• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اب جبکہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کوئی حقیقی جمہوری حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرنے جارہی ہے ۔ا س مرحلے پر ہمیں بحیثیت قوم ان افراد اور ان قوتوں کے مثبت کردار کو سراہنا چاہئے جنہوں نے اس بات کو ممکن بنایا کہ ایک جمہوری حکومت قبل از وقت ختم نہیں ہوگی ۔اس کا کریڈٹ بلاشبہ صدر آصف علی زرداری اور ان کی پیپلزپارٹی کو جاتا ہے۔ جنہوں نے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی مفاہمت کی پالیسی پر عمل کرکے شاندار سیاسی روایات قائم کیں اور پاکستان کو ایک سیاسی فضا مہیا کی جس میں جمہوریت کے پنپنے کیلئے سازگار حالات پیدا ہوئے۔ اگرچہ مفاہمت کی اس پالیسی کا سب سے سے زیادہ فائدہ انہیں اور ان کی حکومت کو ہوا لیکن اس پالیسی کے پاکستان پر دوررس اثرات مرتب ہوں گے اور آنے والی حکومتوں کو بھی احساس ہوگا کہ وہ اس پالیسی کی وجہ سے بے شمار مشکلات سے بچ گئی ہیں ۔اپوزیشن کے سیاسی لیڈروں خصوصاً میاں محمد نواز شریف کا کردار بھی اس حوالے سے قابل ستائش ہے کہ انہوں نے 1990ء کی تصادم کی سیاست کے برعکس سیاست کی اور حکومت کو گرانے کے لئے شعوری طور پر کوئی بڑی کوشش نہیں کی ۔بحیثیت قوم ہمیں اس بات کا بھی اعتراف کرنا چاہئے کہ ملک کی دیگر سیاسی ،مذہبی اور قوم پرست جماعتوں نے بھی اس مرحلے پر زبردست سیاسی تدبر کا مظاہرہ کیا ۔ماضی کی طرح ان جماعتوں نے حکومتوں کو گرانے کا اپنا روایتی کردار ادا نہیں کیا اور یہ باور کرادیا کہ وہ ملک میں جمہوری عمل کے خلاف اب استعمال نہیں ہوں گی ۔حکومت کی اتحادی جماعتوں نے بھی اس حوالے سے جو کردار ادا کیا ہے وہ توقعات سے ہٹ کر ہے ۔پاکستان کی عدلیہ کو بھی ہمیں سلام پیش کرنا چاہئے کہ اس نے بھی ملک میں کوئی بڑا آئینی بحران اور سیاسی عدم استحکام پیدا نہیں ہونے دیا ۔یہ اور بات ہے کہ حکمران اور اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کو عدلیہ کے بعض فیصلوں پر تحفظات ہیں۔ اس کے باوجود اب تک عدلیہ کے کردار سے یہ رائے قائم کی جاسکتی ہے کہ اس نے وہ کچھ نہیں کیا جو ماضی میں عدلیہ نے کیا تھا۔ پاکستان کے میڈیا نے بھی آزادیٴ اظہار اور جمہوری روایات کو فروغ دینے کے لئے بہت اہم کردار ادا کیا جو قابل تعریف ہے ۔سول سوسائٹی کے بعض اہم اداروں نے بھی ماضی کے برعکس جمہوری حکومتوں کے خلاف کوئی بڑی مہم نہیں چلائی ۔استثنیٰ ہر جگہ موجود ہے اور تھوڑی بہت شعوری اور لاشعوری غلطیاں سب نے کی ہوں گی لیکن مجموعی طور پر ہم اس خوش فہمی کا شکار ہوسکتے ہیں کہ بحیثیت قوم ہم نے ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرلیا ہے اور آگے کا سفر شروع کردیا ہے۔
مذکورہ بالا تمام قوتوں کو سلام پیش کیا جانا چاہئے جنہوں نے ہمیں پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم سنگ میل عبور کرنے کے قریب پہنچادیا ہے لیکن ہمیں اس بات کو نہیں بھولنا چاہئے کہ پاکستان کی افواج نے اگر اس حوالے سے مدد نہیں کی ہوتی تو یہ سب کچھ ممکن نہیں تھا ۔یہ ٹھیک ہے کہ دیگر قوتوں نے بھی تاریخ سے سبق حاصل کرکے شعوری طور ہر جمہوری عمل کو آگے بڑھانے کی کوشش کی لیکن فوج نے جس طرح سیاست سے اپنے آپ کو دور رکھا یہ پاکستان کے عوام کیلئے حیرت انگیز لیکن خوشگوار تجربہ تھا ۔پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کا کردار آج کے حالات میں سب سے زیادہ اہم ہے ۔اشفاق پرویز کیانی نے اس جرنیل والا کردار ادا نہیں کیا جسے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے تمغہ جمہوریت سے نوازا تھا لیکن جس کے دور میں ملک کو سیاسی معاملات میں فوج کی مداخلت سے نہیں بچایا جاسکا۔
آج بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اب وہ حالات نہیں رہے کہ فوج پاکستان کے اقتدار پر قبضہ کرے لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ حالات میں تبدیلی کب آئی ہے اور وہ کون سے حالات ہوتے ہیں جن میں فوج مداخلت کرتی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستانی فوج کو دہشت گردی کے خلاف اپنی سرحدوں کے اندر جنگ لڑنی ہے اور دوسری طرف ملک کی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر حالات ایسے پیدا کردیئے گئے ہیں کہ فوج دوسری طرف نہیں دیکھ سکتی ۔یہ بھی تھیوری پیش کی جاتی ہے کہ امریکہ اور اس کے حواری اب پاکستان میں جمہوریت چاہتے ہیں ۔کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ پاکستان میں جمہوری قوتیں بہت زیادہ مضبوط ہوچکی ہیں ۔اس کے علاوہ دیگر تھیوریز بھی پیش کی جاتی ہیں لیکن یہ تمام تھیوریز ازخود فوج کی مداخلت کو جواز پیش کرتی ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کو پاکستان میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے لئے امریکہ پہلے لے آیا ۔اس کے بعد افغانستان میں سوویت افواج آئیں اور پھر امریکیوں نے پاکستان کو امریکہ کی جنگ میں جھونک دیا ۔اسی طرح افغانستان میں امریکی اور اس کی اتحادی افواج کی آمد سے قبل پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کو اقتدار میں لایا گیا ۔اس کے بعد پاکستان کو ایک ایسی جنگ میں الجھایا گیا جو افغانستان سے پاکستان کی سرحدوں کے اندر منتقل کردی گئی۔ یہ جنگ بھی اسی جنگ کا تسلسل ہے جس میں ضیاء الحق نے پاکستان کو جھونکا تھا لیکن پیچیدگیاں پہلے سے زیادہ ہیں لہٰذا اس جنگ میں پاکستان میں کسی فوجی حکمران کی ضرورت بھی پہلے سے کہیں زیادہ ہے ۔امریکہ نے اپنے میڈیا کے ذریعے پاکستانی فوج کے موجودہ سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی امیج بلڈنگ بھی کی ۔امریکہ کے شہروں میں ان کے بڑے بڑے پورٹریٹ بھی لگائے اور دنیا کو یہ باور کرایا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی دہشت گردی کے خلاف جو جنگ لڑرہے ہیں اس میں جنرل اشفاق پرویز کیانی کا کردار بہت اہم ہے ۔لیکن جنرل کیانی اپنے پیشہ ورانہ فرائض سے آگے نہ بڑھے۔ انہوں نے پہلی مرتبہ پاکستانی فوج کو دہشت گردوں کے حقیقی خاتمے کے لئے استعمال کیا ۔ جن حالات میں ماضی کے فوجی حکمرانوں نے اقتدار سنبھالا حالات آج ان سے زیادہ خراب ہیں ۔یہ بھی ہماری غلط فہمی ہے کہ امریکہ پاکستان میں جمہوریت کا استحکام چاہتا ہے اور ہم اس بات کو بھی نظر انداز کررہے ہیں کہ پاکستان میں جمہوری قوتیں شعوری طور پر آگے کا سفر کرچکی ہیں اور انہوں نے جمہوریت کے لئے بہت قربانیاں بھی دی ہیں لیکن آج کے پاکستان میں دہشت گردی کے نیٹ ورک اس قدر مضبوط ہیں کہ جمہوری اور سیاسی قوتیں کھل کر اپنی سیاسی سرگرمیاں نہیں کرسکتی ہیں ۔جنرل اشفاق پرویز کیانی کو کئی بار سیاست کا لبادہ اوڑھنے والی بعض قوتوں نے اکسایا بھی ہوگا لیکن دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ انہوں نے ضرورتاً جب بھی سیاسی معاملات میں اپنا کردار ادا کیا ،اس میں تصادم کو ختم کرانے کی کوشش کی تاکہ سیاسی عمل بلاروک ٹوک آگے بڑھ سکے۔
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ فوج کو ایک ادارے کے طور پر سیاسی اور حکومتی امور سے دور رکھنے کے لئے جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بعض شعوری اقدامات کئے اور ان اقدامات کے بہتر نتائج بھی سامنے آئے ۔پاکستانی افواج نے سوات ،مالاکنڈ اور دیگر قبائلی علاقوں کو دہشت گردوں کے کنٹرول سے آزاد کرایا اور وہاں پاکستان کا پرچم بلند کیا ۔سابق فوجی حکمرانوں کی وجہ سے پاکستانی ریاست کی پاکستان کے علاقوں پر عملداری آہستہ آہستہ ختم ہو رہی تھی جو اب دوبارہ بحال ہورہی ہے ۔جنرل کیانی کی پالیسیوں سے ان قوتوں کی بھی حوصلہ شکنی ہوگی ،جنہوں نے جمہوری حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے کے لئے ایسے پریشر گروپس کے طور پر اپنے آپ کو منظم کر رکھا تھا جو ہر وقت اس طرح کے منصوبوں پر اجرتاً کام کرنے کے لئے تیار رہتے تھے۔ جس طرح کے منصوبوں کی نشاندہی اصغر خان کیس میں ہوئی لہٰذا جمہوری حکومت کے پانچ سال مکمل کرنے کے جس عمل پر ہم بحیثیت قوم فخر کرسکتے ہیں اس کا کریڈٹ بہت سی قوتوں کو جاتا ہے مگر جنرل اشفاق پرویز کیانی کے کردار کو یہ سب قوتیں سراہتی ہیں۔
تازہ ترین