• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
2001ء میں ایک بھارتی فلم ریلیز ہوئی جس کا نام ”نائک “ تھا۔اس فلم میں مرکزی کردار انیل کپور نے ادا کیا جو ایک ٹی وی چینل کے صحافی کا تھا۔ اس صحافی کو کسی طرح چوبیس گھنٹوں کے لئے صوبے کا وزیر اعلیٰ بنا دیا جاتا ہے اور ان چوبیس گھنٹوں میں وہ صوبے کی کایا پلٹ کے رکھ دیتا ہے۔ کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے ،بد عنوان افسروں کی چھٹی کروا دیتا ہے ،بے روز گاروں کے لئے ملازمتیں پیدا کرتا ہے اورکچی بستی والوں کو مالکانہ حقوق دے دیتا ہے۔فلم کے ہدایتکار نے تو اپنی طرف سے سنجیدہ موضوع پر فلم بنائی تھی مگر میں نے اسے کامیڈی فلم کے طور پر انجوائے کیا۔فلم دیکھتے ہوئے ایک بات البتہ میں نے شدت سے محسوس کی کہ ہماری قوم کوبھی عرصہ دراز سے ایسے ہی کسی ”نائک“ کا انتظار ہے ۔ہماری خواہش ہے کہ اس ملک میں کوئی ایسا ”نائک“ آئے جس کے ہاتھ میں جادو کا ڈنڈا ہو ،وہ ڈنڈا گھمائے اور چشم زدن میں پورے ملک کا گند صاف ہو جائے (چاہے اس کے نتیجے میں ملک کی آبادی آدھی ہی کیوں نہ رہ جائے مگر اس آدھی آبادی میں ہم ضرور شامل ہوں)،وہ دوسری مرتبہ ڈنڈا گھمائے تو ملکی معیشت بلٹ ٹرین کی رفتار سے دوڑنے لگے ،وہ تیسری مرتبہ ڈنڈا گھمائے تو پورے ملک میں قانون کی عملداری ہو جائے ،وہ چوتھی مرتبہ ڈنڈا گھمائے تو ملک سے تمام مافیاز کا خاتمہ ہو جائے اوروہ پانچویں مرتبہ ڈنڈا گھمائے تو ہم سپرپاور بن جائیں ۔وہ جادو کے ڈنڈے گھماتا رہے اور ہم بیٹھے محظوظ ہوتے رہیں ۔اپنا کام ختم کرنے کے بعد وہ نجات دہندہ واپس وہیں چلا جائے جہاں سے آیا تھا اور ہم سب ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگیں ۔
یہ اور اس نوع کے کچھ نعرے اس قدر دلفریب ہیں کہ انہیں رد کرنے کو دل ہی نہیں کرتا ۔یہ جانے بغیر کہ دنیا کے میں کبھی کسی ملک میں ایسا نہیں ہوا ،ہم پچھلے 65برسوں سے کسی نا معلوم ”نائک“ کی آس لگائے بیٹھے ہیں اور جب ہماری یہ امید دم توڑنے لگتی ہے تو ہم اپنا تمام غصہ جمہوریت پر نکالتے ہیں اور اس نظام کو غلیظ ،مکروہ، کرپٹ اور بھیانک کے القابات سے نوازتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب تک یہ فرسودہ نظام نہیں بدلے گا ہمارے حالات ٹھیک نہیں ہوں گے ،جب تک یہ نالائق حکمران ہم پر مسلط رہیں گے ہماری زندگیوں میں بہتری نہیں آئے گی۔یہ جمہوریت جعلی ہے،ڈھکوسلہ ہے ، فراڈ ہے ۔اس کھوکھلے نظام کو ہائیڈرو فلورک ایسڈ سے سروس کرنے کی ضرورت ہے اور جب تک ایسا نہیں ہوگا تب تک ہم سب کو یہ جمہوری ذلت برداشت کرنی پڑے گی وغیرہ وغیرہ۔ان دلکش نعروں کے دلدادہ افراد یہ نعرے لگاتے ہوئے دو سوالوں کے جواب یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اول،کیا دنیا میں کسی قوم نے جمہوریت کے علاوہ ایسا کوئی نظام تشکیل دیا ہے جس کی مدد سے پاکستان جیسے ملک کے مسائل آئیڈیل انداز میں حل کئے جا سکیں ؟ دوم،نظام بدلنے کے نام پر جمہوریت سے چھٹکارا حاصل کرنے کی ترغیب دینے والوں کے پاس ایسی کون سی گیدڑ سنگھی ہے جو اس قبل ہم نے اس ملک میں نہیں آزمائی ؟دنیا نے بادشاہت ،آمریت ،سوشلزم،کمیونزم،تھیوکریسی، حتیٰ کہ جاگیر داری نظام کو بھی خلو ص نیت سے آزمایا ہے مگر ابھی تک انسان کوئی ایسا نظام حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہوا جو خرابیوں سے پاک ہواور اس ناکامی کی بنیادی وجہ انسان کی اپنی خباثت ہے۔جونہی ریاست کا اختیارکسی فرد یا گروہ کے ہاتھ میں آتا ہے ،وہ اسے کھونا نہیں چاہتے اور ان میں طاقت کے حصول کی خواہش انگڑائی لے کر بیدار ہو جاتی ہے ۔یہ وہ خرابی ہے جسے سو فیصدی ختم نہیں کیا جا سکتا البتہ کم کیا جا سکتا ہے ۔اب لے دے کے جمہوریت ہی ایک ایسا نظام بچا ہے جہاں یہ خرابی دیگر نظاموں کی نسبت قدرے کم ہے۔
ہمیں اس نعرے میں بے حد کشش محسوس ہوتی ہے کہ حکومت نیک نیت لوگوں کے ہاتھ میں دے کر انہیں کلی اختیار دے دیا جائے تو نظام اپنے آپ ٹھیک ہو جائے گا۔بلاشبہ یہ ایک ایسا لطیفہ ہے جس پر لافٹر بنتا ہے ۔ایسے ہی ایک نامور شخص کا دعویٰ ہے کہ وہ نہ صرف خود صالح انسان ہیں بلکہ ان کے پاس صالحین کی پوری ٹیم تیار ہے، اگر انہیں ذمہ داری سونپی جائے تو وہ ملک کی کایا پلٹ سکتے ہیں ۔(ان کے پاس شوگر اور جوڑوں کے درد کے چند مجرب نسخے بھی دستیاب ہیں جنہیں وہ اکثر بتاتے رہتے ہیں)۔ان کی خواہش ہے کہ کسی بھی طریقے سے بس اقتدار ان کے حوالے کر دیا جائے چاہے وہ طریقہ غیر آئینی ہی کیوں نہ ہو ۔عجیب بات ہے کہ ہم اپنے لئے تو قانون کی عملداری مانگتے ہیں مگر جب ملک کی بات آتی ہے توغیرآئینی حل پیش کرنے سے نہیں چوکتے اور تاویل یہ دیتے ہیں کہ اس کے علاوہ ملکی حالات ٹھیک کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے ۔یہ بالکل ایسے ہی جیسے پولیس کسی مشتبہ شخص کو پکڑ کر تھانے لے جائے اور وہاں تھرڈ ڈگری کا استعمال کرکے اس سے اعتراف جرم کروائے اور پھر اپنے اس غیر قانونی فعل کی توجیح یوں پیش کرے کہ اس طریقے سے ڈکیتی کا کیس حل ہوگیاہے ۔جو لوگ اس طریقہ کار پر ایمان رکھتے ہیں ،اگر کسی دن انہیں پولیس کی اس تفتیش کو بھگتنا پڑے تو جوڑوں کے درد کے تمام نسخے بھول جائیں گے ۔
جمہوریت کیخلاف یہ طعنہ بھی بہت پاپولر ہے کہ پاکستان میں یہ نظام موروثی بادشاہت کی طرز پر کام کر رہا ہے۔جو عوام یہ طعنہ دیتے ہیں انہیں چاہئے کہ دو منٹ کے لئے اپنے گریبانوں میں بھی جھانک کر دیکھ لیں ۔جب ایک ڈاکٹر کا بیٹا ڈاکٹر بن کر نکلتا ہے تو نہایت طمطراق سے باپ کے بنائے ہوئے عالیشان ہسپتال سے پریکٹس شروع کرتا ہے،اسے کوئی نہیں کہتا کہ بیٹا تم اپنے زور بازو پر پریکٹس شروع کرو!ایک نامور وکیل کا بیٹا جب پریکٹس شروع کرتا ہے تو باپ کے چیمبر سے شروع کرتا ہے ،اسے کچہری کے باہر ”پھٹہ“ لگانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایک بزنس مین کا بیٹا جب اپنے باپ کی چلتی ہوئی فیکٹریاں سنبھالتا ہے تو اسے بھی قابل اعتراض نہیں سمجھا جاتا مگر جونہی بات سیاست دان کی آتی ہے ہمارے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگتے ہیں حالانکہ جس طرح ڈاکٹر اور وکیل ڈگریاں لے کر پریکٹس شروع کرتے ہیں اسی طرح سیاست دان کا بیٹا بھی ووٹ لے کر ہی منتخب ہوتا ہے اور بلاشبہ اسے دوسروں پر اسی طرح فوقیت ہوتی ہے جیسے ڈاکٹر،وکیل یا بزنس مین کے بیٹے کو اپنے باپ کی وجہ سے ہوتی ہے ۔اگر موروثی بادشاہت ہی جمہوریت کے خلاف دلیل ہے تو امریکہ بھی اس سے مبرا نہیں ،وہاں کینیڈی اور بش خاندان کئی برسوں سے موجود ہیں اور امریکہ جانے کی کیا ضرورت،بھارت کے نہرو خاندان کی مثال سامنے ہے ۔انتخابات میں دھاندلی ،فائرنگ اورپارٹی وفاداریاں تبدیل کرنابلاشبہ غلط مگر اس قسم کی باتوں کو جمہوریت کے خلاف استدلال کے طور پر استعمال کرنیوالے یہ بھول جاتے ہیں کہ دنیا کے بہترین جمہوری ممالک ان تمام مسائل کو عبور کرتے ہوئے یہاں تک پہنچے ہیں اور ان کی کامیابی کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ملک میں لولی لنگڑی اورغلیظ جمہوریت کو چلنے دیا اور سبز باغ دکھانے والوں کی باتوں میں آنے کی بجائے اسی جمہوری نظام میں اصلاحات کر کے اسے بہتر بنایا۔ جمہوریت کی بد ترین شکل وہ ہے جس میں کوئی چیک اینڈ بیلنس نہ ہو اورتمام اختیارات کسی ایک فرد یا ادارے کے پاس جمع ہو جائیں جبکہ دوسری طرف اس قسم کا سیٹ اپ آمریت کی بہترین فارم ہوتاہے ۔اب یہ ہماری چوائس ہے کہ کسی جادو کے ڈنڈے والے نائک کا انتظار کریں یا اسی نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کریں ۔دنیا نے کیا ہے تو ہم کیوں نہیں کرسکتے ؟
تازہ ترین