• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اللہ تعالیٰ درجات بلند فرمائے ہمارے والد محترم اپنی تقریروں میں ایک واقعہ سنایا کرتے تھے۔ جو آج مجھے بے طرح یاد آرہا ہے کہ ایک شہر میں ’ نک کٹوں‘ کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہورہا تھا۔ پہلے تو وہ لوگ اپنے آپ کو چھپاتے پھرتے تھے۔ زیادہ بازار میں نہیں آتے تھے۔ اکثریت مذاق اُڑاتی تھی۔ ایک روز وہ اکٹھے ہوئے تو کچھ سیانے نک کٹوں نے کہا کہ ہم اب اکثریت میں ہیں۔ کب تک ان مٹھی بھر ناک والوں سے ڈریں۔ اب ہم باہر نکلیں گے۔ اور ان پوری ناک والوں کے خلاف نعرے لگائیں گے۔ دیکھیں گے ۔ پھر یہ چند ناک والے کیا کرتے ہیں۔

ایک روز ’نک کٹوں‘ کا جلوس شہر میں دندنانے لگا۔ بے چارے ناک والے اپنی اپنی پناہ گاہوں میں چھپنے پر مجبور ہوگئے۔‘‘

یہ تو بیسویں صدی کی 50کی دہائی کا ذکر ہے۔ اب تو اکیسویں صدی کی دوسری دہائی ہے۔ اب تک تو نک کٹوئوں کی تعداد میں اور زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔ اب تو وہ قرار داد لانے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔

………

روئے سخن کسی کی طرف ہو تو رو سیاہ

………

ایک صاحب بڑے مشتعل اور حیران و گریاں ہمارے دفتر آئے کہنے لگے کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ ہم پر کن لوگوں کو مسلط کردیا گیا ہے۔ چند روز میں ہی اتنی مہنگائی۔ ہر چیز کا بوجھ غریبوں پر ڈالا جارہا ہے ۔ ایسے کب تک چلے گا۔

………

میں خود بھی سخت تذبذب میں مبتلا ہوگیا کہ یہ تاثر تو کچھ کچھ درست ہے۔ عام آدمی کو تو کوئی راحت نصیب نہیں ہورہی ۔ صوبے میں حکومت کسی کی بھی ہو۔ لیکن ذمہ داری تو مرکزی حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے۔ عام آدمی ان آئینی باریکیوں میں نہیں جاتا۔وزیر اعظم ہائوس میں عمران خان بیٹھے ہیں تو واہگہ سے گوادر تک کچھ بھی ہوگا۔ اس کا ذمہ دار عمران خان ہی ہوگا۔ سندھ میں حکومت زرداریوں کی ہے۔ اور اب زیادہ محکمے 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کے پاس ہی ہیں۔ ٹرانسپورٹ۔ صحت۔ تعلیم۔ پولیس۔ یہ سندھ حکومت کا فرض ہے کہ ان محکموں کے ذریعے عام آدمی کو آسانیاں فراہم کرے۔ لیکن ان محکموں سے بھی جب کسی کو مشکل پیش آتی ہے تو وہ عمران خان کو ہی ملامت کرتا ہے۔ کیونکہ اس سے پہلے بھی یہی ہوتا آیا ہے۔ میاں نواز شریف تخت نشین تھے تو کہیں کوئی تکلیف ہوتی تھی ہم میاں صاحب کو ہی برا کہتے تھے۔ اس سے پہلے آصف زرداری۔ اس سے پہلے جنرل مشرف ۔ اس روایت کے تحت اب طعن و تشنیع کا ہدف کپتان ہی ہوں گے۔

آج کل تجزیہ کار بھی توقعات اور اُمیدیں بڑھا دیتے ہیں۔ برقی میڈیا تو ہر منٹ میں کوئی وکٹ گرتی دیکھنا چاہتا ہے۔ یا چوکا چھکا مانگتا ہے۔ ملکوں کی معیشت نہ تو کرکٹ ہے نہ ہاکی۔ یہ معیشت ہر دو پل بعد کوئی معجزہ نہیں دکھا سکتی۔ پھر گزشتہ 40سال سے بتدریج بگڑتے اقتصادی معاملات ایک دم درست نہیں ہوسکتے۔ با اثر اور با اختیار قوانین میں رد و بدل کرکے اربوں روپے کماسکتے ہیں۔ گزشتہ چار دہائیوں سے یہی ہورہا ہے۔آپ میں دیکھتے آرہے ہیں کہ کس طرح ہمارے رہنما کچی بستیوں سے پوش علاقوں میں منتقل ہوئے۔ کوئی ناظم آباد سے کلفٹن۔کوئی پی ای سی ایچ ایس سے ڈیفنس۔ کوئی بھاٹی سے گلبرگ۔ کوئی مزنگ سے ڈیفنس لاہورجا پہنچا۔ ایک بنگلے نے تین چار اور بنگلوں کو جنم دیا۔ ایک پجیرو کے بطن سے کتنی لینڈ کروزرز۔ ڈبل کیبن پیدا ہوتی رہیں۔

ترقیاتی معیشت سے وابستہ ایک تجربہ کار ٹیکنو کریٹ کہہ رہے تھے کہ جو کچھ ہورہا ہے یہ ان پالیسیوں کا منطقی نتیجہ ہے جو باریاں لینے والی پارٹیوں نے دس سال میں اختیار کی ہیں۔ مہنگائی میں موجودہ اضافہ گزشتہ حکومتوں کے اقتصادی اقدامات کا معروضی اور نا گزیر حاصل ہے۔ یہ آپ کو کم از کم نو دس مہینے برداشت کرنا ہوگا۔ عمران خان کی نیت اچھی ہے۔ وہ خود کرپٹ نہیں ہے اور اس قبیلے سے تعلق نہیں رکھتا جو عوام کی گاڑھے پسینے کی کمائی سے اپنے خزانے بھرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ جاگیردار انگریز کے دَور سے اب تک عنایات۔ تحائف اور سرکاری کرم نوازیوں پر انحصار کرتے آئے ہیں۔ سرمایہ دار حکومتی ایس آر اوز سے فائدے اٹھاتے آئے ہیں۔

معیشت غیر قانونی صنعتی پرمٹوں پر بھروسہ کرتی رہی۔ سرکاری زمینیں الاٹ ہوتی رہیں۔ صنعتی پلاٹ سستے داموں ملتے رہے۔ وہ سب کچھ ختم ہوگیا تو زمینوں پر قبضے شروع ہوگئے۔ ٹیکس چوری ہوتی رہی ایک متوازی غیر قانونی اکانومی۔ باقاعدہ قانونی اکانومی سے حجم میں کہیں زیادہ ہے۔

اس با خبر ٹیکنو کریٹ نے کہا کہ 80کی دہائی میں ہمارا ملک 15%کمیشن کا علاقہ کہلاتا تھا۔کوئی ملٹی نیشنل کمپنی یہاں آتی تھی۔ اسے پتہ تھا کہ متعلقہ وزراء اور حکام کو 15% کک بیک تو دینا ہی ہے۔اس لئے وہ اس کا انتظام کرتے تھے۔ 90کی دہائی میں یہ 25% تک چلا گیا۔ اب اکیسویں صدی میں سب جانتے ہیں کہ یہ 50فیصد سے 60فیصد ہوگیا ہے۔ایک اور بڑی تبدیلی آئی ہے کہ پہلے حکمران سامنے نہیں آتے تھے۔ ان کے کارندے کک بیک طے کرتے تھے۔ اب یہ حجاب بھی ختم۔ اب پرنسپل خود اپنے منہ سے اپنا حصّہ مانگتے ہیں۔

پاکستان میں ایک طبقہ ایسا بھی رہا ہے جو عام معافی کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ اس کی منطق یہ رہی ہے کہ اگر سختی ہوگی ۔ پابندیاں زیادہ ہوں گی تو سرمایہ باہر سے تو کیا اندر سے بھی نہیں آئے گا۔ سرمایہ کار دوسرے ملکوں میں چلے جائیں گے۔ ایک بار سب کو عام معافی دے دی جائے۔ تاکہ کالا دھن سفید ہوجائے۔ پیسہ مارکیٹ میں آجائے۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ قوانین سخت کریں آئندہ کی کرپشن روکیں۔ کیونکہ اگر ماضی کی لوٹ مار کے حساب کتاب میں لگ گئے تو ملک میں بے یقینی پھیلے گی۔پیسے والے خوف زدہ ہوجائیں گے۔

کون سچا ہے کون منافقت کررہا ہے۔ مجھے 1972 یاد آرہا ہے۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو مخلصانہ عزائم کے ساتھ اپنے وعدوں کی تکمیل کے لئے سرگرم ہورہے تھے۔ اس وقت بھی ایسی ہی بے یقینی اور تذبذب کا عالم تھا۔ فرق یہ تھا کہ 7بجے شام سے بارہ بجے تک اتنے دانشور اور بقراط ہمیں با خبر نہیں کرتے تھے اور نہ ہی اسمارٹ فون تھا۔ جس پر سینکڑوں ماہرین معیشت ہر پل اپنے فیصلے صادر کررہے ہوتے ہیں۔عمران خان کرکٹ اسٹیڈیم سے باہر نکل کر ایک مملکت کی کپتانی پہلی بار کررہے ہیں ۔ ان کے ساتھی ابھی ٹیم ورک کا رخ کررہے ہیں۔ ایک سبقت ہے کہ فوج اور عدلیہ بھی اسی موڈ میں ہے جس میں حکمران پارٹی ہے۔ وہ طبقے اکٹھے ہورہے ہیں جو اس ملک پر حکمرانی اپنا حق سمجھتے ہیں۔ عمران خان اس طبقے میں ابھی اجنبی ہیں۔ دیکھیں وہ اپنی شناخت برقرار رکھتے ہیں۔ یا ان جغادری حکمرانوں کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔

تازہ ترین