• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان کی کرپشن، ناانصافی اور ظلم کے خلاف 22سال کی طویل جدوجہد کے بعد پی ٹی آئی مقبولیت کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے بالاآخر اقتدار کے تخت تک پہنچ ہی گئی ہے، تبدیلی کا نعرہ لگانے کےبعد کٹھن سفر میں منزل تک رسائی عمران خان کے آہنی عزم کا ثبوت ہے، لیکن وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونے کے بعد سے ابھی تک ان کی حکمرانی کے لئے ٹھنڈی ہوائیں نہیں آسکی ہیں۔ خالی خزانے، قرضوں تلے دبی معیشت کا بوجھ اٹھائے پی ٹی آئی کی حکومت قوم اور ادارے بنانے کے اپنے ہدف کی طرف بڑھ تو رہی ہے، لیکن وزیراعظم عمران خان پل، سڑکیں بنانے سے زیادہ قوم بنانے پر یقین رکھتے ہیں لیکن پاکستانی عوام ابھی یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ملک بنانے کیلئے اچھی قوم کا ہونا ضروری ہے۔ چین کی طرح پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا عزم لیے عمران خان کے کئے جانے والے اقدامات پر اپوزیشن تنقید تو کر رہی ہے لیکن ساتھ میں اس کو یہ خطرہ بھی لاحق ہے کہ عمران خان کچھ کر دکھانے کی اپنی عادت کی وجہ سے اگر قوم بنانے اور ادارے درست کرنے ، عوام کو جگانے میں کامیاب ہو گئے تو اپنی تجوریوں کو بھرنے والوں کا کیا حشر ہو گا، اسی بغض میں تمام اپوزیشن جماعتیں اکٹھی ہوتے نظرآ رہی ہیں۔ ایک سیاسی مبصر کا کہنا ہے کہ بہت جلد تمام اپوزیشن جماعتیں ایک ہی پلیٹ فارم کھڑی نظرآئیں گی، اس کے لئے عمران خان اپنی حکمت عملی پر دوبارہ غور کرنا ہو گا، چونکہ حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج کچھ متاثر کن نہیں آئے ہیں جس میں پی ٹی آئی اپنی جیتی ہوئی سیٹیں ہار گئی ہے۔ اس سے یہ تو صاف ظاہر ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے انتخابات بالکل صاف اور شفاف کروائے ہیں،حکومتی مشینری کا استعمال نہیں کیا ہے لیکن یہاں پر یہ غور کرنا ضروری ہے کہ آخر پی ٹی آئی اپنا موقف عوام کوسامنے رکھنے میں کیوں کامیاب نہیں ہوئی ہے۔ مطلب پی ٹی آئی سابق حکمرانوں کے 35 سالہ دور میں پیدا ہونے والے بگاڑ جس میں لوڈ شیڈنگ، بے روزگاری، کرپشن، قبضے،ناانصافی پروان چڑھے ہیں، اوسطاً غریب آدمی کی عزت نفس مجروح ہوئی ہے، فضا آلودہ ہو چکی، پینے کو پانی نہیں، پی ٹی آئی جس طرح 35 سالہ بگاڑ کو عوام کے سامنے رکھنے میں ناکام رہی ہے،وہاں وہ اپنے صرف 2ماہ کے دور حکومت کے حوالے سے بتانے میں قاصر رہی ہے۔ یعنی یہ نہیں سمجھا سکے کہ ابھی حکومت ملی ہے تو اس میں 35سال کے بگاڑ کا حساب نہیں دے سکتے، یہی وجہ ہے کہ لاہور کی عمران خان کی چھوڑی سیٹ پر پی ٹی آئی کی ہار، 21اکتوبر کے ضمنی انتخاب میں گورنرکے پی کے کی چھوڑی سیٹ پر شکست، اس کی بڑی وجہ پی ٹی آئی کے بیانیہ کی درست ترجمانی نہ ہونا ہے۔عمران خان کو سنجیدگی سے سوچناپڑے گا۔ پی ٹی آئی کی2ماہ کی حکومت کو کیونکر35 سال کی بربادی کے برابر رکھا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی کو اپنے بیانیہ کی درست ادائیگی کرنا ہوگی یہ وقت کی ضرورت ہے۔ اس طرح پنجاب میں پی ٹی آئی کے اندر ایک نیا طوفان اٹھنے والا ہے۔ ایک مبصر نے درست کہا ہے پی ٹی آئی کو کوئی دوسری جماعت نقصان نہیں پہنچا سکتی، پی ٹی آئی کے نئے پرانے رہنما ہی خود کش بمبار ہیں۔ ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے چکر کے پارٹی کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ عمران خان کے پنجاب میں سردار عثمان بزدار کو تاریکیوں کی وادیوں سے پنچاب کی چکا چوند روشنی میں پنجاب کا کپتان بنا دینا بھی تبدیلی کا نام ہے،وزیر اعظم عمران خان کا یہ فیصلہ بھی یقیناً خیر کا وسیلہ ثابت ہوگا لیکن پنجاب کی سیاست میں عنقریب کچھ ایسا ہونیوالا ہے جس کا کسی کو اندازہ نہیں ہے۔ سینئر وزیر عبدالعلیم خان کپتان کی ٹیم کے اعلیٰ ترین آل راؤنڈر ہیں۔ لیکن ان کو آؤٹ کرنے کیلئے پی ٹی آئی کے اندر ہی بال ٹیمپرنگ شروع ہو چکی ہے۔ بالکل2013ءکے انتخابات کی طرح جن میں عبدالعلیم خان کے خلاف سازش کر کے الیکشن کے عمل سے باہر رکھاگیا تھا، اس لیے کپتان کو اپنے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو ریسکیو کرنے کے ساتھ ساتھ سینئر وزیر عبدالعلیم خان کے خلاف تیار کیے جانے والے سازشوں کے جال کو کاٹنے کی اشد ضرورت ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ اب عبدالعلیم خان ایک منجھے ہوئے سیاسی کھلاڑی بن چکے ہیں جوکہ خدا کے بعد کسی سے نہیں ڈرتے۔ چھوٹا خان بڑے خان کا وفادارہونے کے ساتھ میں عمران خان کا احترام بھی سب سے زیادہ کرتے ہیں لہٰذا کپتان کو پنجاب کی پی ٹی آئی کی اندرونی سازشوں پر نظر رکھنا ہو گی۔ پی ٹی آئی کو بہت سارے کام کرنا ہیں۔ نئے بلدیاتی نظام کے ذریعے نچلی سطح تک اقتدار کی منتقلی، 50 لاکھ گھروں کی تعمیر، جن کا ایک بڑا حصہ پنجاب میں تعمیر ہونا ہے جس کیلئے وزیر ہاؤسنگ میاں محمودالرشید نے دن رات ایک کیا ہوا ہے، نہ خودآرام کر رہے ہیں نہ محکمہ ہاؤسنگ کوآرام کرنے دے رہے ہیں۔ وزیر تعلیم اسکولز ڈاکٹر مراد راس بھی عمران خان کے ویژن کے مطابق پرائمری تعلیم سب کیلئے لازمی کے منصوبے پر محنت کر رہے ہیں۔ اگر دیکھیں صحت کے شعبےکو تو ڈاکٹر یاسمین راشد نے تو پرائمری ہیلتھ اور سپیشلائزڈ ہیلتھ دونوں وزارتیں خوب سنبھال رکھی ہیں۔ ڈاکٹر یاسمین راشد کا بس چلے تو وہ صبح ان کی آنکھ کھولیں تو ہسپتالوں میں بیڈ سب کو ملیں، مفت علاج ہو، وینٹی لیٹر ایمرجنسی کے ہر بیڈ کے ساتھ ہو، ہیپاٹائٹس کی ادویات ویکسین مفت دی جائے۔ تمام پنجاب پولیو، خسرہ فری ہونے کے ساتھ سب تندرست ہو جائیں۔ وزیر انڈسٹری اسلم اقبال کی کوشش ہے کہ انڈسٹری اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائے اور روزگار میں اضافہ ہو جبکہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار وزیراعظم کے ویژن کے مطابق حکومت چلانے کی کوشش میں مصروف ہیں اور کفایت شعاری کی مثالیں قائم کر رہے ہیں، وزیر اعلیٰ پنجاب کے ترجمان شہباز گل نے بھی اپنا محاذ خوب سنبھالا اور بہترین انداز میں کام کررہے ہیں،انہیں قومی سطح پر ترجمانی کے فرائض سونپ دیئے جائیں تو پارٹی کا بھلا ہوگا۔

تازہ ترین
تازہ ترین