• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب ہم ساٹھ کی دہائی کے اواخر اور ستر کی دہائی میں دن رات نو آبادیاتی اور سامراجی نظام کے نوحے پڑھتے ہوئے انقلاب برپا کرنے اور عوام کی حالت سدھارنے کے لئے کوشاں تھے تو اس وقت ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے ہم نے تاریخ کا تاریک ترین باب دیکھ لیا ہے اور اس سے آگے اجالا ہی اجالا ہے۔ بقول ظہیر کاشمیری ’’ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے‘‘۔ اب نئی نسل کے بہت سے ناقد ہمیں تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم نے یہ کیوں کیا اور وہ کیوں کیا۔ہمارے مہربان ناقدین ہماری اس وقت کی ذہنی حالت سے نا آشنا ہیں : ان کو یہ علم نہیں کہ ہمیں یقین کامل تھا کہ انقلاب آیا ہی چاہتا ہے اور بقول شخصے انقلاب لاہور کے راوی پل سے کسی بھی وقت شہر میں داخل ہو سکتا ہے۔ ہم بھی اپنے پیشرئوںکو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہتے تھے کہ انہوں نے ہمارے لئے کوئی مثبت روایت قائم نہیں کی لیکن اب پچاس سال کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ:

ہم سے کیا ہو سکا محبت میں

خیر تم نے تو بے وفائی کی

لیکن ان پچاس سالوں میں دنیا میں جو تبدیلیاں آئی ہیں ان میں انواع و اقسام کی اشیاء اور میسر سہولتوں میں انقلاب آچکا ہے۔ اس کے ساتھ ہی 1980 سے شروع ہونے والی مذہبی انتہا پسندی اور سیاسی تنگ نظری اب اپنی انتہا کو پہنچ رہی ہے: امریکہ سے لے کر فلپائن تک ہٹلر نما فاشزم بلندیوں کو چھو رہا ہے۔بر صغیر کے ممالک بھی اسی رجحان کی زد میں ہیں۔

ستر کی دہائی میں ہم بائیں بازو کے تخیل پرستوں کی طرح ہمارے بہت سے معاصر مذہب کے حوالے سے بھی ایسے ہی انقلاب کی امنگیں دل میں سجائے بیٹھے تھے۔ اس امر کا احساس مجھے تب ہوا جب ایک دفعہ ہمارے دوست منیر احمد خان اور سپریم کورٹ کے مشہور وکیل اکرم شیخ صاحب نے میرے لئے ہوٹل میں ایک نشست کا اہتمام کیا تھا۔ اس نشست میں جاوید ہاشمی، بقول ان کے، بن بلائے مجھے ملنے آگئے تھے۔ میں جاوید ہاشمی کو پنجاب یونیورسٹی کے دور سے جانتا ہوں۔ ان کو شاید یاد نہ ہو لیکن مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ انہوں نے مجھے اسلامی جمعیت طلباکے جلوس کے ہاتھوں پٹنے سے بچایا تھا۔ انہوں نے ایک زمانے میں شعبہ فلسفہ پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ تو لے رکھا تھا لیکن وہ کلاسوں سے غیر حاضر ہوتے تھے۔ ان کا امتحانوں کے لئے داخلہ روک لیا گیا تھاجس پر انہوں نے عدالت میں مقدمہ کردیا اور مجھے اور ایک دوسرے استاد جناب ڈاکٹرعبدالخالق کو حاضریوں کے رجسٹر لے کر عدالت میں حاضرہونا پڑا تھا۔ اس پس منظر میں جناب جاوید ہاشمی سے عرصہ دیرینہ کے بعد ملاقات نہایت دلچسپ تھی۔ انہوں نے گفتگو میں مجھے بتایا کہ ہم ستر کی دہائی کے لوگ ایک دوسرے کے جانی دشمن ہوتے ہوئے اورمتضاد نظریات کے پیروکار ہوتے ہوئے بھی معاشرے کو گل و گلزار بنانے کے بارے میں ایک ہی جیسے تخیل پرست تھے۔ اس پر مجھے فیض احمد فیض کی مشہور نظم ’رقیب‘ یاد آگئی:

آکہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے

جس نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا تھا

تاریخ میں جو ہوا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ستر کی دہائی کے اواخر تک ہم بائیں بازو والوں کی انقلابی تخیل پرستی تو دم توڑ چکی تھی لیکن میرے خیال میںجاوید ہاشمی جیسے مذہبی فلاحی نظام کے داعیوں کی نظریاتی روح بھی مجروح ہو چکی تھی۔ ضیاء الحق کے دور سے لے کر کسی نہ کسی طرح اکثرمذہبی دھڑے اسٹیبلشمنٹ کا حصہ بنتے ہوئے نظریاتی ساکھ کھو چکے ہیں۔ علامت کے طور پر مولانا ابوالاعلی مودودی کی فکری روایت کو آگے بڑھانے والے مفقود ہو گئے ہیں اور جماعت اسلامی کا ملکی سیاست میں کوئی خاص کردار نہیں رہا۔

پچھلے پچاس سالوں میں جو معرکۃ الآرا تبدیلیاں آئی ہیں ان کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔ ان تبدیلوں کو دیکھنے کے لئے تاریخی حوالے کے طور پر کنور مہندر سنگھ بیدی کی ’یادوں کا جشن‘ پڑھئے ۔ کنور مہندر سنگھ بیدی ساہیوال کے ایک بہت بڑے جاگیردار گھرانے میں 1909 میں پیدا ہوئے تھے۔اگرچہ دیہی عوام کے پاس ستر کی دہائی تک بھی بائیسکل جیسی معمولی سواری خریدنے کی سکت نہیں تھی لیکن بیدی صاحب نے تحریر کیا ہے کہ بیسویں صدی کے پہلے حصے میں ان کے پاس تین موٹر سائیکلیںاورکار بھی موجود تھی اور ان کی زمینوں پر ٹیوب ویل بھی لگا ہوا تھا۔ وہ چیزیں اور سہولتیں جو پہلے صرف بڑے جاگیردار طبقے کے استعمال میں تھیں وہ اب گاؤں کے عام لوگوںکے پاس موجود ہیں۔ اگرچہ عوام کے پاس بیدی خاندان کی طرح ہاتھی اور شکار کرنے کے لئے باز اور شکرے تو موجود نہیں ہیں لیکن موٹر سائیکلیں، کاریں اور ٹیوب ویل جیسی چیزیں بہت عام ہو چکی ہیں ۔ گویا کہ ایک خاموش انقلاب برپا ہوا ہے جس میں عوام کے پاس وہ چیزیں پہنچ گئی ہیں جو پہلے صرف حکمران طبقے کے پاس تھیں اور شاید اس میں میرے اور جاوید ہاشمی کے نظریات کی بجائے صرف تاریخی عمل سے ایسا ہوا ہے۔ لیکن اشیائے صرف کی فراوانی کے ساتھ ساتھ سیاسی اور سماجی سطح پر فاشسٹ طاقتیں غالب ہوتی گئی ہیں۔

امریکہ سے لے کر ہندوستان تک نظر دوڑائیں تو یہ بات صاف صاف نظر آتی ہے کہ مذہب اور نسل پرستی کے نام پر اکثریتی آبادی کو گمراہ کرتے ہوئے اقلیتوں اور عوام کے عمومی جمہوری حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے ۔ یہ فاشسٹ طاقتیں سچائی کا گلا دبانے کے لئے لکھنے اور بولنے کی آزادی کو سلب کر رہی ہیں۔ امریکہ میں صدر ٹرمپ میڈیا کو جعلی (فیک نیوز) کہتے ہوئے ہر روز جھوٹ کے پلندے پر مشتمل مذہبی تنگ نظری اور نسلی تعصب کو پھیلا رہے ہیں۔ ہندوستان میں یہی کچھ ہندوتوا کے نام پر ہورہا ہے اور معصوم شہریوں کو ہجوم کے ہاتھوں قتل کروایا جا رہا ہے۔ مغربی ممالک میں ہر جگہ قوم پرستی کے نام پر فاشسٹ قوتیں ابھر رہی ہیں۔ باقی ماندہ دنیا میں بھی ریاستی مشینریاں میڈیا کو خاموش رکھنے کے لئے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہیں۔ آج کل صحافی کو قتل کرنے کا جو الزام برادر ملک پر لگایا جا رہا ہے وہی دنیا کی اور بہت سی ریاستوں پر لگایا جا سکتا ہے۔ اسی فاشسٹ لہر کا اظہار فلپائن میں انسداد منشیات کے نام پر ہزاروں لوگوں کے قتل کی صورت میں ہوا ہے۔ فاشزم کے ابھرنے کے لا تعداد اشاریے موجود ہیں ۔ کیا کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ دنیا بھر میں اشیائے صرف کی فراوانی سے عوام خواب خرگوش کا شکار ہو چکے ہیں۔ معاشی ترقی اور فاشزم کے ابھار کے درمیان تعلق کے بارے میں گہرے تجزئیے کی ضرورت ہے جو اس وقت کہیں بھی نظر نہیں آرہا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین