• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعظم عمران خان نے اچھا کیا کہ مملکت سعودی عرب میں شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ کامیاب مذاکرات کے نتائج پر خطاب کے ذریعے پاکستانی قوم کو اعتماد میں لیا۔ وطن عزیز اپنی تاریخ کے جس بڑے معاشی بحران سے دوچار ہے اس میں سعودی عرب کی طرف سے توازن ادائیگی میں مدد دینے کے لئے 3؍ارب ڈالر اسٹیٹ بینک میں جمع کرانے، تیل کی درآمد کے لئے تین ارب ڈالر تک کی ایک سال کے لئے موخر ادائیگی کی سہولت دینے اور اس انتظام کے تین سال تک جاری رہنے پر رضامندی کا اظہار بہت بڑی رعایت ہے جبکہ کئی دیگر سہولتوں کی فراہمی کا بھی یقین دلایا گیا ہے جس کے باعث نہ صرف ڈیفالٹ کا خطرہ بڑی حد تک ٹل گیا بلکہ ترقی کی سمت میں آگے بڑھنے کی راہ بھی ہموار ہوئی ہے۔ مگر جیسا کہ وزیر اعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں واضح کیا، وطن عزیز کو کرپشن کے سرطان کے علاج کا مرحلہ درپیش ہے، اس تکلیف سے گزر کر جلد اچھے حالات ملیں گے۔ ان کا کہنا تھا آنے والے دنوں میں قوم مزید خوشخبریاں سنے گی اور کمزور طبقات کی فلاح و بہبود اور غربت میں کمی کا پیکیج بھی سامنے آئے گا۔ اس بات سے قطع نظر، کہ پاکستانی عوام اچھے دنوں کی آس میں عشروں سے قربانیاں دیتے دیتے اس حالت کو پہنچ چکے ہیں کہ غریبوں کیلئے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہوچکا ہے، یہ بات اہم ہے کہ قوم کو ان اقدامات اور فیصلوں سے آگاہ کیا جاتا رہے جو اس کے رہنما اس کے حال اور مستقبل کے حوالے سے کررہے ہیں۔ عوام کو اعتماد میں لینا ایسا عمل ہے جس سے مصائب و مشکلات جھیلنے والوں کی امید کی ڈور قائم رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوری نظام کے دعویدار ملکوں میں حکمراں اپنی پالیسیوں اور اقدامات پر عوام کو اعتماد میں لینے کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔ صدارتی جمہوری نظام کے حامل ملک امریکہ میں صدر کا ہفتہ وار ریڈیو خطاب ایک معمول ہے۔ پاکستان میں بھی صدر ایوب خاں اور ان کے گورنروں نے ماہانہ خطاب کی روایت طویل عرصہ برقرار رکھی۔ پارلیمانی جمہوری ملکوں میں وزرائے اعظم کی پارلیمان میں موجودگی کو جمہوری روایات کے استحکام کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور یہ توقع بھی کی جاتی ہے کہ وہ براہ راست خطاب کی صورت میں قوم کو حالات حاضرہ اور حکومتی اقدامات کے بارے میں آگاہ کرتے رہیں۔ یہ بات ضروری سمجھی جاتی ہے کہ حکمرانوں کا قوم سے خطاب انتخابی جلسوں اور پارٹی کارکنوں کے اجتماعات سے مختلف ہو اور ان میں کوئی لفظ بھی ضرورت سے کم یا زیادہ نہ ہو۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں قوم کو سعودی عرب کے دورہ کے نتائج سے آگاہ کرنے اور پاکستان کی سیاسی و اقتصادی صورت حال پر روشنی ڈالنے کے علاوہ یہ بات بھی کہی کہ یمن میں حوثی باغیوں اور سعودی عرب کی زیر قیادت بین الاقوامی اتحاد کے درمیان جاری جنگ میں پاکستان ثالث کا کردار ادا کرے گا۔ اس بیان سے اس تاثر کی واضح طور پر نفی ہوگئی جو یمنی حوثیوں اور سعودی عرب کی لڑائی میں سابق آرمی چیف راحیل شریف کے سعودی قیادت میں بننے والے بین الاقوامی اتحاد کی سربراہی سنبھالنے کے بعد پیدا ہوا تھا جبکہ پاکستان کی سابقہ پارلیمینٹ کی ایک مشترکہ قرارداد میں واضح کیا گیا تھا کہ وطن عزیز مذکورہ لڑائی میں فریق نہیں بنے گا بلکہ ثالث کا کردار ادا کرے گا۔ پاکستان کے لئے یہ لڑائی اس اعتبار سے انتہائی حساس ہے کہ یمنی حوثیوں کے پیچھےبھی ایک دوست ملک ہے اور دوسری طرف سعودی عرب۔ دونوں ہی مشکل وقتوں میں پاکستان کے ساتھی رہے ہیں۔ عمران خاں نے ثالثی کا جو عندیہ دیا، قرائن کہتے ہیں کہ اس سے قبل سعودی عرب کی قیادت کو اعتماد میں لیا گیا ہوگا۔ وزیر اعظم پاکستان اگر عالم اسلام کے دونوں اہم ملکوں کو قریب لانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس سے مسلم دنیا کا اتحاد مضبوط ہوگا۔ یہ کام بظاہر مشکل نظر آتا ہے مگر عمران خاں دیگر ممالک سے رابطوں کے ذریعے اس مشن کو مکمل کرسکے تو یہ ایک بڑی کامیابی اور عالمی امن کی غیرمعمولی خدمت ہوگی۔

تازہ ترین