• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

کیا جہانگیر ترین نیا جنوبی صوبہ بناپائیں گے ؟

ملتان کی سیاست پر غلبہ کیلئے تحریک انصاف کے دو بڑوں مخدوم شاہ محمود قریشی اور جہانگیر خان ترین میں کشمکش جاری تھی۔ وہ کچھ عرصہ کیلئے معطل ہونے کے بعد اب پھر نئے سرے سے آغاز کرنے جا رہی ہے۔ اس کا اشارہ جہانگیر ترین کے اس بیان سے ملتا ہے جو انہوں نے لودھراں میں ایک تقریب کے دوران دیا جس میں کہا کہ کچھ عرصہ غیرفعال رہنے کے بعد اب وہ دوبارہ فعال ہوگئے ہیں اور سیاست میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔ اس کی پہلی انٹری انہوں نے اس طرح ڈال دی کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ سے ضمنی انتخاب میں جیتنے والے ایم پی اے بلال اصغر وڑائچ کو تحریک انصاف میں شامل کرادیا۔ اب ان کی دوسری نظر جلال پور پیروالا کے نومنتخب آزاد ایم پی اے قاسم خان لنگاہ پر ہے۔ ذرائع کے مطابق اس سے بھی معاملات طے پاچکے ہیں اور وہ کسی وقت بھی بنی گالہ پہنچ کر پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کرسکتے ہیں۔ دوسری طرف شاہ محمود قریشی زیادہ سے زیادہ اپنے حامیوں کو مختلف حکومتی عہدے دینے کیلئے سرگرم عمل ہیں۔ اپنے بیٹے اور بھانجے کو پارلیمانی سیکرٹریز بنوانے کے بعد ان کا رخ ملتان کے ارکان اسمبلی اور پارٹی عہدیداروں کو جو ان کے گروپ سے تعلق رکھتے ہیں مختلف مناصب پر فائز کرانا شروع کردیا ہے۔ ڈاکٹر اختر ملک کو صوبائی وزیر ایم اے جاوید اختر انصاری کو وزیراعلیٰ کا ایڈوائزر اور رانا عبدالجبار جنہوں نے ان کیلئے صوبائی اسمبلی کے امیدوار کے طور پر دستبردار ہوگئے تھے ایم ڈی اے کے بورڈ کا چیئرمین جبکہ تحریک انصاف ملتان کے صدر اعجاز جنجوعہ جنہوں نے ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت نظرانداز کرنے پر شدید احتجاج کیا تھا کو پنجاب ہارٹی کلچر اتھارٹی ملتان کا چیئرمین لگوادیا جبکہ اپنے گروپ کے بہت سے دیگر حامیوں کو یہ امید دلائی جا رہی ہے کہ انہیں بھی کہیں ایڈجسٹ کیا جائے گا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جہانگیر خان ترین کی توجہ مختلف عہدوں پر اپنے حامی تعینات کرانے پر نہیں ہے بلکہ وہ تحریک انصاف کی پنجاب اور مرکز میں حکومت کو مضبوط کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایک عام تاثر یہی ہے کہ آج بھی تحریک انصاف میں عمران خان کے بعد سب سے مضبوط شخصیت جہانگیر خان ترین کی ہے جنہیں پارٹی کے حلقوں میں ’’بادشاہ گر‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف کی ملتان اور جنوبی پنجاب میں کارکردگی کیا رخ اختیار کرتی ہے۔ یہاں کا سب سے بڑا ایشو علیحدہ صوبہ ہے جس کے بارے میں تحریک انصاف مسلسل لیت و لعل سے کام لے رہی ہے۔ پہلے علیحدہ صوبہ کیلئے دو رکنی کمیٹی بنائی گئی جس میں شاہ محمود قریشی اور خسروبختیار شامل تھے۔ اس کمیٹی کا طویل عرصہ تک اجلاس ہی نہ ہوا۔ جب چہ مگوئیاں ہونے لگیں اور سوالات اٹھے تو ایک اور ایگزیکٹو کمیٹی بنا دی گئی۔ یہ ایگزیکٹو کمیٹی کس طرح کام کرے گی اس کے اختیارات کیا ہیں اور یہ کیسے آغاز کرے گی ، اس بارے میں گہری خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ وقت ہے کہ تیزی سے گزرتا جا رہا ہے۔ نئے صوبے کو پہلے 100 دن میں حتمی شکل دینے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن فی الوقت اس ضمن میں ابتدائی نوعیت کا کام بھی نہیں ہوا۔ لگتا یہی ہے کہ مختلف کمیٹیوں اور دعوئوں کے ذریعے اس اہم مطالبے کو زیر التوا رکھنے کی حکمت عملی اختیار کی گئی ہے۔ ویسے بھی حکومت معاشی اور سیاسی معاملات میں بری طرح الجھی ہوئی ہے۔ اپوزیشن کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔ قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کو چلانا مشکل ہوچکا ہے۔ ایسے میں صوبائی یا قومی اسمبلی کے اندر نئے صوبے کا پنڈورا بکس کھولنا مزید بحران کو جنم دے سکتا ہے۔ ادھر وزیراعلیٰ پنجاب اپنے منصب پر براجمان ہونے کے بعد سے لے کر اب تک جنوبی پنجاب کا دورہ نہیں کرسکے۔ درمیان میں اعلان کیا گیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب تین دنوں کیلئے ملتان میں قیام کریں گے مگر یہ اعلان بھی نئے صوبے کے اعلان کی طرح ہوا میں معلق ہوچکا ہے۔ غالباً وہ بیوروکریسی جس نے سابق گورنر رفیق رجوانہ کے جنوبی پنجاب میں علیحدہ سیکرٹریٹ قائم کرنے کی تجویز کو اپنی ٹھوکر پر رکھ دیاتھا اب وزیراعلیٰ کے اس اعلان پر بھی کہ وہ تین دن اپنا دفتر ملتان میں چلائیں گے کو ناقابل عمل قرار دے دیا ہے۔ غالباً سول سیکرٹریٹ میں بیٹھے حکمران ہر ایسی تجویز کی مخالفت کرتے ہیں جس میں کوئی پاور شیئرنگ کا فارمولا ہو۔ تحریک انصاف جو اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کا وعدہ کرکے اقتدار میں آئی ہے ابھی تک اس حوالے سے کوئی ایک کامیابی بھی حاصل نہیں کرسکے۔ باخبر ذرائع تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ حکومت کا مجوزہ بلدیاتی نظام بھی خطرے سے دوچار ہوچکا ہے کیونکہ اس میں اختیارات کی جو تقسیم کی گئی ہے اور جس طرح بلدیاتی سربراہ کو ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او کے اوپر نگران مقرر کیا گیا ہے وہ شاید چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب کیلئے قابل قبول نہیں ہے کیونکہ اس طرح وہ صوبے پر اپنی گرفت مضبوط نہیں رکھ سکیں گے۔ اگر تحریک انصاف کی حکومت اپنے مجوزہ بلدیاتی نظام سے اس شق کو نکال دیتی ہے تو گویا وہ اپنے بلدیاتی نظام کے پورے فلسفے کو زمین بوس کردے گی کیونکہ یہی ایک واحد شق ہے جس کے ذریعے بلدیاتی نظام کوبااختیار بنایا جاسکتا ہے اور عوام کو ریلیف دینے کیلئے ضلع کی سطح پر ایک کھڑکی کھولی جاسکتی ہے۔ اگر بیوروکریسی کی مخالفت کی وجہ سے عمران خان اپنے اس ایجنڈے کو تبدیل کردیتے ہیںجیسا کہ انہوں نے اس کا بارہا اظہار بھی کیا ہے کہ بیوروکریسی حکومت سے تعاون نہیں کر رہی تو پھر یہ حکومت کیلئے ایک بڑا سیٹ بیک ہوگا۔ اب بھی ضلعوں اور ڈویژنوں میں تعینات کمشنر اور ڈپٹی کمشنر پہلے کی طرح بااختیار اور پورے نظام پر حاوی ہیں۔ جس طرح پچھلے دور حکومت میں ڈپٹی کمشنر اپنے ضلعوں میں ہر ترقیاتی سکیم کا افتتاح کرتے تھے اور ان کے نام کی تختیاں لگتی تھیں یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ ضلع کے سارے فنڈز ڈپٹی کمشنر استعمال کر رہے ہیں۔ صرف ایک مضبوط بلدیاتی نظام ہی بیوروکریسی کے اس تسلط کو ختم کرکے اختیارات عوام کے منتخب نمائندوں کو دے سکتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ نئے بلدیاتی نظام کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ اس وقت جو میئر اور ضلع کونسلوں کے چیئرمین کام کر رہے ہیں ان کی اپنے اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز سے ٹھنی ہوئی ہے کیونکہ ضلع کا ہر منافع بخش ادارہ ڈپٹی کمشنر اپنے ہاتھ رکھنا چاہتے ہیں اور شہروںکے میئر فنڈز کے حوالے سے شدید مشکلات کا شکار بیٹھے ہیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین