• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے ہفتہ ایک افسوس ناک واقعے نے پڑھے لکھے پاکستان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ تعلیم یافتہ لوگوں کے سر شرم سے جھک گئے تھے۔ پنجاب یونیورسٹی کے ریٹائرڈ وائس چانسلر کو ہتھکڑیاں لگا کر نیب کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔ المناک واقعہ میڈیا نے وائرل کردیا۔ اس کے بعد کیا کچھ ہوا، ملک کے کونے کونے سے کس قسم کا ردّعمل سامنے آیا، آپ سب اس سے واقف ہیں۔ یہ کمال میڈیا کی کوریج کا تھا۔ مگر اسی نوعیت کا ایک دل خراش واقعہ میڈیا کی کوریج سے رہ گیا تھا۔ اس بات کو تین برس گزر چکے ہیں۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ کیا ہوا تھا۔

آج سے تین برس پہلے ہزارہ یونیورسٹی اور عبدالولی خان یونیورسٹیز کے ریٹائرڈ وائس چانسلرز اور چار ریٹائرڈ پروفیسرز کو پوچھ گچھ کے لیے نیب پشاور بلایا گیا تھا۔ سب عمر رسیدہ تھے۔ ستّر، اسّی برس کی عمر کے لگ بھگ تھے۔ کچھ نحیف تھے۔ کچھ بیمار تھے۔ معاملہ تھا ایک میڈیکل کالج کے الحاق کا۔ طلبہ سے فیس وصول کرنے، امتحان لینے اور ایم بی بی ایس کی ڈگری عطا کرنے کا۔ منی لانڈرنگ کا کیس نہیں تھا۔ دونوں ریٹائرڈ وائس چانسلرز اور ریٹائرڈ پروفیسرز کو نیب نے وہیں کے وہیں گرفتاری کا حکم سنا دیا۔ دونوں وائس چانسلرز اور پروفیسرز دنیا کی اعلیٰ یونیورسٹیوں کے پی ایچ ڈی تھے۔ اعلیٰ تعلیم و تربیت کے محقق تھے۔ دنیا بھر کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں لیکچر دیتے، سیمینار اور کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کرتے تھے مگر نیب نے انہیں گرفتار کر کے ایک بدنما کوٹھڑی میں بند کر دیا۔ وائس چانسلر اور پروفیسر پشاور شہر کے رہنے والے نہیں تھے۔ وہ پختون خوا کے مختلف شہروں سے نیب کی طرف سے بلانے پر پشاور آئے تھے۔ وہ اپنے بال بچّوں سے یہ کہہ کر آئے تھے کہ شام تک وہ گھر لوٹ آئیں گے مگر وہ شام تک گھر نہیں لوٹے۔ رات ہو گئی۔ وہ گھر نہیں آئے۔ گرفتار کرنے کے بعد نیب کے اہلکاروں نے ان سے موبائل فون چھین لیے تھے۔رات بھر لواحقین پشاور کے نیب دفتر میں فون کرتے رہے۔ کوئی جواب نہیں ملا۔ بال بچّوں کی تشویش بڑھ گئی۔ وائس چانسلرزاور پروفیسرز ستّر ، اسّی برس کے لگ بھگ تھے۔ بال بچّے پریشان ہو گئے کہ سفر کے دوران ان کے ساتھ کوئی حادثہ پیش نہ آگیا ہو؟ہارٹ اٹیک نہ ہو گیا ہو؟دوسرے روز صبح کے وقت پروفیسرز اور وائس چانسلرز کے بال بچّے پشاور پہنچے ۔ نیب کے دفتر گئے۔ تب جا کر ان کو پتہ چلا کہ ان کے ابّو، ان کے دادا گرفتار ہو چکے ہیں۔ نیب کی تحویل میں ہیں۔ وہ سکتے میں آ گئے۔ لواحقین کو وائس چانسلرز اور پروفیسرز کے لیے وکیل کرنے اور ضمانت لینے میں تین، چار دن لگ گئے۔ پانچ، چھ راتیں سینئر سٹیزنز، وائس چانسلرز اور پروفیسرز نے ناگفتہ بہ حالات میں گزاریں۔ آپ تصوّر نہیں کر سکتے جن بدترین حالات میں بوڑھے پروفیسروں کو رکھا گیا تھا۔ وہ کہاں پڑے رہتے تھے۔ کھانے، پینے میں ان کو کیا دیا جاتا تھا، ان کے ساتھ کیسا برتائو روا رکھا جاتا تھا، آپ اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ عمر رسیدہ ہم لوگ دوائوں اور دعائوں پہ چلتے ہیں۔ نیب کی تحویل میں وہ لواحقین کی دعائوں سے زندہ رہے۔ پانچ، چھ روز کے بعد وائس چانسلرز اور پروفیسرز کو ایک ماہ کی ضمانت پر رہا کیا گیا۔ ایک ماہ کے بعد وہ دوبارہ نیب کے سامنے پیش ہوئے۔ مقدمہ نہیں چلا۔ انہیں پھر سے ایک ماہ کی ضمانت پر چھوڑا گیا۔ ایک ماہ گزرنے کے بعد پھر سے ستّر،اسّی برس کے سینئر سٹیزن اور اعلیٰ سطح کے اساتذہ نیب کے سامنے پیش ہوئے۔ مقدمہ نہیں چلا۔ انہیں ایک ماہ کے بعد پھر سے نیب کے سامنے پیش ہونے کا حکم سنایا گیا۔ پچھلے تین برس سے دو وائس چانسلرز اور چار پروفیسرز اسی طرح ہر ماہ سفر کر کے پشاور آتے ہیں اور نیب کے سامنے پیش ہوتے ہیں۔ اس کام کے لیے انہوں نے وکیلوں سے رجوع کیا ہوا ہے جو انہیں ضمانتیں دلواتے ہیں، نیب کے سامنے پیش کرتے ہیں اور پھر انہیں گھر لوٹ جانے کی اجازت لے کر دیتے ہیں۔ ہر بار جب وہ نیب کے سامنے پیش ہونے کے لیے گھر سے روانہ ہوتے ہیں تب ان کے بال، بچّے یہی سوچ کر ڈپریشن میں ڈوب جاتے ہیں کہ ان کے ابّو، ان کے دادا اس بار لوٹ کر آئیں گےیا نہیں؟ آپ اندازہ لگائیے۔ پچھلے تین برس سے چھ اعلیٰ تعلیم یافتہ بزرگ اساتذہ اور ان کی فیملیز کو ذہنی عذاب میں مبتلا رکھا گیا ہے۔ کاش کہ ان کو ملنے والے مینٹل ٹارچر کی خبر ہمارے چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب تک پہنچے۔ تین برس سے چھ اعلیٰ تعلیم یافتہ سینئر سٹیزن اور ان کی فیملیز ذہنی عذاب میں مبتلا ہیں۔ وہ کب تک ذہنی عذاب میں مبتلا رہیں گے، کوئی نہیں جانتا۔

ان دو واقعات نے آپ کے اس فقیر کو روح کی گہرائیوں تک خوفزدہ کر دیا ہے۔ میں بہت ڈر گیا ہوں۔ آپ کا یہ فقیر بدقسمتی سے اسلام آباد میں مرکزی حکومت کی ایک یونیورسٹی کا وائس چانسلر رہ چکا ہے۔ اس بات کو اٹھائیس برس گزر چکے ہیں۔ ان دو واقعات میں وائس چانسلرز اور پروفیسرز کے ساتھ نیب کے ہاتھوں ہتک آمیز رویّے کے بعد میں کانپ گیا ہوں۔ یونیورسٹی میں اسّی کے قریب ایسے ملازم تھے جو دس، پندرہ برس سے عارضی تھے اور کبھی بھی ملازمت سے فارغ کیے جا سکتے تھے۔ میں نے ایک ہی آرڈر میں ان سب کو مستقل کر دیا تھا۔ بیس ملازمین ایسے تھے جو دس، پندرہ برس سے ایک ہی گریڈ میں پڑے ہوئے تھے۔ ان کو بھی میں نے ایک ہی آرڈر میں اگلے گریڈ میں ترقی دے دی تھی۔ اگر نیب والے مجھے اس الزام میں پکڑ کر ڈربے میں بند کر دیں کہ تم نے ایک سو ملازمین سے فی کس ایک ہزار روپے لے کر ان کو مستقل کیا تھا اور اگلے گریڈ میں ترقی دی تھی اور اس طرح تم نے ایک لاکھ روپے کی کرپشن کی تھی، تب میں اپنی صفائی میں نیب سے کیا کہوں گا؟اٹھائیس برس پہلے والے ایک سو ملازمین کو میں کہاں سے تلاش کر کے لائوں گا اور مقدّس کتاب پر ہاتھ رکھوا کر ان سے گواہی دلوائوں گا کہ انہوں نے مجھے رشوت نہیں دی تھی؟اگر نیب کے تفتیشی افسر نے کہہ دیا کہ ریٹائرڈ وائس چانسلر جھگی میں رہتے ہیں۔ تم کیسے اور کس طرح ساتویں منزل پر دو بیڈروم کی عالیشان کوٹھی میں اس قدر ٹھاٹ بھاٹ سے رہتے ہو؟تم نیب کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتے۔ تم کروڑوں روپے کی گاڑی پر اٹھارہ برس پرانی گاڑی کا نشان لگا کر نیب کو دھوکہ نہیں دے سکتے۔ بتائو، عیاشی کے لیے تمہارے پاس پیسے کہاں سے آتے ہیں؟ میرے پاس ان سوالوں کے جواب میں کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ میں گھبرا گیا ہوں۔ نیب سے ڈر گیا ہوں۔ مجھے دل کا عارضہ ہے۔ کل رات خواب میں نیب کے ایک خرانٹ افسر نے مجھے ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا:کوئی ڈاکٹر کا بچہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ تمہارے دل کا بائی پاس ہونا چاہیے یا اوپن ہارٹ سرجری۔ اس کا فیصلہ نیب کرے گا۔ نیب سے گھبرا گیا ہوں میں۔

تازہ ترین