• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ میرے نہایت پیارے رشتہ دار اور بزرگ تھے۔خوبرو اور باوقار شخصیت پائی تھی جو میرے نزدیک اللہ کی دی ہوئی نعمت ہوتی ہے۔ باوقار شخصیت کو میں اللہ سبحانہ تعالیٰ کا تحفہ یا انعام سمجھتا ہوں کیونکہ یہ ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی ۔خوبرو شخصیت کو بھلا میں کیوں اللہ تعالیٰ کا انعام سمجھتا ہوں؟ میری اس سوچ کی بنیاد یہ ہے کہ اگرچہ انسان فانی ہے اور دنیا کی ہر شے کی مانند اسے بھی فنا ہونا ہے ،قبر میں جانا اور مٹی کے ساتھ مٹی ہوجانا ہے لیکن مجھے یوں لگتا ہے جیسے فانی انسان کی شکل و صورت مستقل شے ہوگی ،بھلا وہ کیسے؟ یوم حساب ہر کسی کو اپنی اپنی پڑی ہوگی اور انسان بیوی اولاد رشتے داروں سے آنکھیں نہیں ملائیں گے اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم جانے پہچانے چہروں کو پہچاننے سے گریز کریں گے۔ پہچان کا مطلب یہ ہے کہ ان کی شکلیں اور صورتیں وہی ہوں گی جو دنیا میں تھیں ورنہ ہمیں کیا معلوم کہ یہ انسان کون ہے، پہچان تو چہروں سے ہوتی ہے اور چہروں ہی سے رشتے معلوم ہوتے ہیں اگر روز قیامت انسان نفسا نفسی کے عالم میں رشتے داروں سے گریز کریں گے تو وہ تبھی ممکن ہے جب ان کے نقوش وہی ہوں جو دنیا میں تھے۔ اسی طرح ہم جنت اور جہنم میں جانے والوں کو بھی دیکھیں گے۔ گویا وہاں بھی انسانی صورتیں وہی ہوں گی جو دنیا میں تھیں چنانچہ مجھے یوں لگتا ہے جیسے ہمارے چہرے اور ہماری شکل و صورت مستقل شے ہے اور ہم انہی کے ساتھ زندہ ہوں گے اور پھر انہی کے ساتھ اپنے اپنے اعمال کا بوجھ اٹھائے ابدی زندگی گزاریں گے۔ مطلب یہ کہ جہنم ہو یا جنت شاید شکلیں وہی رہیں گی جن کے ساتھ پیدا ہوئے تھے۔ اس امر میں بھی شاید اس حقیقت کاراز مضمر ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اربوں کھربوں انسان پیدا کئے ہیں لیکن ان کے نقش و نگار علیحدہ علیحدہ اور الگ الگ رکھے ہیں تاکہ پہچان میں مغالطہ نہ ہو۔ بعض اوقات دو انسانی شکلوں میں بے حد مماثلت ہوتی ہے اور انسان دور سے دیکھ کر دھوکہ بھی کھا جاتا ہے لیکن قریب آئیں اور قدرے غور سے دیکھیں تو نقش و نگار میں کچھ نہ کچھ جدا اور مختلف ہوتا ہے اور انسان سمجھ جاتا ہے کہ اسے دور سے دھوکہ ہوا۔ یہ بندہ وہ تو نہیں جسے میں سمجھا جاتا تھا۔ بعض اوقات جڑواں بھائیوں یا بہنوں میں اتنی مشابہت ہوتی ہے کہ ان میں فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں میری شاگرد دو جڑواں بہنیں تھیں جو ایک دوسرے کی کاربن کاپی تھیں۔ وہ کپڑے بھی ا یک جیسے پہنتیں حتیٰ کہ ان کے میٹرک ،ایف اے، بی اے کے نمبر بھی ایک ہی جتنے تھے۔ ایم اے میں شاید دونوں میں ایک نمبر کا فرق پڑا۔ کبھی کبھی ایک کو دوسرے کے نام سے پکارنا کلاس میں قہقہے کا باعث بن جاتا تھا کیونکہ جواب ملتا تھا سر میں عالیہ نہیں شازیہ ہوں۔ میں نے دونوں نام فرضی لکھے ہیں انہیں اصلی نہ سمجھ لیں۔ ان کے کلاس فیلوز نے ان میں فرق ڈھونڈ لیا تھا چنانچہ وہ غلطی کا شکار نہیں ہوتے تھے اور وہ فرق معمولی سا تھا کہ ایک بہن کی آنکھ کے کنارے پر تل تھا جبکہ دوسری اس سائن بورڈ سے محروم تھی۔ اس طرح کی صورتحال انسان کی بصارت باریک بینی اور گہرے مشاہدے کا امتحان ہوتی ہے۔ بصارت کا بصیرت سے گہرا تعلق ہوتا ہے کیونکہ ایک بصارت ظاہری اور دوسری بصارت باطنی ہوتی ہے۔ باطنی بصارت دراصل بصیرت کے دروازے کھولتی اور حجاب ہٹاتی ہے۔ باطنی بصارت کو صوفیاء تیسری آنکھ کہتے ہیں یعنی(Third eye)دو آنکھیں اللہ تعالیٰ کی نعمت ہوتی ہیں اور یہ نعمت پیدائش کے ساتھ ہی ملتی ہے۔ اس میں انسان کی اپنی ہمت یا کوشش کا عمل دخل نہیں ہوتا جبکہ تیسری آنکھ جو انسان کے اندر کھلتی اور اندرونی کائنات کا سراغ بہم پہنچاتی ہے اسے کھولنے کے لئے محنت کرنی پڑتی ہے اگرچہ تیسری آنکھ عبادت، ذکر، مجاہدے اور اکثر اوقات مرشد کی نظر خاص سے کھلتی ہے لیکن یہ بھی اسی وقت ممکن ہے جب اللہ سبحانہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور رضا اس میں شامل ہو کیونکہ رب کی رضا کے بغیر کچھ بھی حاصل نہیں ہوسکتا اور رب کی رضا حاصل کرنے کے لئے رب کی خوشنودی درگا ہوتی ہے۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ رب کی خوشنودی کیسے حاصل ہوتی ہے۔ قرآن مجید اس کے ذکر سے بھرا ہوا ہے چونکہ تیسری آنکھ نظر نہیں آتی اور اسے کھولنے کے لئے محنت کرنی پڑتی ہے اس لئے اشرف المخلوقات کی بہت بڑی اکثریت اس کا تجربہ نہیں کرسکتی اور اس سے محروم رہ کر ہی مرحوم ہوجاتی ہے۔ تیسری آنکھ کھل جائے تو دنیا بدل جاتی ہے کیونکہ دنیا اورزندگی کی ا صل حقیقت بے نقاب ہونا اور فاش ہونا شروع ہوجاتی ہے ۔ ممکن ہے آپ میری اس بات پر حیران ہو ں کہ دنیا کیسے بدل جاتی ہے؟ اس کا جواب فقط اتنا سا ہے کہ جو دنیا ظاہر بیں آنکھ دیکھتی ہے بلکہ جو کچھ سبھی کو نظر آتا ہے وہ دنیا کا ظاہری روپ ہے۔ انسان اسی روپ میں کھوے رہتے ہیں کیونکہ قدرت نے اس روپ کو رنگ برنگے حسن کا جادو یا سحر عطا کیا ہے جس میں انسان زندگی بھر کھویا رہتا ہے جبکہ دنیا اور زندگی کی ایک دوسری حقیقت اور شکل و صورت بھی ہے جو صرف تیسری آنکھ دیکھ سکتی ہے۔ وہ حقیقت ظاہر کی دو آنکھوں سے اوجھل رہتی ہے
کبھی اے حقیقت منتظر، نظر آلباس مجاز میں
ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں میری جبین نیاز میں
اور ہاں علامہ اقبال جو کبھی کبھی بے چین ہو کر کہتے تھے کہ
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
کیا یہ وہی پردہ تو نہیں جس کے اٹھنے سے تیسری آنکھ کھل جاتی ہے اور نظر نگاہ بن جاتی ہے۔ نظر اور نگاہ میں بھی بڑا فرق ہے۔ نظر ظاہر بین ہوتی ہے لیکن نگاہ ظاہر بین کے ساتھ ساتھ باطن بین بھی ہوتی ہے۔ نظر دیکھتی ہے کہ سامنے دیوار ہے لیکن نگاہ یہ بھی دیکھ لیتی ہے کہ دیوار کی دوسری طرف کیا ہے۔نظر انسان کے ظاہری روپ اور حسن و جوانی کو دیکھتی ہے جبکہ نگاہ انسان کے باطنی حسن پر پڑتی ہے۔ چہرہ رنگ روغن پالش سے چمکتا ہے لیکن باطنی چہرہ اعمال کے نور سے روشن ہوتا ہے۔ دونوں کے”بیوٹی پارلرز“ الگ الگ ہوتے ہیں۔ ظاہری حسن کے بیوٹی پارلرز بازاروں میں ملتے ہیں جبکہ باطنی حسن کے بیوٹی پارلرز مرشد کے بے سروسامان حجروں میں پائے جاتے ہیں جس کو جس شے کی طلب ہوتی ہے اسے وہی مل جاتی ہے۔
بات دور نکل گئی کیونکہ بات سے بات نکلتی گئی مجھے اپنے وہ بزرگ گزشتہ ایک دہائی میں دوبار خواب میں نظر آئے اور میں نے ان کو پہچانا تو احساس ہوا کہ شکل و صورت مستقل شے اور مستقل پہچان ہوتی ہے مبارک ہو ان کو جن کو اللہ تعالیٰ نے خوبرو چہرے دئیے ہیں کہ یہ بھی اللہ کی نعمت ہوتی ہے۔ ظاہر بین دنیا میں ظاہر کی بڑی قدر قیمت ہے کیونکہ دنیا ظاہر پہ مرتی ہے۔
تازہ ترین