• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ان صفحات پر ہم تعلیم وتدریس میں ٹیکنالوجی کے استعمال اوراس کے مستقبل کے بارے میںکئی مضامین آپ کی خدمت میں پیش کرچکے ہیںاور علم کے پھیلائو میں معاون ایپس اور گیجٹس کا بھی ذکر کرچکے ہیں۔ یہ علیحدہ بحث ہے کہ ٹیکنالوجی کا استعمال ہمارے تعلیمی کلچر میں کس حد تک سرایت کر چکاہے یا اس نظام پر دسترس حاصل کرنے میں کتنا عرصہ درکار ہوگا۔ اس سے قطع نظر ہمارے ہاں او/اے لیول کی سطح پر ٹیکنالوجی کااستعمال شروع ہوچکاہے۔ ٹیکنالوجی بچوں کو اس سطح پر سیکھنے کی صلاحیت دیتی ہے، جو کہ شاید ان کے آباؤاجداد اور والدین کے پاس نہیں تھے۔ آج کے دور میںسیکھنے والوں کے لیے فوری طور پر جوابات جاننا اور تحقیق کرنا بہت آسان ہے۔ کلاس روم میں ٹیکنالوجی کا استعمال فائدہ مند ہے یا نقصان دہ، ایک نظر ڈالتے ہیں۔

رپورٹنگ اور ڈیٹا کی آسانی

موبائل ایپس اور پلیٹ فارم اساتذہ کو ایسے حالات بنا کر دیتے ہیں جس میں وہ معلومات کو اکٹھا کرتے ہیں جو ان کو طلباء کوجاننے میں مدد دیتے ہیں جیسے کہ عنوان، لیول، حاضری کے اعدادوشمار، کارکردگی اور کوئز، انگلش زبان کی استعداد، خصوصی تعلیم میں شمولیت۔ ان تمام معلومات کے ساتھ اساتذہ بآسانی یہ بات دیکھ سکتے ہیں کہ ان کے طلباء پوری کلاس کے ساتھ کیسی کارکردگی دکھا رہے ہیں۔ ٹیم کے طور پر اور انفرادی سطح پر، اس طرح جب بھی ان کو اس کی ضرورت ہو، وہ مداخلت کر سکتے ہیں۔

معلومات کا حصول

فوری طور پر سیکھنے کی صلاحیت کارپوریٹ ملازمین کی مدد کررہی ہے کہ وہ سیکھیں کہ کس طرح فوری پر طور پر مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ ایجوکیشنل ٹیکنالوجیز اساتذہ کو قابل بناتی ہیں کہ وہ دیکھیں کہ طلباء کہاں سمجھ میں آنے والے نقطے کو بھلا رہے ہیں اور پھر وہ صرف ان کی معلومات کیلئے اس سبق کو ٹارگٹ کریں ۔ بجائے اس کے کہ وہ گھنٹوں ایسے لیکچر کے پیچھے ضائع کر دیں، جس میں طلباء پہلے ہی مہارت حاصل کر چکے ہیں۔ ٹیکنا لوجی طلباء کو اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ یہ جانیں کہ ان کو کب اور کس بات کی ضرورت ہے۔

طلبا کی کارکردگی

طلباء کو تعلیمی ایپس اپنے وقت اور ضرورت کے حساب سے استعمال کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ یہ سب طلباء کی کارکردگی پر منحصر ہوتا ہے۔پروگرامز کو طلبہ کے سیکھنے یا سمجھنے کی بنیاد پر تیار کیا جاتاہے ۔ مزید یہ کہ بہت زیادہ ایپلیکیشنز اور سوفٹ ویئرزسے طلباء ایک ہی کلاس میں مختلف سسٹمز کو استعمال کرتے ہوئے ایک جیسی چیزوں کو سیکھتے ہیں، جو کہ ان کی دلچسپی اور سیکھنے پر انحصار کرتا ہے۔

سیکھنے کے مختلف انداز

کلاس روم میں ٹیکنالوجی کو شامل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ طلباء میں کچھ کر دکھانے اور ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے سیکھنے کے مختلف ذرائع موجود ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ طلباء لیکچر کے ماحول میں ترقی کی منزل کو طے کریں اور ہو سکتا ہے بعض طلباء انفرادی طور پر بہت اچھاسیکھتے ہوئےنئی چیزیں کھوج رہے ہوں۔

مددگار ٹیکنا لوجی

ہم پہلے بھی ایسی خاص ایپلیکیشنز کے بارے میں بتاچکے ہیں جو کہ خاص طلباء اور اساتذہ کے لیے ہیں۔ وہ طلباء جو تعلیمی میدانوں میں ترقی کی منزل طے کرتے ہوئے خصوصی توجہ چاہتے ہوں، ان کے لیے ایک ایسا ورڈ پروسیسر بنایا گیا ہے، جو آواز کو سن کر ٹائپ کرتا ہے۔ ان طلباء کے لیے جن کو زبان سمجھنے میں مشکل ہوتی ہے، ٹیکنا لوجی سہولت فراہم کرتی ہے کہ وہ اپنے کلاس فیلوز اور ٹیچر کے ساتھ بات چیت کر سکیں اوران کی گفتگو میں شریک ہوسکیں۔

یہ تو تھے کچھ فوائد، اب دیکھنا یہ ہے کہ ٹیکنا لوجی کیا واقعی کلاس روم میں بہترین ثابت ہوتی ہے اور اساتذہ کا اس میں کیا کردار رہےگا۔

مشغولیت

یہ عمومی طور پر سب سے پہلی پریشانی ہے استاد کے لیے جو کلاس روم ٹیکنالوجی کے نافذ ہونے کی وجہ سے ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ ٹیکنالوجی کی موجودگی میں طالب علم tweetig یاsnap chatting میں مصروف ہو جائے گا اور اپنے اصل مقصد سے ہٹ جائے گا۔

ڈیٹا کی آسان منتقلی

اساتذہ کو ہمیشہ یہ مسئلہ رہے گا کہ طالب علم اپنی سوچ سے لکھنے کی بجائے ادھر ادھر سے ڈیٹا نقل کریں۔ آج کے طالب علم کو بآسانی لکھے ہوئے مضامین، رپورٹس، کلاس نوٹس اور دیگر دستیاب مواد انٹرنیٹ پر مل جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے سب سے بڑا مسئلہ خود اساتذہ کے لیے ہوتا ہے کہ آیا جو کچھ طالب علم نے لکھا ہے وہ اصل ہے، اس نے خود سے لکھا ہے یا کہیں اور سے نقل کیا ہے۔اگرچہ آج کل ایسی ٹیکنالوجی موجود ہے، جو بآ سانی نقل شدہ مواد کو پکڑ لیتی ہے کہ آیا مواد اصل ہے یا نقل شدہ لیکن کوئی بھی سسٹم زیادہ کار گر نہیں ہے۔

کلاس کے باہر تک رسائی کا ذریعہ

تمام تر طلباء کو ٹیکنالوجی کا حصول کلاس روم سے باہر دستیاب نہیں ہوسکتا۔ ہاں لائبریری ایک اچھا آپشن ہے لیکن وہاں بھی اکثر اوقات کمپیوٹر کے فارغ ہونے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود آپ ایپس ڈاؤن لوڈ نہیں کر سکتے، وہ بھی عام کمپیوٹر پر جو ہر کسی کے استعمال میں ہو ۔ ٹیکنالوجی کو کلاس میں دینا اچھا ہے جبکہ تمام تر طلباء کی اس تک رسائی ہو۔ اس تمام تر بحث کے کوئی غلط اور صحیح پہلو نہیں ہیں۔ تعلیمی ٹیکنالوجی کے اپنے فائدے اور نقصانات ہیں ۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ اساتذہ اور ایڈمنسٹریٹرز کس طرح ٹیکنالوجی کا فائدہ مند استعمال کرتے ہیں۔ 

تازہ ترین