• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دو دوست طویل عرصے بعد اچانک ملے تو حال احوال کے بعد پہلے دوست نے دوسرے سے پوچھا: مری خیریت سے گھوم رہے ہو؟ دوست نے خوش ہوتے ہوئے جواب دیا کہ دو دن پہلے میری شادی ہوئی ہے اور مری ہنی مون منانے آیا ہوں۔ دوست نے حیران ہو کر دائیں بائیں دیکھتے ہوئے پوچھا: لیکن آپکی دلہن یعنی ہماری بھابھی نظر نہیں آرہیں؟ نو بیاہتے دوست نے مسکراتے ہوئے کہا: تمہیں معلوم ہے کہ زندگی میں جتنی اہمیت شادی کی ہوتی ہے، اتنے ہی ہنی مون کے لمحات یادگار ہوتے ہیں، اس لئے میں ہنی مون کے ان یادگار لمحات کو ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ تمہاری بھابی کو شادی کے دوسرے روز نزلے اور زکام کی وجہ سے سخت بخار ہو گیا، اس لئے وہ تو نہیں آسکی لیکن میں ہنی مون منانے کیلئے مری پہنچ گیا۔ پی ٹی آئی کو بھی اقتدار کچھ اسی طرح ملا کہ اول تو حکومت معاشی بیماری میں مبتلا ہے، اوپر سے ضمنی انتخابات میں اپنی جیتی ہوئی سیٹوں سے محرومی کے درد نے ہنی مون کا سارا مزہ کرکرا کر دیا۔

اب اس سے ملتا جلتا ایک اور لطیفہ بھی سن لیجئے کہ ایک سردار صاحب کو جب احساس ہوا کہ شراب نوشی نے ان کا خانہ خراب کر دیا ہے تو انہوں نے گھر میں رکھی شراب کی خالی بوتلیں نکال کر ان پر غصہ نکالنا شروع کر دیا، پہلی خالی بوتل کو دیکھا تو غصے سے کہنے لگے کہ تمہاری وجہ سے میری کار کو حادثہ پیش آیا اور وہ تباہ ہو گئی، میں تمہیں بھی نہیں چھوڑوں گا اور بوتل کو زور سے دیوار پہ دے مارا، بوتل چور چور ہو گئی۔ دوسری خالی بوتل اٹھائی تو کہنے لگے: تمہاری وجہ سے میری نوکری گئی، اس لئے تمہارا مقدر بھی اب تباہی ہے اور اس بوتل کو بھی دیوار پر مار کر ریزہ ریزہ کر دیا۔ تیسری خالی بوتل اٹھائی تو غصے سے تلملاتے ہوئے کہنے لگے: تمہاری وجہ سے میری بیوی مجھے چھوڑ کر چلی گئی، میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا اور اس بوتل کو بھی دیوار پر دے مارا، یہ بھی چکنا چور ہو گئی۔ جب چوتھی بوتل اٹھائی تو اس میں ابھی شراب موجود تھی، سردار صاحب اس بوتل کو حسرت سے دیکھتے ہوئے بولے: تم درمیان میں مت آئو تمہارا کوئی قصور نہیں۔ حکومت بھی ان بوتلوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کی طرح ہو رہی ہے۔

پی ٹی آئی اور وزیراعظم صاحب نے جمہوریت کی دلہن یعنی عوام کے بغیر ہی ہنی مون منانے کی کوشش کی بلکہ ہنی مون کے دوران بیمار دلہن کو بے آسرا چھوڑ دیا۔ اس کو کوئی گولی نہ کوئی سیرپ دیا اور نہ ہی اس کی داد رسی کرنے کیلئے اس کے ساتھ رہے بلکہ اسے صرف یہ درس دیا کہ آج تکلیف کاٹو، کل اچھے دن آئیں گے حالانکہ دلہن یہ سوچ کر اپنا گھر، اپنا میکہ چھوڑ کر آئی تھی کہ نئے گھر میں جاتے ہی اچھے دن شروع ہو جائیں گے۔ شاید پی ٹی آئی نے یہ سمجھ لیا ہے کہ شادی سے پہلے کی طرح صرف باتوں اور خطاباتِ عالیہ پر ہی داد ملتی رہے گی، واہ واہ ہوتی رہے گی اور تالیاں بجتی رہیں گی، اچھے جلسے اور بھرپور حاضری کی خوشی سے رات اچھی نیند آ جائے گی لیکن اب عوام صرف حل چاہتے ہیں۔ مجھے یہ بات بھی سمجھ نہیں آتی کہ ابھی آپ نے کچھ دیا ہی نہیں اور تجاوزات کے نام پر لوگو ں سے چھیننا بھی شروع کر دیا ہے۔ لوگو ں کے گھروں، روزی کمانے کے اڈوں اور تھڑوں کو گرانا شروع کر دیا ہے۔ کاش حکومت نے اس خاتو ن کا رونا دھونا سنا ہو، جس کے گھر کو تجاوزات کی آڑ میں گرا دیا گیا۔ وہ روتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ ہم نے تو عمران خان کے اقتدار کیلئے رو رو کر دعائیں مانگیں، نفل ادا کئے لیکن ہماری چھت ہی چھین لی گئی۔ عوام اب تقریرو ں سے راضی نہیں ہوں گے بلکہ انہیں عملی طور پر روٹی، کپڑا، مکان، بجلی، گیس اور پانی چاہئے۔ کاش آپ نے ان 60 دنوں میں کراچی والوں کو پانی ہی دیدیا ہوتا۔ لیکن ابھی کچھ نہیں... کچھ بھی تو نہیں کیا…!!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

twitter:@am_nawazish

تازہ ترین