• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چھاتی کا سرطان (Breast Cancer) دنیا میں عورتوں کوہونے والے سرطان میں سر فہرست ہے، آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے توایشائی خواتین میں چھاتی کے سرطان کی شرح سب سے زیادہ پاکستان میں ہے۔ دنیا بھر میں خواتین کی کل آبادی کا16فی صد چھاتی کے سرطان کا شکار ہے، جس کے سبب پوری دنیا میں ہر سال تقریباً5لاکھ خواتین موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ اس مرض کا تناسب عام طور پر ان خواتین میں کم پایا جاتا ہے، جو بچوں کو 2سال کی عمر تک دودھ پلاتی ہیں ۔

دنیا بھر میں اکتوبر چھاتی کے سرطان سے آگاہی کےمہینے کے طور پر منایا جاتا ہے، جس کا مقصداس مرض سے متعلق عوام میں آگہی فراہم کرنا اور اس کی وجوہات، احتیاط ، تشخیص اور ان کے علاج کے لیے فنڈز اکٹھے کرناہے۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی چھاتی کے سرطان کے بارے میں شعور بیدار کرنے کے لیے یکم اکتوبر سے پنک ربن مہم کا آغاز کیا گیا، جو7اکتوبر تک جاری رہی۔ رواں سال چھاتی کے سرطان سے بچاؤ کے لیے پنک ربن مہم کا عنوان ہے ’نویں عورت کو بچاؤ‘‘۔

اس خطرناک مرض سے نمٹنے کے لیے سب سے ضروری ہے کہ اس مرض کی بروقت تشخیص ہو، اور یہ تب ہی ممکن ہے جب آپ اس مرض کی بنیادی معلومات سے آگاہ ہوں ۔

چھاتی کا سرطان خواتین میں ایک عام مرض ہے۔ جسم کے پٹھے چھوٹے خلیوں سے مل کر بنتے ہیںاور یہی خلیے اگربےقابو انداز میں بڑھنا شروع ہو جائیں اور ایک ڈھیر بنا لیں،تو یہ مرض سرطان بن جاتا ہے جسے گلٹی (ابتدائی کینسر) کہا جاتاہے۔ بعض اوقات کینسر کے خلیے خون اور لمفاوی نظام کے ذریعے جسم کے دوسرے حصوں میں پھیل جاتےہیں، جسے ثانوی کینسر کہا جاتا ہے۔ اس کینسر کی کئی اقسام ہیں لیکن ان کا علاج ایک ہی صورت ممکن ہے، چھاتی کاکینسر بنیادی طور پر خواتین کو متاثر کرتا ہےلیکن یہ مردوں کو بھی ہو سکتا ہےمگر یہ تعداد بہت ہی کم ہے۔ یہ کینسر انفیکشن نہیں کرتا اور دوسروں میں منتقل نہیں ہو سکتا ۔ چھاتی کا سرطان کیوں ہوتا ہے، اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ انٹرنیشنل ڈاکٹرز کی آرا کے مطابق چند باتیں قارئین کی نظر کررہے ہیں۔

٭جدید دور میں خواتین میں ہارمونز کا غیر متوازن ہونا ایک عام مرض تسلیم کیا جاتا ہے لیکن ہارمونز کی یہ بے اعتدالی چھاتی کے سرطان کی وجوہات میں سے ایک ہوسکتی ہے۔ جسم میں ایسٹروجن ہارمون کی زیادتی خطرناک ثابت ہوتی ہے۔

٭تاخیر سے شادیاں یا زیادہ عمر میں پہلے بچے کی پیدائش بھی چھاتی کے سرطان کا سبب بن جاتی ہےلیکن جو مائیں بچوں کو اپنا دودھ پلاتی ہیں، اُن خواتین میں چھاتی کے سرطان کی شرح 4فیصد کم ہو جاتی ہے اور وہ اس موذی مرض سے زیادہ محفوظ رہتی ہیں۔

٭ تقریباً 10فیصد چھاتی کا سرطان جینیاتی نقائص کی وجہ سے ہوتاہے جبکہ جینیاتی نقائص کی حامل خواتین کی اپنی زندگیوں میں اس مرض کے ہونے کے80فیصد امکانات ہوتے ہیں ۔

٭عام طور پر چھاتی کے سرطان کا سبب بریسٹ لمپس ہوتے ہیں، اس کے سبب کینسر ہونے کے امکانات خاصے بڑھ جاتے ہیں۔ بریسٹ لمپس چھاتیوں میں بننے والی وہ گلٹیاں یا گومڑ ہیں، جسے پولی سسٹک یا فائبرو سسٹک کہا جاتا ہے۔ یہ شکایت25فیصد خواتین کو زندگی کے کسی مرحلے میں بھی ہو سکتی ہے، تاہم اچھی بات یہ ہے کہ ایسی گلٹیاں سرطانی خصوصیات کی حامل نہیں ہوتیں اور زیادہ تر غیر مضر ہوتی ہیں۔ تاہم ان گلٹیوں کی موجودگی میں چھاتی کے سرطان کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

٭ خواتین کا غیر صحت مندانہ طرزِ زندگی اور غیر متوازن خوراک بھی چھاتی کے سرطان کا سبب بن سکتے ہیں۔

اس مرض پر قابو پانے کے لیے سب سے پہلی چیز اس مرض کی بروقت تشخیص ہے، جس کے لیے طبی ماہرین خواتین کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اپنا بریسٹ چیک اَپ باقاعدگی سے کروائیں، خصوصاً وہ خواتین جن کی عمر چالیس سال سے زائد ہے۔ چھاتی کے سرطان کی تشخیص کا بہترین طریقہ میموگرافی ہے، خواتین کسی بھی شبہ کی صورت میںمیموگرافی یعنی چھاتی کا X-Ray کروائیں اور کسی بریسٹ سرجن سے مشورہ کریں۔

چھاتی کے سرطان کی تشخیص کے لیے خواتین کا خودتشخیصی عمل کے بارے میں جاننا بہت ضروری ہے۔ خواتین کو پہلے خود گھر میں اپنا معائنہ کرنا چاہیے اور کوئی بھی غیر معمولی بات یا تبدیلی محسوس ہونے کی صورت میں فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں اوراگر ضروری ہو تو میموگرافی یا اسکریننگ بھی کروانی چاہیے۔

اگر زیادہ سے زیادہ خواتین چھاتی کے سرطان کے حوالے سے باشعور ہوں گی تو عین ممکن ہے کہ نہ صرف اس مرض سے ہونے والی اموات میں کمی آئے بلکہ اس مرض کی شرح بھی کم ہوجائے۔ اسی طریقے کی بدولت اس مہلک مرض کی بروقت تشخیص ممکن ہے، ساتھ ہی اس کے علاج میں آسانی اور کامیابی کے امکانات بھی زیادہ ہیں۔

تازہ ترین