• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

علی تنہا

کارپوریٹ سرمایہ دارانہ نظام اکیس ویں صدی میں پس ماندہ ملکوں کے علم و ادب کے مرکزی بیانیے پر کسی نہ کسی حد تک اثر انداز ہورہا ہے، یہاں تک کہ اردو میں مثیل فوکو، ڈریڈا اور رولاں بارت کے تصورات کے حق میں، اُس وقت بات ہورہی ہے، جب یورپ میں اُن کی محض بازگشت باقی ہے۔ ہمارے ہاں چوں کہ مغرب سے آمدہ تحریکات اور نئے تصورات دیر سے آتے ہیں، اس لیے یار لوگوں نے ردِ تشکیلات اور تخلیق کے متن میں سے عقلیت کی فضیلت ثبت کرنے پر کمر باندھ لی ہے۔ ساٹھ کی دہائی میں مارولاڈ بارت، فوکواور ڈریڈا کے بارے میں انیس ناگی اور افتخار جالب نے عرصہ ہوا ستائشی مضامین لکھے تھے، مگر اُن کا خاطر خواہ اثر نہ ہوپایا۔ مارکیٹ اکانومی اور میڈیا وار کے طوفانی حملوں میں تیسری دنیا جس سرعت سے تباہ ہورہی ہے، اس میں ادیبیات کا سماجی ترجیحات میں آخری لائن تک جانے میں فوکو، ڈریڈا وغیرہ کی بحث کا دوبارہ ابھرنا معنی خیز ہے۔

بہ نظر غائر دیکھا جائے تو ادب و فن کو جس سماج میں زہر دیا جائے، وہاں سے سچائیاں رخصت ہوجاتی ہیں، انسانی بصیرت کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ یہی استعماریت کا مدّعا ہے۔ یہ تینوں ناقدین اور ان کے مقلدین جس گم راہی کا شکار ہوئے، خود انہیں بھی شاید اندازہ نہ ہو۔ یہ سبھی دانش ور لکھاری، یعنی رولاں بارت، فوکو اور ڈریڈا فرانس سے تعلق رکھتے ہیں۔ فرانس کے عظیم الشان ادبی ورثے پر تو ان کے منفی اثرات پڑنے تھے۔ معاشی استعاریت کے سر اٹھانے پر، یہ لوگ کیوں ہمیں یاد آنے لگے؟ صاف ظاہر ہے، یہ سرمایہ داری کے حق میں زیرِ زمین علمی و ادبی محاذ پر جدوجہد ہے۔ یہ ہے، صارف سوسائٹی کا پہلا زہریلا اثر۔ درماندہ اور افلاس زدہ اقدام کو اقدار، ثقافت اور تخلیقی سرمائے سے محروم کر کے باآسانی عالمی جبر کا راستہ کُھل سکتا ہے۔

اردو ہی نہیں، تیسری دنیا کے ادبیات کے اجتماعی بیانیے میں آہستہ آہستہ ردِ تشکیلات اور مابعد جدیدیت سے گریز کا عمل راہ پارہا ہے، مگر میڈیا وار میں یہ گریز پوری طرح نظر نہیں آرہا۔ یہ تو طے شدہ حقیقت ہے کہ ہر نئے زمانے کا اپنا طرزِ احساس ہوتا ہے، زبان تک وقت کے ساتھ بدل جاتی ہے، کئی پرانے طریقہ ہائے کار دم توڑ دیتے ہیں۔

کیا برطانوی نو آبادیات کے عہد میں آرٹ کا نیا قرینہ سامنے نہیں آیا تھا؟ مگر خدا ساز بات یہ ہوئی کہ اُس دور میں ترقی پسندی اور آرٹ میں جدیدیت نے استعاری قوتوں کا یہ وار بے اثر کردیا تھا، بلکہ الٹا اردو ادب میں بیسویں صدی کی چوتھی دہائی سے انقلاب آفرین ارتقا ظہور پزیر ہوتا گیا۔ سامراجی افکار اور فنی یکسانیت یا فرسودگی ختم ہوئی، مگر اکیسویں صدی میں صورتِ حال مختلف ہے۔ طبقاتی نظام کا نیا جال شکاریوں کے ہاتھ میں ہے۔ ماضی میں یہ جال ترقی پسندی نے توڑا تھا، مگر اب یہ جال ملٹی نیشنل کمپنیوں نے پھینکا ہے اور مقابل بے دست و پا غریب ملکوں کے عوام ہیں۔ اردو کو بھی استعماری جال کے جبر کا سامنا ہے۔

یہ صرف اردو کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ کہا جارہا ہے کہ دنیا کی کم و بیش سات ہزار زبانوں میں سے صرف دو ہزار زبانیں اکیسویں صدی کے آخر تک زندہ رہیں گی۔ باقی پانچ ہزار زبانیں سرمایہ داری کے جال میں دم توڑ دیں گی، چلیے قصہ پاک۔ یہی نہیں، بلکہ ایک عالم گیر مخلوط زبان کا دور دورہ ہوگا، پس ماندہ اقوام کی تہذیب، ثقافت اور تمدن کا بھی اس طرح باآسانی دھڑن تختہ ہورہے گا۔ دوسرے لفظوں میں جنوبی ایشیا، افریقا اور دوسرے افلاس زدہ اقوام کے مرنے جینے کا فیصلہ اکانوی مارکیٹ کے ہاتھ میں ہے۔ اس تناظر میں اردو کہاں کھڑی ہے؟ گو کہ اردو، دنیا کی اہم زبانوں میں سے ہے، مگر اس کی وسعت پذیری کو لگام دینے کے لیے اس کے ادب کے مرکزی بیانیے کو کم زور کرنے کے لیے کارپوریٹ سرمایہ کاری نے سب کچھ کرنا ہے اور یہ کام ہے میڈیا وار کا۔

تین ڈکشنریوں کے ساتھ اُنہوں نے اردو محاورات کی ایک اہم لغت بھی مرتب کروائی۔ ڈاکٹر فیلن کے اس فیضان نے بیسویں صدی کے تخلیقی سرمائے کی آبیاری کی۔ لسانی پیرہن، انگریزی سے وضع ہوتے ہی آہستہ آہستہ فارسی اور عربی زبانوں سے ہمارا رابطہ کم زور ہوتے ہوتے چوتھی دہائی کے آخری برسوں میں لگ بھگ ختم ہی ہوگیا اور پڑھو فارسی بیچو تیل والا محاورہ سامنے آیا۔ اب یہ قصۂ پارینہ ہے۔ نئی اردو کا، اب انگریزی کے ساتھ ساتھ زندہ رہنے کے لیے مقامی پاکستانی زبانوں، یعنی پنجابی، سندھی، سرائیکی، پشتو، بلوچی اور کشمیری وغیرہ سے رس کشید کرنا ہے اور یہ صلاحیت اردو میں بے پناہ ہے۔ وہی بات تخلیقی معیار کو تو معاصر حیات کا جو سماجی ڈھانچا اکیس ویں صدی میں بن چکا ہے، اس کی روح تخلیق کے بیانیے میں سامنے آرہی ہے۔ اب بیدی، منٹو، غلام عباس، فیض، عسکری، میراجی، مجید امجد، ن م راشد تو آنے سے رہے۔ ہاں اُن کی عظیم روایات کی گونج صدیوں تک زندہ رہے گی۔ ہماری نئی پیڑھی کے لوگ، اکیس ویں صدی میں تخلیق کی کون سی یادگار سطح سامنے لائیں گے، یہ اُن کی ایجادی ہُنر مندی پر دال ہے۔ رہا کارپوریٹ سرمایہ دارانہ نظام تو یہ کیمیاوی ہتھیاروں سے زیادہ مہلک ہے۔ رواں صدی میں ناول نگاری کی نئی جہت کسی حد تک آشکار ہورہی ہے، مگر افسانے میں وہ چمک اور تخلیقی انگیخت کی طاقت ظاہر نہیں ہورہی، کیونکر ممکن ہو کہ معتبر اور دہشت زدہ سوسائٹی میں تخلیق کار زندگی کی نئی معنویت سے اعراض برتیں۔ وہ وقت دُور نہیں، جب افسانہ اپنی خلاقانہ شناخت وضع کرے گا۔ فی الحقیقت اکیس ویں صدی کے اٹھارہ برسوں میں جب زندگی زیادہ گھمبیر صورتِ حال کا سامنا کررہی ہے۔ نئے افسانہ نگار، علامت، تجرید، وجودیت کی تہ داری سے دُور ہوتے نظر آرہے ہیں، نئے افسانے میں حقیقت نگاری کا انعکاس، منطقی سطحوں پر زیادہ تر نمایاں ہورہا ہے یا یوں کہیے کہ مجموعی اعتبار سے معاشرے کی فکری، شعوری اور لاشعوری بیانیے کے لیے براہِ راست اظہار کا طریقِ کار رواج پارہا ہے۔ سماج کا چہرہ چوں کہ ذہنی افتاد کے اعتبار سے واضح نہیں ہے، اس لیے وجود کی لاشعوری کیفیتوں کے بجائے واقعے کی ناگزیریت پر زور ہے، اس لیے نئے افسانے میں تخلیقی عمل کا فشار کثرت معانی سے زیادہ تر تہی ہے۔ گویا افسانوی مواد فطری آہنگ میں نہیں ابھر رہا۔ نئی صدی میں افسانے کے مرکزی مزاج کو ہسیتی اور تیکنیکی تجربے کی جہت نہیں مل پارہی، البتہ ایک اچھی بات، جو آج کے لکھاریوں میں نظر پڑتی ہے، وہ ہے نرمی اور بیمار رومانویت کے علاوہ خطابت، جذباتیت اور فارمولا کہانی سے گریز۔ اس ضمن میں طاہرہ اقبال کے افسانوں میں معاصر فکشن رائٹرز کے مقابلے میں کہانی کہنے کا فطری بہاوؐ، لسانی کشادگی اور تیکنیک کا تنوع نئی شان سے ہویدا ہوا ہے۔

نظم میں اکیسویں صدی کا بیانیہ زیادہ نکھر کر نہیں آرہا۔ ہمارے ہاں مجید امجد جیسا عبقری لکھاری تو دُور کی بات ہے، اب صلاح الدین پرویز، سرمد صہبائی، عبدالرشید جیسا رجحان ساز نظم گو بھی نظر نہیں آرہا۔ غزل کی تخلیقی رفتار بھی رکی رکی سی ہے۔ شاید سرمائے کی مرکزیت کے شور میں سوسائٹی اس ہول ناکی میں دہشت زدہ ہے اور فن کار تاحال رسمیہ اور روایتی فنی ہتھیاروں پر تخلیقی شعر سے کام لے رہا ہے، اس گھٹی گھٹی شاعرانہ فضا کا دورانیہ زیادہ دیر قائم نہیں رہے گا، کیوں کہ ہماری ادبی تاریخ میں تخلیقیت کا آہستہ رو، سفر، پایانِ کار، نئی ایجادی جست ضرور لیتا ہے۔

تازہ ترین