• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سعودی عرب اور پاکستان کے مابین کئی عشروں سے بہت ہی قریبی اور برادرانہ تعلقات ہیں اور دونوں ممالک نے اچھے برے وقت میں ایک دوسرے کا کھل کر ساتھ دیا ہے۔ پاکستان نے جب ایٹمی پروگرام کا آغاز کیا تو اُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سعودی عرب گئے اور سعودی فرمانروا شاہ فیصل سے ملاقات میں بتایا کہ پاکستان کی سلامتی کیلئے ایٹمی پروگرام ناگزیر ہے اور اگر پاکستان نے ایٹمی طاقت حاصل کرلی تو یہ پروگرام نہ صرف پاکستان بلکہ پورے عالم اسلام کے دفاع کیلئے ہوگا۔ یہ سن کر سعودی فرمانروا نے ذوالفقار علی بھٹو کو یقین دلایا کہ ’’آپ پیسوں کی بالکل پروانہ کریں اور ایٹمی پروگرام شروع کریں۔‘‘اس طرح پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں سعودی عرب نے دل کھول کر مدد کی۔ 1998ء میں جب ایٹمی دھماکوں کے بعد امریکہ نے پاکستان پر معاشی پابندیاں عائد کردیں اور ملکی معیشت زبوں حالی کا شکار ہونے لگی تو وزیراعظم نواز شریف سعودی عرب گئے اور سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے اُنہیں گلے لگاتے ہوئے کہا کہ ’’آج پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے سے ہمیں اتنی خوشی ہے جیسے سعودی عرب ایٹمی طاقت بن گیا ہو۔‘‘ اس کڑے وقت میں بھی سعودی عرب نے پاکستان کی نہ صرف کھل کر مالی امداد کی بلکہ ادھار پر تیل بھی فراہم کیا۔ اس کے علاوہ وقتاً فوقتاً جب بھی پاکستان کی معیشت مشکلات کا شکار ہوئی، سعودی عرب نے پاکستان کو تنہا نہیں چھوڑا۔

وزیراعظم عمران خان کے گزشتہ ایک ماہ کے دوران مسلسل دوسرے دورہ سعودی عرب اور سعودی فرمانروا سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقاتوں کے بعد پاک سعودیہ تعلقات میں پہلے کی طرح گرمجوشی دیکھنے میں آرہی ہے۔ گزشتہ دورہ سعودی عرب سے وطن واپسی پر ایک حکومتی وزیر نے میڈیا پر اس طرح کے بیانات دیئے جس سے یہ تاثر ابھرا کہ سعودی عرب سی پیک میں شامل ہورہا ہے اور سعودی حکومت پاکستان کو 10 ارب ڈالر کی امداد کے علاوہ ادھار پر تیل بھی فراہم کرے گی مگر بعد میں حکومت کو یہ وضاحت کرنا پڑی کہ اِن خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔

کسی بھی ملک کا سفیر دو ملکوں کے درمیان تعلقات بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ پاکستان میں متعین سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی نے پاک سعودیہ تعلقات میں حائل سردمہری کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا جس کے باعث دونوں ممالک کے تعلقات پہلے کی سطح پر بحال ہوئے۔ سعودی سفیر سے میرے قریبی تعلقات ہیں اور میں اُن کی اِس لئے بھی بہت عزت کرتا ہوں کہ وہ پاکستان اور پاکستانیوں کے حقیقی دوست ہیں۔ گزشتہ دنوں میں نے اپنے قریبی دوست سمیع اعوان کے ہمراہ اسلام آباد کے ڈپلومیٹک انکلیو میں واقع محل نما گھر میں سعودی سفیر سے ملاقات کی۔ سعودی سفیر نے گلے لگاکر بڑی گرمجوشی سے ہمارا استقبال کیا۔ بعد ازاں عربی قہوہ اور کھجوروں سے تواضع کی گئی۔ اس موقع پر میں نے سعودی سفیر کو کچھ روز قبل اسلام آباد میں ہونے والی سعودی عرب کے قومی دن کی تقریب کی کامیابی پر مبارکباد دی جس میں مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے دو ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی تھی۔ تقریب میں 8 وفاقی وزراء سمیت راجہ ظفر الحق، چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی بھی شریک تھے جبکہ آرمی کی نمائندگی چیف آف جنرل اسٹاف ندیم رضا نے کی۔ اس تقریب میں شہباز شریف بھی موجود تھے جس سے اس بات کی نفی ہوئی کہ سعودی رائل فیملی کے شریف فیملی سے پہلے جیسے تعلقات نہیں۔ سعودی سفیر سے ملاقات کے دوران مجھے جس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ ڈرائنگ روم میں لگی نادر تصاویر تھیں جن میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی بانی سعودی عرب عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود، ایوب خان کی شاہ سعود بن عبدالعزیز، ذوالفقار علی بھٹو کی شاہ فیصل بن عبدالعزیز، جنرل ضیاء الحق کی شاہ فہد بن عبدالعزیز اور نواز شریف کی شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے ساتھ ملاقات کی تصاویر شامل تھیں۔

سعودی سفیر فارن سروس جوائن کرنے سے پہلے نیوی میں تھے۔ بعد ازاں 2014میں انہیں سعودی سفارتخانے اسلام آباد میں ملٹری اتاشی تعینات کیا گیا تاہم ان کی محنت اور وژن کو دیکھتے ہوئے سعودی ولی عہد، جن سے ان کے قریبی تعلقات ہیں، نے انہیں پاکستان میں سفیر مقرر کیا۔ تقرری کے بعد ان کی ترجیحات میں یہ شامل تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان غلط فہمیوں کا خاتمہ ہو اور تعلقات نئی بلندیوں پر جائیں۔ وزیراعظم عمران خان کے حالیہ دورہ سعودی عرب کی کامیابی کا سہرا بھی سعودی سفیر کے سر جاتا ہے۔ ان کی ذاتی دلچسپی کے باعث گزشتہ دنوں ایک بڑے تجارتی وفد ،جس میں سعودی وزیر توانائی کے مشیر خاص اور سعودی عرب کی سرفہرست بڑی کمپنیوں کے سربراہان بھی شامل تھے، نے پاکستان کا دورہ کیا جنہیں سعودی سفیر خصوصی طیارے میں اپنے ہمراہ گوادر لے کر گئے اور پاکستان میں اربوں ڈالر کی سعودی ریفائنری کے قیام کی مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہوئے۔ سعودی سفیر نے بتایا گوکہ سعودی عرب سی پیک میں براہ راست شامل نہیں ہورہا مگر سی پیک کوریڈور کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کا خواہشمند ہے اور سعودی آئل ریفائنری کا پروجیکٹ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ سعودی عرب سے پاکستان کو ادھار پر تیل کی فراہمی پر بات چیت ہوئی ہے اور آنے والے وقت میں اس میں مزید پیشرفت متوقع ہے۔

یہ بات خوش آئند ہے کہ وزیراعظم عمران خان حالیہ دورہ سعودی عرب کے دوران دارالحکومت ریاض میں منعقدہ ’’بین الاقوامی سرمایہ کاری کانفرنس‘‘ میں شرکت کررہے ہیں جس کی دعوت اُنہیں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے دی تھی۔ سعودی عرب پہنچنے پر عمران خان کا یہ بیان بھی قابل ستائش ہے ،جس میں انہوں نے سعودی عرب اور ایران کے مابین تنازعات حل کرانے کی پیشکش کی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے سعودی عرب کے ان دوروں سے اُن کی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے اچھی انڈر اسٹینڈنگ ڈویلپ ہوئی ہے اور دونوں رہنمائوں کا گاہے گاہے ٹیلیفونک رابطہ بھی رہتا ہے۔ سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی کو یہ کریڈٹ بھی جاتا ہے کہ انہوں نے دونوں ملکوں کی افواج کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان کے آرمی چیف اور دوسری افواج سے بھی سعودی سفیر کے قریبی تعلقات ہیں۔ ماضی میں سعودی کیڈٹس تربیت کیلئے امریکہ جایا کرتے تھے مگر سعودی سفیر کی ذاتی کوششوں سے 550سے زائد سعودی کیڈٹس پاکستان میں آرمی، نیوی اور ایئرفورس کی اکیڈمیز میں تربیت حاصل کررہے ہیں جس سے پاکستان کو کثیر زرمبادلہ حاصل ہورہا ہے۔ سعودی سفیر پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں اور وہ پاکستان اور پاکستانیوں سے بے انتہا محبت کرتے ہیں۔ اگر کوئی پاکستان کے خلاف بات کرے تو وہ اس سے تعلقات رکھنا گوارہ نہیں کرتے۔ ان کی ذاتی کوششوں سے اس سال معزز پاکستانیوں کی بڑی تعداد نے سعودی مہمان کے طور پر حج کی سعادت حاصل کی۔ حکومت پاکستان کچھ ماہ قبل چین کے سفیر کو اُن کی خدمات کے صلے میں ’’نشان پاکستان‘‘ کا اعزاز عطا کرچکی ہے۔ حکومت سے درخواست ہے کہ وہ سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی کی خدمات کو پیش نظر رکھتے ہوئے انہیں پاکستان کے اعلیٰ سول ایوارڈ سے نوازے تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہوسکے۔

تازہ ترین