارکن چاہے تو اپنے بھائی، بیٹے یا بھتیجے وغیرہ کو الیکشن لڑالے۔ پھر اس فارمولے میں بھی نرمی کردی گئی اور طے پایا کہ تحریک کا کوئی رہنما یا رکن چاہے تو خود بھی، تحریک انصاف کی تمام ترعلامات کے ساتھ ، چوروں کی اسمبلی میں جانے کے لئے انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے البتہ اسے پارٹی ٹکٹ جاری نہیں کیا جائے گا۔ حیران ہونے کی ضرورت نہیں کہ عصر جدید کے انقلابات اسی طرح کی مصلحتوں، مفاہمتوں اور منافقتوں کے خمیر سے اٹھتے ہیں۔
آئیے ایک نظر مختلف ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی حکمت کار اور کارکردگی پر ڈال لیتے ہیں۔
فروری2010ء میں راولپنڈی کے حلقہ 55کے ضمنی انتخابات میں اعجاز خان جازی نامی انقلابی شخصیت کو تحریک انصاف کا باقاعدہ ٹکٹ جاری کیا گیا۔ جازی نے 2008ء کے انتخابات میں آزاد امیدوار کے طور پر بارہ ہزار سے زائد ووٹ لئے تھے۔ ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف نے پوری توانائیاں جازی کے حق میں جھونک دیں۔ خان صاحب نے آٹھ انتخابی جلسوں سے خطاب کیا اور ہر جلسے میں اہتمام سے اعلان کیا کہ اس حلقے میں تو سوالاکھ افراد ہمارے رجسٹرڈ رکن ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آزاد حیثیت سے بارہ ہزار ووٹ حاصل کرنے والے جازی کو تحریک انصاف کے ٹکٹ پر صرف 3105 ووٹ ملے۔ جون 2010ء میں لاہور کے حلقہ پی پی 160 سے ملک ظہیر عباس کھوکھر کو پنجاب کی چور اسمبلی کے لئے تحریک کا باقاعدہ ٹکٹ جاری ہوا۔ ایک بڑی برادری کا موثر ووٹ بینک رکھتے ہوئے بھی وہ مسلم لیگ (ن) کے ہاتھوں نو ہزار ووٹوں سے شکست کھا گئے۔ پھر طے پایا کہ ٹکٹ دے کر رسوائی سے گریز کیا جائے۔ این اے 123 لاہور کے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف نے ٹکٹ دیئے بغیر لاہور کے ایک اہم سیاسی خانوادے کے فرزند میاں حامد معراج کو میدان میں اتار دیا۔ بڑی برادری اور معروف سیاسی شخص کے باوجود حامد معراج 9192 ووٹ لے پائے۔ مسلم لیگ (ن) کے پرویز ملک 44186ووٹوں سے جیت گئے۔ جولائی 2012ء میں این اے 151 ملتان میں ضمنی انتخابات کا ناقوس بجا۔ یہ لاہور کے جلسہٴ عام اور سونامی کی اٹھان کے بعد پہلا معرکہ تھا۔ تحریک انصاف کے سکندر حیات بوسن نے اپنے بھائی شوکت بوسن کو اکھاڑے میں اتار دیا۔ پوری مہم تحریک انصاف اور عمران خان کے نام پہ چلی۔ سکندر بوسن اپنی ذات اور برادری کے حوالے سے اس حلقے میں تقریباً پچاس ہزار ووٹوں کا مضبوط بینک رکھتے ہیں۔ یہ حلقہ ان کے ساتھ ساتھ سفر کرتا ہے۔ اسی حلقے کے زور پر وہ ایک بار مسلم لیگ (ن) اور ایک بار مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن بنے۔ مسلم لیگ (ن) نے یوسف رضا گیلانی کے فرزند کو شکست دینے کے لئے اپنا امیدوار بٹھا کر شوکت بوسن کی حمایت کا اعلان کردیا۔ اس حمایت کے باوجود شوکت بوسن ساٹھ ہزار ووٹ لے کر ہار گئے اور عبدالقادر گیلانی چونسٹھ ہزار ووٹوں سے فتح یاب ٹھہرے۔
حالیہ انتخابات میں این اے 162 سے تحریک انصاف کے سرکردہ رہنما رائے حسن نواز میدان میں اترے۔ پوری مہم تحریک کے پرچموں اور خان صاحب کی تصویروں کے زور پر چلائی۔ وہ علاقے کے سب سے بڑے لینڈ لارڈ ہیں۔ ان کے والد رائے محمد اقبال قیام پاکستان سے قبل 1945ء میں صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ ان کے بڑے بھائی رائے احمد نواز اسی حلقے سے تین بار قومی اسمبلی کے رکن چنے گئے۔ دوسرے بھائی رائے علی نواز صوبائی اسمبلی کے رکن اور وزیر رہے۔ خود رائے حسن نواز تین بار صوبائی اسمبلی کے رکن بنے۔ دوبار ضلع ساہیوال کے ناظم منتخب ہوئے۔ 2008ء کے انتخابات میں رائے صاحب کے بہنوئی اور چچا زاد بھائی رائے عزیز اللہ نے اسی حلقے سے 65440 ووٹ لئے لیکن زاہد اقبال سے ہار گئے۔ اس سے قبل 2002ء کے انتخابات میں رائے عزیز اللہ نے مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر 73918 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی تھی۔ مختصر یہ کہ رائے خاندان چیچہ وطنی میں پینسٹھ برس سے کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہا ہے۔ اس شاندار سیاسی پس منظر کے حامل رائے حسن نواز، سونامی کی تمامتر چکاچوند کے باوجود اپنے خاندان کے وہی روایتی ووٹ (65755) لے پائے جو ہمیشہ ان کی بغل میں دبی پوٹلی میں رہے۔ جس زاہد اقبال سے رائے عزیز اللہ پانچ ہزار ووٹوں سے ہارے تھے، اس زاہد اقبال سے رائے حسن نواز دس ہزار ووٹوں سے ہار گئے۔ جاگتی آنکھوں کے خوابوں کا کرشمہ دیکھئے کہ ان ووٹوں کو بھی سونامی کا اعجاز قرار دیا جارہا ہے۔ انہی ضمنی انتخابات میں ساہیوال کے حلقہ پی پی 226 سے تحریک انصاف کے رہنما سعید گجر نے اپنے صاحبزادے چوہدری جمشید کو میدان میں اتارا۔ ان کی ساری مہم بھی تحریک کے پرچموں اور خان صاحب کی تصویروں پہ چلی۔ خاندانی اثر و رسوخ کے باوصف چوہدری جمشید 14209 ووٹ لے سکے۔ جیتنے والے امیدوار کو 42294ووٹ ملے۔
اعجاز خان جازی، میاں احمد ہراج، ظہیر عباس کھوکھر ، شوکت بوسن، چوہدری جمشید اور رائے حسن نواز، سب کا شمار وابستگان سونامی میں ہوتا ہے۔ سب خان صاحب کے جلال و جمال کا سہارا لے کر میدان میں اترے، سب ہار گئے۔ اصولوں اور نظریات کی پرچم بردار تحریک انصاف مسلسل تضادات کا جھولا جھول رہی ہے۔ سڑے بسے متعفن اسٹیٹس کو کے خلاف بغاوت کے نعرے لگانے والوں میں اتنا دم خم نہیں کہ پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے والوں کا نوٹس لیں۔ شیریں مزاری کو تو چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر معافی مانگنے کا حکم جاری ہوا تھا۔ سکندر بوسن اور رائے حسن نواز سے کیوں باز پرس نہیں ہو رہی؟ انقلاب اور تبدیلی کے داعی خان صاحب نے کیوں دو ٹوک اعلان نہ کیا کہ ہم نے انتخابات کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ رائے حسن نواز ہمارا امیدوار نہیں، وہ ہمارے پرچم اور میری تصویر استعمال نہ کرے اور سب سے بڑی بات یہ کہ خان صاحب کو اپنے سونامی پر اتنا ہی پختہ ایمان ہے تو انہوں نے قوم سے کیوں اپیل نہ کی کہ خبردار! کسی نے کرپٹ لوگوں کو ووٹ نہیں دینا۔ سب گھروں میں بیٹھ جاؤ اور مکمل بائیکاٹ کرو۔
لیکن اس کا کیا علاج کہ جاگتی آنکھوں کے خواب بڑے ظالم ہوتے ہیں اور ”خواب خرامی“ اپنی دنیا آپ بسا لیتی ہے۔ سفیرانِ انقلاب اور نونہالانِ انصاف کو غالب کا یہ شعر یاد آنے میں کچھ وقت لگے گا کہ
تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ
جب آنکھ کھل گئی تو زیاں تھا نہ سود تھا
تازہ ترین