• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کہا جا رہا ہے کہ فروری 2013ء میں الیکشن ہوں گے ۔ یہ باتیں حکومتی حلقوں میں پھیلائی جا رہی ہیں۔ ادھر الیکشن کمیشن کی کارروائی جس کی سربراہی جناب ریٹائرڈ جسٹس فخرالدین جی ابراہیم کر رہے ہیں پورے زور شور سے جاری ہے ۔ البتہ سندھ میں نئی اور پرانی حلقہ بندیوں پر اختلافات کھل کر سامنے آچکے ہیں ۔ خود حکمران جماعت پی پی پی والے بھی اس نئی حلقہ بندیوں پر شاکی نظر آتے ہیں۔ مگر بظاہر خاموش ہیں کسی وقت بھی یہ لاوا پھٹ سکتا ہے ۔ سپریم کورٹ نے بھی حالیہ فیصلے میں الیکشن کمیشن کو ووٹروں کی لسٹ کی دوبارہ جانچ پڑتال کا حکم جاری کر دیا ہے ۔ سندھ میں تو عام طور پر ووٹروں کا اندراج غلط ہوتا رہا ہے ، ایک ایک گوٹھ کے نام پر ہزاروں ووٹروں کا جعلی اندراج ماضی میں نظر آتا رہا۔ مگر اب کراچی کے ایک 200گز کے مکان میں 600سے زائد ووٹروں کا اندراج حیران کن تھا جو سب کے سامنے لایا گیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ الیکشن کمیشن اتنے کم وقت میں صحیح ووٹروں کا کیسے اندراج کرائے گا۔ اس وقت کراچی میں گروپ بندی اپنے عروج پر ہے ۔ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اگر الیکشن فوج کی نگرانی میں ہوئے تو پھرصاف شفاف الیکشن ہو سکتے ہیں، پولیس اور رینجرز تو اب بہت سے علاقوں میں داخل بھی نہیں ہوسکتی۔ اس کی وجہ بھی دہشت گردی کی آڑ میں اسلحہ کی بھرمار ہے اور سابق وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا کے دور میں لاکھوں کلاشنکوف کے قانونی لائسنس بھی جاری کئے گئے تھے ۔
بات آنے والے الیکشن کی ہو رہی تھی مگر گزشتہ ہفتے پنجاب میں ضمنی انتخابات ہوئے تو حکومتی اتحاد میں زبردست دراڑ پڑ گئی اور غیر متوقع طور پر پی پی پی اور (ق) لیگ کے مشترکہ مضبوط ترین امیدوار بری طرح ہار گئے ۔ 8حلقوں میں سے6حلقوں میں مسلم لیگ (ن) کی غیر متوقع کامیابیاں حکومتی حلقوں کو ہلا کر رکھ گئیں ۔ صرف ایک حلقے سے (ق) لیگ کاامیدوار کامیاب ہوا اور ایک حلقے سے آزاد امیدوار کامیاب ہوا۔ یہ سب کچھ ایک دن میں ہوا ، ہر طرف شور مچ گیا ۔ ہارنے والوں نے الیکشن میں دھاندلیوں کا الزام لگا کر الیکشن نتائج کو مشکوک بنانے کی پوری کوشش کی مگر دھاندلیوں کا ریکارڈ اور ثبوت فراہم کرنے میں بری طرح ناکام رہے۔ محض الزامات برائے الزامات تو ہماری روایتوں کا حصہ ہیں ۔ ہمارے سیاستدان اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو دیکھنے کے بجائے سامنے والے پر دھاندلی ، دھونس،رعب و دبدبہ کا الزام لگا کر اپنا دامن بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ خود مرکز میں وزیر اعظم اور نائب وزیر اعظم پی پی پی اور (ق) لیگ سے تعلق رکھتے ہیں اور مرکزی پوری انتظامیہ وہ خود چلا رہے ہیں پھر دھاندلیوں کا الزام سامنے والی پارٹی پر کیسے لگا سکتے ہیں ۔ خصوصاً ووٹوں کی تعداد بھی دگنی ہو تو پھر کیسے الزامات کو ثابت کریں گے جبکہ اب الیکشن کمیشن بھی غیر جانبدار ہے،کوئی ٹھوس ثبوت بھی الیکشن کمیشن کو نہیں پیش کیا گیا سوائے الزامات کے، وہ بھی میڈیا پر آکر گھنٹوں اس پر ضائع کئے گئے۔ اگر ٹھوس ثبوت ہوتے تو یقینا الیکشن کمیشن اس کا نوٹس لیتا اور الیکشن رکوایا بھی جا سکتا تھا مگر حقیقتاًایسا نہیں ہوا۔ دراصل یہ 5سالہ حکومتی بدنظمی، کرپشن ، دہشت گردی ، گیس اور بجلی کے بحرانوں سے عوام کا رد عمل تھا جو اس نے خاموش 5سالہ مسلم لیگ (ن) کی مثبت سیاست کا بدلہ اتارا اور مسلم لیگ (ن) کے حق میں فیصلہ کر دیا۔ عوام نے عمران خان کو مسترد کر دیا جو خود عمران خان کی پارٹی نے اپنے آپ کو الیکشن کے امتحان سے دور رکھا ۔ سیاسی حلقے ان ضمنی انتخابات کو آنے والے الیکشن کی راہ ہموار کرنے سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ گویا اتنا مضبوط ترین اتحاد اب اپنی بے بسی کا رونا روئے گا نہ باہر سے سونامی آئے گی اور نہ ہی اندر والے اتحادی اس سے بچیں گے۔ البتہ نئے نئے اتحاد کچھ کر دکھائیں گے ۔ قوم کو ان 5سالوں میں حکومت اور اس کے اتحادیوں سے مایوسیوں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اب لاکھ وہ جعلی ووٹوں اور دھاندلیوں کے الزامات کی آڑ لے کر حقائق تسلیم نہ کریں تو یہ ان کی بھول ہو گی۔ 5سال عدلیہ سے محاذ آرائی نے بھی عوام کو مایوس کیا کیونکہ عدلیہ نے مقدور بھر عوام کے حق میں فیصلے تو دیئے مگر حکومت نے ٹال مٹول کر کے ان کے کئے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ اگر وہ خوش دلی سے پیٹرول اور گیس کی قیمتوں میں اعتدال رکھتے، گھنٹوں گاڑیوں کی لائنیں نہ لگواتے تو عوام پی پی پی کو ووٹ ڈالتے ۔ مگر یہاں تو معاملہ ہی الٹا تھا ، وزراء کی کارکردگی صفر اور کرپشن صد فیصد ہو ۔ اخبارات میں روزانہ اربوں روپے کی کرپشن وہ بھی ہر محکمے کی آ رہی ہو ، عوام غربت و افلاس میں گھرے ہوئے ہوں اور حکمران چین کی نیند سو رہے ہوں تو الیکشن کے نتائج ایسے ہی ہوں گے۔صرف سندھ میں نتائج مختلف ہو سکتے ہیں۔پیر پگارا کی مسلم لیگ بھی الگ ہو چکی ہے صرف ایم کیو ایم سے اتحاد باقی ہے ۔ اے این پی بھی مصلحتاً خاموش ہے مگر علیحدگی کے لئے پر تول رہی ہے۔سرحد اور بلوچستان میں بھی اتحادیوں میں بے چینی پائی جاتی ہے ۔ مولانا فضل الرحمن دو مرتبہ باہر جا کر واپس آچکے ہیں وہ مذہبی نئے اتحاد سے خائف ہیں۔ جماعت اسلامی جو ایم ایم اے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے وہ مولانا فضل الرحمن کی سیاسی مصلحتوں سے ناراض ہو کر ان کے اتحاد سے الگ ہو کر نئے اتحاد کی طرف بڑھ رہی ہے ۔
تازہ ترین