• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’نیا پاکستان‘ ہاؤسنگ اسکیم بعد میں، پہلے وزیر اعظم کے ریاض سرمایہ کاری کانفرنس خطاب پر تنقید کرنے والے ذرا یہ سن لیں، نواز شریف کا دورِ حکومت، اسلام آباد میں سرمایہ کاری کانفرنس، درجنوں ممالک کے اعلیٰ عہدیدار، تاجر، نامور کمپنیوں، کاروباری اداروں کے سربراہ شریک، جب وزیراعظم اپنی تقریر سے پاکستان کو سرمایہ کاری کیلئے جنت ثابت کر چکے، جب وزیرداخلہ سرمایہ کاروں کیلئے پاکستان کو امن کا گہوارہ بنا چکے، جب وزیر تجارت غیرملکی سرمایہ کاروں کو ایک پُرکشش پیکیج دے چکے اور جب سوال و جواب کا سیشن شروع ہوا تو ایک جاپانی کمپنی کا سربراہ کھڑا ہوا ’’میں چند سوال پوچھنا چاہتا ہوں‘‘ کہا گیا پوچھئے، جاپانی بولا ’’کتنے پاکستانی بیرون ملک اور کتنوں کا کاروبار پاکستان میں‘‘ جواب دیا گیا لاکھ کے قریب پاکستانی باہر اور ان کا پاکستان میں نہ ہونے کے برابر کاروبار، جاپانی نے دوسرا سوال کیا ’’پاکستانی بزنس مینوں کی کتنی سرمایہ کاری پاکستان میں، کتنی باہر‘‘ بتایا گیا، آدھی سے زیادہ باہر، جاپانی نے تیسرا سوال کیا ’’کیا پاکستان کے سیاستدانوں، بیوروکریٹوں اور کاروباریوں نے باہر جائیدادیں بنا رکھیں‘‘ جواب دیا گیا ’’جی بالکل‘‘ جاپانی نے آخری سوال کیا ’’کیا اس ملک کے سیاستدانوں کے بیرون ملک کاروبار ہیں‘‘ بتایا گیا ’’ہاں ہیں‘‘ یہ سن کر جاپانی بولا ’’جب آپ اپنے ملک میں جائیدادیں نہیں رکھتے، جب آپ کی سرمایہ کاری باہر اور جب آپ کو اپنے ملک پر بھروسہ نہیں تو پھر غیر ملکی اپنا پیسہ یہاں کیوں لگائیں گے، جس دن آپ کا اپنا سب کچھ پاکستان میں ہوگا، غیرملکی سرمایہ کار خودبخود یہاں آجائیں گے‘‘ یہ کہہ کر جاپانی بیٹھا اور اس کے بیٹھنے سے پہلے سرمایہ کاری کانفرنس بھی بیٹھ گئی۔

لہٰذا اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی ضرورت، وزیراعظم نے کیا جھوٹا بولا، دنیا گلوبل ولیج، ہمارے کرتوتوں کا کس کو علم نہیں اور پچھلوں نے اچھی اچھی باتیں کر کے کونسا تیر مارلیا، اب بات کرتے ہیں ’نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم‘ کی، 50لاکھ گھر 5سالوں میں، مطلب ایک سال میں 10لاکھ گھر، ایک مہینے میں 83333، ایک دن میں2700 اور ایک گھنٹے میں 115گھر، ابھی تک زمین کا اتاپتا نہ سرمایہ کاری کی خبر، نقشہ نہ کوئی ماڈل، سعودی ریلیف کے بعد بھی چین، آئی ایم ایف سے قرضے لینے پر مجبور پاکستان جسے قرضوں کا سود اتارنے کیلئے قرضہ لینا پڑ رہا، اسے اس منصوبے کیلئے ایک سو 80بلین ڈالر چاہئیں، سنا جا رہا بینکوں کا کنسورشیم بنے گا، زیادہ پیسہ بینک دیں گے، فرض کر لیں، بینک فنڈنگ کریں گے، مگر کتنی، اس منصوبے کیلئے چاہئے 48کھرب سالانہ جبکہ اپنے تمام بینک سب منصوبے چھوڑ چھاڑ کر صرف نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم میں پیسہ لگا دیں تو یہ پیسہ بنے 13کھرب سالانہ، اب گھر بنانے کیلئے سریا، سیمنٹ، اینٹیں بھی چاہئے، باقی چھوڑیں، سیمنٹ کو لے لیں، سالانہ 10لاکھ گھروں کیلئے سیمنٹ چاہئے 2کروڑ ٹن، جبکہ ہماری سیمنٹ انڈسٹری بمشکل 82لاکھ سے ایک کروڑ ٹن دینے کے قابل اور پھر یہ الگ کہانی کہ اگر گھر تعمیر ہو ایک روپے کا تو انفرااسڑکچر پر لگیں 4روپے، پانی، بجلی، گیس، اسپتال، کھیل کے میدان، پارک، اسکول، سڑکیں، سیوریج سسٹم اور نجانے کیا کیا، یہ پیسہ کہاں سے آئے گا۔

یہ بھی ذہنوں میں رہے کہ 50لاکھ گھر وہاں بنائے جارہے، جہاں زیادہ تر ہاؤسنگ منصوبے عدالتوں میں پڑے ہوئے، جہاں اکثر ہاؤسنگ اسکیمیں نیب کی فائلیں بن چکیں، جہاں زیادہ تر سرکاری ہاؤسنگ پروجیکٹ متنازعہ ٹھہرے، جہاں 10شہروں، سو2 سو عمارتوں اور سٹرکوں کے نام تو نئے رکھ دیئے گئے مگر 70سالوں میں اسلام آباد کے علاوہ کوئی نیا شہر نہ بن سکا، جہاں 7دہائیوں بعد ایک کروڑ 10لاکھ گھر، جن میں 55فیصد گھر بین الاقوامی ہاؤسنگ معیار کی زبان میں کچی آبادیاں، جہاں عوام کو بھٹو کا نہ روٹی، کپڑا نہ مکان ملا، جہاں جونیجو صاحب کی ’اپنی بستی‘ اسکیم فلاپ ہوگئی، جہاں 1996میں بی بی کا ہاؤسنگ منصوبہ کامیاب نہ ہو ا، جہاں 1997میں نواز شریف کا ’میرا گھر‘ منصوبہ 20ہزار ایکٹر زمین لینے تک ہی محدود رہا، جہاں2014 میں نوا ز شریف کا ’اپنا گھر‘ بھی نہ چل سکا، جہاں آشیانہ ہاؤسنگ منصوبہ آپ کے سامنے، اب پتا چل رہا کہ آشیانہ منصوبے میں جو 1741گھر بنے ان میں حکومت ایک گھر بھی نہ بنا سکی، آشیانہ ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی کہ حکومت نے ایک گھر کی قیمت رکھی 11لاکھ، 80ہزار مالک مکان نے دینے تھے، باقی بینک آف پنجاب نے، اب بینک نے اپنا سود ڈالا، گھر کی قیمت ہوئی 36لاکھ، 25سال میں ادائیگی طے پائی، جب سب طے ہو گیا تو بات تب بگڑی جب ریڑھی، ٹھیلے والے، نائی،موچی، دھوبی بینک پہنچے، انہیں دیکھ اور ان کی مالی حیثیت جانچ کر پنجاب بینک نے یہ کہہ کر آشیانہ منصوبے میں سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ لیا کہ یہ لوگ تو دو ہزار مہینہ نہیں دے سکتے،8 دس ہزار مہینہ کہاں سے دیں گے اور وہ بھی 25سال مسلسل، یوں ’سرمنڈواتے ہی اولے پڑگے‘، بحریہ کا ذکر آیا تو سن لیں ہاؤسنگ شعبے میں کامیاب ترین پرائیویٹ گروپ 22سالوں میں سوا دو لاکھ گھر اور ساڑھے چھ لاکھ developedپلاٹ دے پایا، یہاں یہ بھی سنتے جائیے دنیا کا ایک کامیاب سرکاری ہاؤسنگ منصوبہ ترکی کا، لیکن وہاں بھی 12سالوں میں 60ہزار گھر بنے، مطلب سالانہ 5ہزار گھر، ایک منصوبہ دبئی کا بھی، تمام تر پیسے، وسائل اور جدید مشینری کے باوجود 22سالوں میں شارجہ کی سرحد سے جبل علی تک تقریباً 100کلو میٹر کے علاقے میں ساڑھے 13لاکھ ہاؤسنگ یونٹس ہی بن پائے، جس میں ساڑھے 4لاکھ ابھی تک خالی پڑے ہوئے۔ پھر اس ڈریم پروجیکٹ کو شروع کرنے سے پہلے بہت کام کرنے کے، جیسے فنڈنگ پلان، تجربہ کار،اہل ٹیم کا انتخاب، پیچیدہ قوانین سے جان چھڑانا، قرضوں کی فراہمی وہ بھی ایسے کہ عام آدمی ایک مصیبت سے نکل کر دوسری میں نہ پھنس جائے، انفرااسٹرکچر منصوبہ بندی، تعمیراتی ہنر مند، سامان کی فراہمی اور مقررہ وقت میں اہداف کے حصول کی پلاننگ، یہ کام پہلی اینٹ لگانے سے پہلے کرنیوالے، یاد رہے جس ملک میں بجلی پہلے ہی کم، گیس لوڈشیڈنگ ہو رہی، پانی کی صورتحال یہ کہ زیرزمین پانی ساڑھے 6ہزار مکعب میٹر سے ایک ہزار مکعب میٹر تک پہنچ چکا اور باتیں ہو رہی ہوں ’آبی مارشل لاء‘ لگانے کی اور جہاں قدم قدم پر رشوت، کرپشن، چور بازاری اور کاہلی وہاں اتنا بڑا منصوبہ پایۂ تکمیل تک پہنچانا، آسمان سے تارے توڑ لانے کے مترادف۔

لہٰذا یہ تو ناممکن کہ 5سالوں میں 50لاکھ گھر بن سکیں، 25لاکھ، 10لاکھ گھر بھی بہت مشکل، موجودہ حالات میں اگر 5سالوں میں 5لاکھ گھر بھی بن جائیں تو بھی اس کا مطلب یہ کہ بھٹو صاحب سے نواز شریف تک جوکوئی نہ کر سکا، وہ عمران خان نے کر دیا، لیکن سوال یہ کہ گنتی کے چند ووٹوں کے سہارے کھڑی حکومت جس نے قانون سے بالاتروں کے احتساب کا علم بلند کر رکھا، جسے کوئی ایک ادارہ پاؤں پر کھڑا نہیں ملا، جو مانگے تانگے کے پیسوں پر گزارہ کررہی، جس کی اپنی ناتجربہ کاریاں بھی اور جمہوریت کی آڑ میں آل، مال بچاؤ گروپ کی سازشیں اور واویلے بھی، کیا وہ حکومت اتنے سیاپوں میں اتنے بڑے منصوبے پرمکمل فوکس رکھ پائے گی یا اسے اتنا وقت مل جائے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین