• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈونکی کنگ، اتوار کو اپنی نوعیت کی منفرد مزاحیہ فلم، اپنے نقد پیسوں سے دیکھی۔ متاثر کن، وطن عزیز کی کہانی ہی سمجھیں۔ اختتام حوصلہ افزا کہ فلم میں سرکس کا رنگ ماسٹر اور میڈم فتنہ، اپنے عزائم میں ناکام۔ ’’ڈونکی کنگ‘‘ کو بالآخر سمجھ آگئی۔ شیر اور دیگر جانوروں کو سرکس کا حصہ بننے سے بچانے کے لیے جان پر کھیل گیا۔

گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ کے نئے چیف جسٹس نے اپنے عہدے کا حلف لیا۔ ’’آئین کی پاسداری، عمل پیرا رہنے کی قسم کھائی‘‘ جبکہ گزشتہ روز ہی پاکستان کی نمائندہ وکلاء تنظیمیں، بااختیار بار کونسلوں کا اجلاس ہوا۔ عدالتی نظام نسق میں مداخلت، ججوں کو دباؤ میں لانے، ججوں کو دباؤ پر معزول کرنے اور آئین سے تجاوز جیسے واقعات پر غم و غصہ کا اظہار کیا گیا۔

نیرنگی زمانہ، 70سالہ وطنی تاریخ میں ہر طرح کا تماشہ ہوا، دیکھا۔ پچھلے چند سالوں سے جاری سیاسی ناٹک اپنی مثال آپ۔ زرداری صاحب کے پاؤں انگاروں پر، یہی سجائی دیا، جاتی امرا پر دستک دینا ہوگی۔ فضل الرحمان ہمیشہ کی طرح وسیلہ ظفر، نوابزدہ نصر اللہ خان کی کمی پوری کر رہے ہیں۔؎

تیری نیرنگیوں سے ہیں امیدیں

کہ کچھ کچھ ہونے والا ہے جہاں میں

پچھلے تین سال زرداری صاحب، نواز شریف کو چاروں شانے چت کرنے اور عمران خان اور ہمنواؤں کا راستہ اقتدار پر لطف اور آسان بنانے میں ممد و معاون۔ زرداری صاحب بخوبی جانتے ہوں گے، عمران خان جیسے ہی پیپلز پارٹی کی بیساکھی بغیر وزیر اعظم بننے کی پوزیشن میں آگئے، پیپلز پارٹی کی ضرورت ختم۔ اِدھر زرداری صاحب کی ضرورت ختم، اُدھر ان کے سارے پرانے کردہ نا کردہ گناہ یاد آگئے۔2014ء عمران قادری اور چوہدری ’’لندن پلان‘‘ ملاپ، مکمل فلاپ۔ اہم بات اتنی عزم بالجزم میں خم نہ آیا۔ نواز شریف کو فارغ کرنے کا آپریشن جاری رہنا تھا۔ 2016ء میں زرداری، ایم کیو ایم کو سُدھارا، عمران خان کے ساتھ سِدھارا کہ زرداری کی مدد کے بغیر بیل مونڈھ چڑھنی نہ تھی۔ زرداری صاحب نئے نویلے انداز میں خم ٹھونک کر فلاپ شو میں جان ڈالنے کے لیے عمران کے ساتھ یک جان ہوئے تو ’’تحریک گٹ نواز‘‘ میں جان پڑ گئی۔

پھر2018ء ہی، ایک مرحلہ ایسا بھی جب تحریک انصاف عملاً سینیٹ کا چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین پیپلزپارٹی کو سونپ چکی۔ یہی وجہ کہ سینیٹ الیکشن کے نتائج آتے ہی ایک ہی نعرہ حاوی، ’’ایک زرداری، سب پہ بھاری‘‘، درو دیوار گونج اُٹھے۔ کیا زمانہ تھا کہ پیپلز پارٹی، قادری اور چوہدری برادران کے ساتھ اشتراک وتعاون کے فضائل، عذر گناہ بدتر از گناہ، تحریک انصاف والے بتاتے تھکتے نہ ہارتے۔ آج کل نالائقی،نا اہلی، بد انتظامی،کرپشن، مہنگائی، غیرملکی قرضہ جات کی افادیت زیر بحث ہے۔ بہرحال عام انتخابات کے بعد، زرداری صاحب بے روزگار، زیر افتاد رہنا ہے۔ زرداری صاحب کو Under Estimate کبھی نہیں کرنا۔ نواز شریف کی طرف پیش قدمی تیز ہونا لازمی امر ہے۔ بیانیہ نویس، چند ہفتوں میں نواز شریف، زرداری، فضل الرحمان، ANP اور کچھ دوسری پارٹیوں کو ایک صفحے پر دیکھ رہے ہیں۔ نیا بیانیہ نئے اتحاد کے ساتھ سامنے آنے کو، الّا یہ کہ زرداری رعایت لینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ نواز شریف اور زرداری مل کر عمران خان حکومت کو کبھی بھی ہٹانا پسند نہیں فرمائیں گے۔ شرارتی بلی کی طرح ، چوہاادھ موا کر کے چند سال کھیلیں گے۔ زرداری نواز شریف متفق رہیں گے کہ محنت اور تلاش بسیار کے بعد ’’آزاد نگری‘‘ کا راجہ تلاش کر ہی لیا ہے تو خاطر خواہ فائدہ اُٹھایا جائے باوجودیکہ تحریک انصاف کے مرکز، پنجاب، KP میں ناراض اراکین اسمبلی کی بہتات ہے۔ پنجاب اسمبلی کی حد تک حقیقت کہ 20کے لگ بھگ اراکین انتظار میں کہ ن لیگ رابطہ کرے۔ نواز شریف اور زرداری کو معلوم ہے کہ نئے پاکستان کے مقتدر کو منطقی انجام تک پہنچانے اور مربیوں کو سمجھانے کے لیے ضروری کہ ’’نیا پاکستان‘‘ بنانے کا خواب پورا ہوا۔ کیا سہانے دن آنے کو، پاکستان قرضہ لے گا نہیں ،دے گا۔ ہزاروں ڈیم بنیں گے۔ مراد سعید نے اگلے دن 200ارب ڈالر واپس لانے تھے، کچھ دیر ہوگئی ہے۔ 7ارب روپے کی روزانہ کرپشن ختم، تین ٹریلین روپے اضافی جمع، اوپر سے غیر ملکی پاکستانیوں کی طرف سے ڈالروں کی بارش، سالانہ محصولاتِ زر 50بلین ڈالرتک، دیانتدار حکمران کی عقیدت میں اس سال کم از کم 10ٹریلین روپے ٹیکس کی مد میں جمع ہونے کو ہیں۔ 50لاکھ پکے مکانات، ایک کروڑ نوکریاں تقریباً تیار، 100ارب ڈالرکی سالانہ منی لانڈرنگ بھی ختم اور سب سے اہم 300 ارب ڈالر سوئٹزرلینڈ کے بینکوں سے بینک دولتِ پاکستان میں واپس جمع کہ عمران خان کا نام ہی کافی ہے۔

زرداری، عمران، قادری کو اکٹھا جوڑا گیا تھا تو رہنما اصول ’’بے اصولی‘‘ تھا۔ آج جب نواز شریف، زداری، فضل الرحمان گٹھ جوڑ ہونے کو تو بے اصولی ہی طرہ امتیازرہنی ہے۔ امید ایک ہی کہ بے اصولی پر بننے والا یہ اتحاد شاید جمہوریت پر شب خون مارنے اورکٹھ پتلی حکومتوں کے قیام میں رکاوٹ بن پائے۔ عمران خان کوسہولت، پاکستان جن مشکلات سے دوچار،انکو ادراک ہی نہیں۔اسی لیے تو آج تازہ بہ تازہ سعودی اکنامک کانفرنس میں 5 ملین گھر جو رعایتی بننے تھے، سرمایہ کاری مانگ لی۔ پہلی نشری تقریر میںچھوٹتے ہی داغا’’ بھارت ایک قدم آگے بڑھائے، ہم دو قدم بڑھائیں گے‘‘۔ آج ریاض اکنامک کانفرنس میں اپنے اسی مؤقف کو دہرایا۔ محترم وزیر اعظم! آپ نئے آئے ہیں۔ جان رکھیں پاکستان کے بھارت سے تعلقات آزادی کشمیر کے عوض گروی ہیں جبکہ آپ کی تقریر ذکر ِکشمیر سے پاک صاف ہے ۔کشمیر موضوع ایسا کہ برسبیل تذکرہ یا اجمالاً مختصراً ذکر گناہِ کبیرہ ۔ موضوع وزیر اعظم کی کشمیر میں جاری کشت و خون سے لا تعلقی تک محدود۔تین دن قبل، 10بے گناہ شہری بذریعہ دھماکہ شہید ہوئے ۔تفصیل طلب داستان، طویل نوحہ بھی ہیچ۔حکومت پاکستان کی درخور اعتنائی دیدنی۔ وزیر اعظم کی کشمیر بے توجہی، قوم کے لیے حیران کن بلکہ پریشان کن ہے۔ بھارتی مؤقف ہمیشہ سے یہی کہ بحالی اعتماد کے لیے باہمی تجارت اور دہشت گردی کا خاتمہ ضروری ہے۔ محترم وزیر اعظم یہی دو قدم تو آپ نے اُٹھا رکھے ہیں۔ ہفتہ کو ضلع کلگام کے دلخراش قتل عام کے دو دن بعد سوموار کو بیان تب سامنے آیا جب اتوار کی رات قومی میڈیا چیخ اٹھا۔19اکتوبر جمعہ کو امرتسر ریلوے ٹریک کا اندوہناک حادثہ پیش آتا ہے، وزیر اعظم پلک جھپکتے انسانی جانوں کے نقصان پر گہرے دکھ درد کا اظہار کرتے ہیں، اپنی جگہ درست۔ اتوار کی رات کو قومی میڈیا ہکابکا کہ وزیر اعظم کشمیر میں جاری بہیمانہ قتل عام سے غافل کیوں؟ طلعت حسین نے ضلع کلگام کے قتل عام پر تفصیلاً آڑے ہاتھوں لیا تو دو دن بعد وزیر اعظم ہڑبڑا اُٹھے۔ چند ہفتے پہلے نوجوان منان وانی کی شہادت بھی آج تک وزیر اعظم کی آنکھ سے اوجھل کہ کشمیری شہادتیں پاکستانی قیادت پر اثر ڈالنے سے قاصر۔

سعودی صحافی جمال خاشقجی کی موت گلوبل پالیٹکس کا نقشہ بدل گئی۔ صحافی کا معاملہ دنیا کی سب سے مضبوط باکردار قوم کے مضبوط باکردار قائد طیب اردوان کے ہاتھ میں ہے۔ ترک صدر نے مؤقف د ے دیا،15قاتلوں کو ترکی کے حوالے کرو۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین