• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اس وقت بدترین اقتصادی بحران سے گزر رہا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر ختم ہو رہے ہیں۔ بیرونی قرضے اتارنے کے لئے مزید قرضے لینے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، روپے کی قدر روز بروز گر رہی ہے اور مہنگائی کو پر لگے ہوئے ہیں ایسے میں چاہئے تو یہ تھا کہ سیاسی پارٹیاں خواہ اقتدار میں ہوں یا اپوزیشن میں، سر جوڑ کر بیٹھیں باہمی لڑائی جھگڑے نظر انداز کریں اور کوئی مشترکہ لائحہ عمل تیار کریں لیکن بدقسمتی سے کوئی مثبت پیشرفت نظر آنے کے بجائے سیاسی کشمکش میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن پارٹیوں میں ایک ’’بلیم گیم‘‘ جاری ہے ۔ حکومتی پارٹی کے ’’عقاب‘‘ اس گیم کو گرم رکھنے کے لئے اپوزیشن پر جھپٹ رہے ہیں اور اپوزیشن کے ترجمان بھی ان کا ترکی بہ ترکی جواب دے رہے ہیں جس سے معاملات مزید بگڑ رہے ہیں۔ اس صورت حال میں وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ ان کی حکومت کے خلاف سازشیں کی جا رہی ہیں۔ برسر اقتدار پارٹی میں بظاہر فکر وعمل کی ہم آہنگی نظر آتی ہے لیکن درون خانہ ’’سب اچھا‘‘ نہیں ہے۔ یہ بات اس کے لیڈروں میں تضاد بیانی سے وقتاً فوقتاً مترشح ہوتی رہتی ہے۔ اپوزیشن حکومت کے خلاف متحد ہونے کی باتیں کرتی ہے لیکن ایک سے زائد بار عوام نے اس اتحاد کو بکھرتے دیکھا ہے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی میں سالہا سال سے جاری دوریاں سمٹ نہیں سکیں۔یہ دونوں جماعتیں ایک دوسری کی بڑی حریف سمجھی جاتی ہیں مگر متحدہ حزب اختلاف کی بات چلی تو ان کے شخصی اختلافات سامنے آگئے۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے اتوار کو اسلام آباد میں اپنی پریس کانفرنس اور پیپلزپارٹی لائرز فورم سے خطاب کے دوران صاف کہہ دیا ہے کہ پرویز مشرف کے این آر او سے دوسروں کو فائدہ ہوا ہو گا، میں نے تواپنے خلاف قائم کچھ مقدمات عدالتوں میں لڑ کر بریت حاصل کی اور کچھ ابھی تک بھگت رہا ہوں۔میرے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس کے ذمہ دار نواز شریف ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ خوش کن بات کی کہ اس سب کچھ کے باوجود نواز شریف سے ملاقات خارج از امکان نہیں۔ ان سے بات چیت ہو سکتی ہے۔ پریس کانفرنس میں حکومت پر نکتہ چینی کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’سیلیکٹڈ وزیراعظم‘‘ کی نااہل حکومت ملک نہیں چلا سکتی۔ تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو کر اس کے خلاف قرار داد منظور کرنا ہو گی۔ اس سوال پر کہ پیپلزپارٹی حکومت کو ہٹانے کے لئے کسی تحریک کا حصہ بنے گی، انہوں نے جواب دیا کہ جب وقت آیا، اس بارے میں فیصلہ کر لیں گے۔ اس سے حکومت کو ہٹانے کے بارے میں ان کے ارادے واضح اور عمران خان کے خدشات درست ثابت ہو گئے ہیں لیکن اس طرح کے اقدامات سے ملک کے اصل مسائل حل نہیں ہوں گے۔ بدقسمتی سے آج نوابزادہ نصر اللہ خان جیسا کوئی مدبر بھی نہیں جو اپنی بصیرت سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بڑھتی ہوئی محاذ آرائی ختم کرانے کیلئے سیاسی کردار ادا کرے۔ ملک کو درپیش سنگین اقتصادی ومالیاتی بحران کا حل حکومتوں کے اکھاڑ بچھاڑ میں نہیں۔ سب کو مل کر متفقہ تدابیر اختیار کرنے میں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت ذاتی اور گروہی رنجشوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپوزیشن سے خود رابطے کرنے کا حوصلہ پیدا کرے اور تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کرچلے۔ کچھ ان کی مانے، کچھ اپنی منوائے اور مشکلات کا حل نکالے۔ اپوزیشن پارٹیوں کو بھی چاہئے کہ قوم کو درپیش اجتماعی مسائل حل کرنے میں حکومت کی مدد کریں۔ اس حوالے سے پارلیمنٹ اتفاق و اتحاد کا موثر فورم موجود ہے۔ حکومت اور اپوزیشن رہنمائوں کے باہمی صلاح مشوروں سے ملک کے اقتصادی اور سیاسی مسائل کے حل پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے اور پارلیمنٹ کے ذریعے ان پرعملدرآمد کرایا جائے۔ اس سلسلے میں اپوزیشن پارٹیوں کے رہنمائوں کوآپس میں بیٹھ کر حکومت کو پیش کرنے کیلئے قابل عمل تجاویز تیار کرنی چاہئیں۔ مناسب ہو گا کہ اپوزیشن سے رابطے کا عمل خود حکومت شروع کرے، اس سے حکومت بھی مستحکم ہو گی اور ریاست بھی۔

تازہ ترین