• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ن لیگ کے قائد میاں نواز شریف نے میلسی میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ” ضمنی الیکشن ٹریلر تھا، شیر ابھی آنے والا ہے، انتخابات سپرہٹ فلم ہوں گے“انہوں نے کہا”ملک میں کرپشن کا دور دورہ ہے، ملک کو تباہ کردیا گیا ہے، ہم عوام کی مدد سے نیا پاکستان تعمیر کریں گے“۔ادھر عمران خان نے سنگا پور کی نیشنل یورنیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف ساؤتھ ایشین سٹڈیز میں جمہوری پاکستان کے لئے اپنے وژن سے سکالرز کو آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں یقین سے کہتا ہوں کہ”اگر پاکستان تحریک انصاف اقتدار میں آئی تو دنیا2013ء کے بعد بفضل خدا ایک نیا پاکستان دیکھے گی“۔ آج ایک اور خبر ہے کہ”سندھ اسمبلی میں کالا باغ ڈیم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف قرار داد منظور“ ،سپریم کورٹ حکم دے بھی تو کالا باغ ڈیم نہیں بننے دیں گے، ملک کی سلامتی اور یکجہتی کے لئے یہ ضد چھوڑ دی جائے، ارکان کی تقاریر، ڈیم ہماری لاشوں پر بنے گا، ایشو ہمیشہ کے لئے دفن کردیا، وزیر اطلاعات شرجیل میمن“۔یہ تینوں خبریں ایک ہی روز(7دسمبر) کی ہیں۔ تینوں سیاسی ذرائع کا یہ ابلاغ شروع ہوئی انتخابی مہم کاابلاغ ہے جس میں میاں نواز شریف تو باقاعدہ جلسے کررہے ہیں۔ پی پی گٹھ جوڑ سے آئندہ انتخاب کو اپنے حق میں کرنے کی فنکاریوں میں مصروف ہے اور عمران خان اپنی پارٹی میں انتخاب کے چیلنج کو نبھاتے ہوئے انتخاب جیتنے پر قوم کو نیا پاکستان بنانے کا یقین دلارہے ہیں۔
”نیا پاکستان“ میاں نواز شریف اور عمران دونوں کا ہی عزم ہے، پی پی کسی عزم سے خالی معلوم دیتی ہے، کوئی جھوٹا سچا اظہار کر بھی دیا تو جاری بدترین کارکردگی کے حوالے سے عوام اسے مذاق جانیں گے، سو کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرکے مخالف علاقائی قوتوں کا محاذ بنا کر وہ اپنی روایتی سیاست کے بوسیدہ کارڈز پر ہی اکتفا کرتی معلوم دیتی ہے اور اتحادی اسی کی چھتری تلے سمٹے رہنے میں اپنی بقاء کا یقین کرچکے ہیں۔
پاکستان اور اس کے 20کروڑ عوام کے بنیادی مفاد کا تقاضہ تو یہ ہے کہ ہماری سیاسی قوتیں ہر حال میں مکمل سنجیدگی اختیار کرلیں۔ پاکستان کو نیا کرنے کے عزائم کو عمل میں ڈھالنا ہے تو خود میں بھی تازگی پیدا کریں ،اپنی اپنی پارٹیوں کو جمہوری اور شفاف کریں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے امیدواروں کی بنیادی اہلیت اور انہیں انتخابی میدان میں اتارنے کے لئے ان کی نامزدگی کا جماعتی فارمولا اور اپنا انتخابی پروگرام جلد سے جلد عوام کے سامنے لائیں۔ انتخاب سے کچھ ماہ پہلے ان کی تشہیر، مطلوبہ عوامی غور و خوض ، تبصروں اور تجزیوں اور سوالات اٹھانے اور وضاحتوں کے لئے ناگزیر ہے۔ الیکشن2008ء میں تو این آر او نے بڑے بڑے قومی جرائم کے ملزموں کو ایک بار پھر انتخابی امیدوار بنادیا۔ بعد میں ان میں سے کتنے ہی ڈگریوں کے حوالے سے جعلساز نکلے وہ بھی جیسے تیسے ہضم ہوگیا۔ محترمہ بینظیر کے بہیمانہ قتل سے پیدا ہونے والی صورتحال نے این آر او پر کوئی احتجاج بھی نہیں ہونے دیا کہ الیکشن میں ہی اس بڑی تاریخی ناانصافی پر کوئی عوامی ردعمل سامنے آتا۔پوری قوم ایک مخصوص تشویشناک صورتحال میں خیریت سے انتخابی عمل مکمل ہونے کی خواہشمند ہوگئی،سو لوٹ مار کے بڑے بڑے ملزموں کا داؤ لگ گیا۔ وہ پھر حاکم بن گئے۔9 سالہ باوردی قیادت کے نیم جمہوری دور کے بعد کرپشن اور بدترین گورننس میں جمہوریت کی رینگتی گاڑی کئی بارڈی ریل ہوتے ہوتے بچی، عوام نے بھی اپنی ریلوے تقریباً ڈی ریل کرالی، بیمار جمہوریت کو چلتا رکھا۔ اب جبکہ وہ جمہوریت کی ڈگمگاتی کشتی کو انتخاب کے کنارے کے قریب لے ہی آئے ہیں تو اس کا تقاضہ ہے کہ فقط دو لاشاہی عوامی عدالت لگنے کا ہی انتظار نہ کیا جائے بلکہ انتخاب سے پہلے تینوں بڑی جماعتوں کی ”بطور حکمران جماعت“ سکت ، اہلیت، نیت اور ذہنیت کو کھنگال کر مکمل طور پر عوام کے سامنے لایا جائے تاکہ پولنگ ڈے پر کوئی بہتر نتیجہ دینے والی عوامی عدالت لگے۔ واضح رہے کہ ہر بڑے شہر میں متوسط طبقے کے کئی کئی گروپس بن چکے ہیں جو شدت سے منتظر ہیں کہ وہ انتخابی مہم باقاعدہ شروع ہونے پر سیاسی جماعتوں کے رنگ ڈھنگ تو دیکھیں، خصوصاً تحریک انصاف کا کہ پی پی اور ن لیگ دونوں کی حیثیت حکومت اور اپوزیشن کی ہے اور عوام دیکھ چکے اور دیکھ رہے ہیں کہ اپنی اس حیثیت میں یہ کیسی ہیں؟ نئی دعویدار تو تحریک انصاف ہی ہے۔ شاید اس مرتبہ سوشل میڈیا سے بننے والے مڈل کلاسیوں کے گروپس انتخابی مہم میں عوامی عدالت کو متاثر کرنے میں کچھ کام دکھائیں۔ وہ عوامی عدالت جس میں جہالت، ذہنی غلامی اور سادگی کوٹ کوٹ کر بھری ہے، تینوں بڑی جماعتوں کا ان خاموش فنکاروں کو متاثر کرنا ضروری ہے جو کر پایا وہ روز انتخاب فلاح پائے گا۔ ناگزیر ہے کہ ن لیگ، پی پی اور تحریک انصاف ان سوالوں کے جلد سے جلد اور واضح جوابات سے عوام کو آگاہ کریں۔
1۔آپ اپنی جماعت میں جمہوریت کب اور کیسے لائیں گے؟ آپ کی جماعت میں خاندانی اثربڑھ رہا ہے یا کم ہورہا ہے؟2۔انسداد کرپشن کے لئے آپ کے پاس کیا فارمولا ہے اور آپ اس میں ٹیکنالوجی کا استعمال کیسے کریں گے؟3۔ٹیکس کے نظام کو شفاف بنانے ، بڑے بڑے ٹیکس چوروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے اور ٹیکس چوروں کو بڑی اور یقینی سزاؤں کے لئے آپ کے پروگرام میں کیا ہے؟4۔چلیں پرانے گڑے مردے نہ اکھاڑیں لیکن این آر او کی چھلنی سے نکلنے کے بعد اس دور میں حکمرانوں پر کرپشن اور بے دریغ لوٹ مار کے مقدمات درج ہوئے ہیں ان کو مکمل سنجیدگی سے چلانے اور قانون کے عین مطابق آپ نتائج کیسے نکالیں گے؟5۔ملک کو جہالت سے نکالنے کے لئے آپ کب اور کیسے شرح خواندگی میں تیز تر اضافہ کریں گے ۔ حصول تعلیم کے بنیادی حقوق کے حصول کو یقینی بنانے اور اعلیٰ تعلیم و تحقیق اور سائنس کے فروغ اور اسے معیاری بنانے کے لئے آپ کا تفصیلی پروگرام کیا ہے؟6۔آپ کی انرجی پالیسی کیا ہوگی ۔آپ کے ماہرین نے ملک میں توانائی کے تباہ کن بحران کی کوئی سٹڈی کی ہے؟ اگر کی ہے تو آپ کے برسراقتدار آنے پر وہ ا س پر کیسے قابو پائیں گے؟ ان کی قومی ضرورت کے مطابق بجلی پیدا کرنے کی کیا تجاویز ہیں؟ اور وہ ان پر کیونکر عمل کرپائیں گے؟ اور آئندہ اس شعبے میں کرپشن کے امکانات کیسے ختم کریں گے؟7۔واٹر مینجمنٹ رواں صدی کا سب سے بڑا عالمی ایجنڈا بن رہا ہے۔ آپ کو اس کی کتنی ہوش اور فکر ہے؟ اس حوالے سے آپ کے ماہرین ہمارے عظیم دریائی نظام کا بیش بہا اور بے شمار پانی بغیر استعمال کے سمندر میں گر کر ضائع ہونے کا کیا اہتمام کیا ہے؟ آپ کے پاس ملک میں جدید آبپاشی نظام رائج کرنے کی کیا تجاویز ہیں؟ اور آپ پاکستان کے ہر شہری کو پینے کے قابل پانی کی گھر پر فراہمی کیا پروگرام رکھتے ہیں؟ اس کی تفصیل سے قوم کو آگاہ کریں۔
8۔بفضل خدا پاکستان کی سرحدیں اب بہت محفوظ ہیں، آپ ملک کی اندرونی سلامتی کے استحکام خصوصاً امن عامہ کی بدترین صورتحال کو شہریوں کے کھوئے ہوئے امن و سکون کی بحالی کے لئے کیا کریں گے؟اس کی مکمل تفصیل فراہم کریں۔9۔بہترین زرعی خطہ ہونے کے باوجود اشیائے خورونوش کے کاروبار میں ظالمانہ منافع خوری کو قابو کرنے کے لئے آپ کوئی قابل عمل منصوبہ رکھتے ہیں؟ جو کہ معیشت کی جدید سائنس میں ممکن ہے؟10۔صنعت کے فروغ، زرعی پیداوار صحت اور ماحول کا معیار بڑھانے اور خواتین ،بچوں اور سینئر سٹیزن کا سماجی مقام بڑھانے اور انہیں مطلوبہ تحفظ کے لئے آپ کے پروگرام میں کیا ہے؟
ان سوالوں کے جلد سے جلد مکمل ،غیر مبہم اور مفصل جواب انتخاب سے پہلے عوام کی ضرورت ہے جو پوری کرے گی ، وہ فلاح پائے گی کہ ”عوامی عدالت“ کے مقابل مڈل کلاسیے سے آنے والے انتخاب میں ایک موٴثر چیک ہوگا۔ ہوشیار
تازہ ترین