• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان نے بھارت کے ساتھ تعلقات معمول کی سطح پر لانے کے لئے2012ء میں غیر معمولی اقدامات اٹھائے، ایک تو بھارت کو تجارت کے لئے انتہائی پسندیدہ ملک کا درجہ دیا چنانچہ بھارت پاکستان کو 6000 سے زائد اشیاء فروخت کر سکے گا۔ دوسرا دونوں ممالک کے درمیان ویزے کے آسان حصول کے متعلق ہے اور اس پر نئی دہلی میں اگلے ہفتے میں دستخط کر دیئے جائیں گے۔ یہ دونوں اقدامات انڈیا کا دیرینہ مطالبہ رہے ہیں تاکہ پیچیدہ معاملات جیسا کہ کشمیر اور سیاچن پر بات چیت کرنے سے پہلے اعتماد سازی کی فضا قائم ہو سکے۔
یہ دونوں اقدامات کئی حوالوں سے غیر معمولی ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ پاکستان کی طرف سے یکطرفہ طور پر اٹھائے گئے یہ اقدامات ایسے نہیں ہیں کہ ایک ملک کا فائدہ ہو تو دوسرا نقصان میں چلا جائے بلکہ ایک ملک جو رعاتیں دے رہا ہے، دوسرا اُن کا جواب رعایتوں کی صورت میں دے رہا ہے، اس طرح کوئی بھی نقصان میں نہیں ہے۔ فی الحال موجودہ ماحول میں ایسا لگتا ہے کہ ان اقدامات کے نتیجے میں پاکستان کی نسبت بھارت زیادہ فائدے میں رہے گا کیونکہ پاکستانی برآمدات کی نسبت بھارتی برآمدات کا حجم کہیں زیادہ ہو گا۔ اسی طرح آسان ویزے ملنے سے بھی پاکستان کی نسبت بھارتی سرمایہ دار زیادہ فائدے میں رہیں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ 1965ء کے بعد سے پاکستان نے مسائل ”حل “ کرنے کی جو پالیسی بھی اپنائی ہے وہ بری طرح ناکام ہوئی ہے بلکہ اس کا الٹا نقصان ہی ہوا ہے۔ آج سے پہلے تک پاکستان کی پالیسی یہ رہی ہے کہ پہلے مسائل حل ہوں پھر تجارت اور آسان ویزے کی بیل منڈھے چڑھے۔ تاریخی طور پر پاکستان کا موقف یہ رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام ِ متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حل کیا جائے …کشمیر میں استصواب ِ رائے ہو کہ کیا وہ پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں یا نہیں، اس بات کا ووٹ کے ذریعے دوٹوک فیصلہ کر لیا جائے… اور اس کے بعد پھر تجارت اور دیگر معاملات کی طرف توجہ دی جائے۔ اس کے برعکس انڈیا کا موقف یہ رہا ہے کہ مسئلہ دراصل پاکستان کی کشمیر میں بے جا مداخلت ہے اور اسے حل ہونا چاہئے(2001ء میں آگرہ کانفرنس کا یہی موضوع تھا کہ خطے میں پاکستان دہشت گردوں کی حمایت کر رہا ہے)۔ جب1997ء میں اُس وقت کے وزیراعظم پاکستان مسٹر نوازشریف نے آئی کے گجرال کی مربوط گفت و شنید کی آٹھ نکات (جس میں کشمیر کو اہم مسئلہ مانا گیا تھا) پر مشتمل تجویز مان لی تو یہ دراصل ایک نئی سمت میں قدم بڑھایا گیا تھا۔ اسی طرح نواز شریف اور اُن کے ہم منصب مسٹر اٹل بہاری واجپائی کے درمیان ہونے والی لاہور کانفرنس بھی ایک اہم پیشرفت تھی ۔ پاکستان مربوط مذاکرات پر کاربند رہا اور اسے کشمیر پر بیک چینل سفارت کاری سے تقویت دی ۔2004ء میں جنرل مشرف جو اُس وقت صدر ِ پاکستان تھے، نے دو قدم اور آگے بڑھائے اور یکطرفہ طور پر کشمیر میں ہونے والے جہاد سے پاکستان کو لاتعلق کر لیا اور یواین کی قراردادوں سے ہٹ کر کشمیر کے مسئلے کا کوئی ”نیا حل“ تلاش کرنے کی کوشش ہونے لگی۔
بدقسمتی سے ان تمام اقدامات کے جواب میں بھارت نے کسی خیر سگالی کا مظاہر ہ نہیں کیا۔2007ء میں کشمیر پر ہونے والی پس ِ پردہ سفارت کاری کے امکانات ختم ہوگئے اور اس سلسلے میں اب تک کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ہے جبکہ کم سنگینی کے حامل معاملات ، جیسا کہ سر کریک اور سیاچن جن پر 1989ء اور 1992ء میں کافی بات چیت ہوچکی تھی، بھی التوا کا شکار رہے۔ انڈیا کا کہنا ہے کہ پہلے 1999ء میں کارگل اور پھر ممبئی حملوں نے پاکستان کی ساکھ خراب کرتے ہوئے تعلقات معمول پر لانے کے عمل کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ اسی طرح انڈیا کو اب بھی شکایت ہے کہ پاکستان نے ان حملوں کے ذمہ داروں (جن کے لئے غیر ریاستی عناصر کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے)کو قانون کے کٹہرے تک لانے کے لئے کسی سنجیدگی کا مظاہر ہ نہیں کیا ہے۔ درحقیقت اس وقت جب پاکستان کے وزیرداخلہ ویزوں کے حصول کو آسان بنانے کے لئے ہونے والے معاہدے پر دستخط کرنے کے لئے دہلی آئے ہیں تو اُن کے بھارتی ہم منصب نے پاکستان پر الزام لگایا ہے کہ ”پاکستان بھارت مخالف دہشت گردوں کو تربیت دینے کے لئے42مراکز، جن میں 2500سے زائد دہشت گرد تربیت حاصل کرکے لائن آف کنٹرول پار کر کے بھارت میں تخریب کاری کرنے کا موقع تلاش کر رہے ہیں، سے اغماض برت رہا ہے“۔ انڈیا کا دعویٰ ہے کہ اس نے صرف2012ء میں ہی دہشت گردوں کی250 ایسی کوششوں کو ناکام بنایا ہے۔ اب اس الزام کے جواب میں پاکستان لامحالہ بھارت پر الزام لگائے گا کہ وہ بلوچستان میں تشدد پسند عناصر کی مدد کر رہا ہے اور اس نے افغانستان میں کیمپ قائم کر رکھے ہیں جن میں طالبان تربیت پا کر فاٹااور کراچی کے امن کو برباد کرتے ہیں۔ اس سے بھی بدترین بات یہ ہے کہ اب بھارت کہہ رہا ہے کہ سرکریک اور سیاچن ”معمولی معاملات نہیں ہیں“۔ سیاچن میں تو اس نے اپنی دفاعی پوزیشن کو تقویت دے کر اسے اپنے لئے ناگزیر قرار دے دیا ہے۔ اس سے پہلے وہ اس بات پر راضی ہو جاتا تھا کہ دونوں ممالک کو 1984ء سے پہلے والی پوزیشن پر چلے جانا چاہئے۔ اس طرح دونوں ممالک کے فوجی دستے اس برف زار کو خالی کر دیتے۔ اُس وقت اُس کا موقف صرف یہ تھا کہ خالی کرنے سے پہلے کاغذات پر قانونی طور پر اُس کی وہ پوزیشن تسلیم کی جائے جہاں اُس کے فوجی دستے آج موجود ہیں۔ اب اس کا اصرار ہے کہ لائن آف کنٹرول کو گلیشئر پر NJ9842 تک کھینچا جائے ۔ اس سے بھارت کو NJ9842 تک، جو کہ شمال مشرق میں چین کے بارڈر تک پھیلا ہوا ہے،کا کنٹرول حاصل ہو جائے گا چنانچہ اس کے نزدیک اب سیاچن صرف لائن آف کنٹرول نہیں بلکہ چین کے ساتھ سرحدی مسابقت کا معاملہ بن چکا ہے۔
یہ صورتحال کسی طور بھی پاکستان اور بھارت کے دوطرفہ تعلقات کے لئے خوشگوار نہیں ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستان میں تمام جمہوری قوتوں میں اتفاق ِ رائے پیدا ہوا ہے کہ بھارت کے ساتھ امن قائم کیا جائے ۔کئے جانے والے سروے ظاہر کرتے ہیں کہ 65% پاکستانی چاہتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ فوجی تناؤ کا خاتمہ ہوجائے ۔ حتیٰ کہ پاکستان کے آرمی چیف بھی کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کا حقیقی دشمن باہر نہیں بلکہ ”اندر“ ہی موجود ہے… گویا اُن کا اشارہ بھارت نہیں بلکہ طالبان کی طرف ہے۔ اس کے علاوہ سرحد پار بھارت کے نوجوان لوگ بھی دشمن یادوں کو دل سے محو کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات چاہتے ہیں۔
دراصل انتخابی سیاست کے تقاضے، جارحانہ میڈیا، جس میں قوم پرستی کے جذبات غالب ہیں اور سخت گیر رویّّے رکھنے والی افسر شاہی بھارت میں امن کی آشا کے راستے میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں ڈاکٹر من موہن سنگھ برصغیر میں امن کی فضا قائم کرنے کے خواہاں نظر آئے تھے۔اُس وقت وہ پاکستان کا دورہ کرنے کی تیاری کررہے تھے ۔ اُس دورے کے دوران سرکریک اور سیاچن جیسے مسائل طے پانے کی توقع قائم ہو چکی تھی مگر اُن کے تمام منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے جب میڈیا اور اپوزیشن نے اُن کو اُس وقت آڑھے ہاتھوں لیا جب اُنہوں نے بھوٹان میں2011ء میں ہونے والی سارک کانفرنس کے دوران مسٹر یوسف رضا گیلانی سے بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی پر کچھ نرمی دکھانے کا عندیہ دیا۔ اب جب کہ بھارت میں عام انتخابات ہونے میں اٹھارہ ماہ باقی رہ گئے ہیں، ڈاکٹر صاحب کی حکومت بدعنوانی کے الزامات کی زد میں ہے۔ ان حالات میں وہ پاکستان کو کوئی بھی رعایت دینے کا الزام اپنے سر لینے کے متحمل نہیں ہو سکتے ہیں۔ اس رعایت کو بھارت میں سیاچن پر قدم پیچھے ہٹانے کے عملی اقدام کے آئینے میں دیکھا جائے گا۔
یہ ہیں وہ معروضات جب جنگ گروپ اور ٹائمز آف انڈیا کے اشتراک سے نئی دہلی میں کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ہے تاکہ کشیدگی میں کچھ کمی لائی جا سکے۔ دونوں ممالک کے شرکاء نے سرکریک اور سیاچن پر مرحلہ وار ، نہ کہ انقلابی، تبدیلی کا موقف اختیار کیا۔ اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ سرکریک کو ”فری زون “قرار دے دینا چاہئے جبکہ دونوں ممالک مل کر اس کی نگرانی کریں تاکہ دونوں ممالک کے ماہی گیر یہاں مچھلی پکڑ سکیں جبکہ اسی دوران دونوں ممالک کے درمیان سمندری حدود متعین کرنے کا معاملہ طے پاتا رہے۔ اسی طرح لائن آف کنٹرول کو NJ9842 تک پھیلانے کا معاملہ بھی مرحلہ وار طے پا سکتا ہے بشرطیکہ اس خطے میں فوجی دستوں کو آہستہ آہستہ کم کرتے ہوئے اس علاقے کا ماحولیاتی تحفظ کیا جاسکے۔ یہ اچھی تجویزیں ہیں ۔ پاکستان میں بھارت کو دشمن سمجھنے کی پالیسی میں انقلابی تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے۔ یہ دہشت گردوں سے نمٹنے کے لئے عملی اقدامات کر رہا ہے ۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ بھی کارگل اور ممبئی کی یادوں سے جان چھڑائے تاکہ برصغیر میں امن کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔ اسی دوران بھارتی میڈیا کو بھی مسئلے کا حصہ بننے کی بجائے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
تازہ ترین