• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آسیہ پری وش،حیدرآباد

جہانزیب اپنی چیزوں کی حفاظت کے معاملے میں بہت لاپروا تھا۔ وہ اپنی ضروری چیزیں بھی جہاں بیٹھتا وہیں چھوڑ کے اْٹھ جاتا تھا، اس کی امی اس کی چیزیں سنبھال کے رکھتی تھیں۔ اس کی لاپروائی پر وہ اسے سمجھاتیں، بابا کی ڈانٹ بھی سنتا لیکن اس پر کسی بات کا اثر نہ ہوتا،شاید کوئی نقصان نہیں ہوا تھا ،اس لیے لاپروائی کا احساس نہیں تھا۔

’’بابا مجھے اچھی طرح یاد ہے دو دن پہلے میں نے اپنا ایڈ مٹ کارڈ یہیںمیز پر رکھا تھا، کل رات تک یہیںتھا‘‘، جہانزیب نے جھنجھلا کر ٹیبل پہ مکا مارا۔’ اس کے بابا نے غصے سے اسے دیکھا۔

’’بابا میں پہلے ہی بہت پریشان ہوں، کل صبح پیپر ہے، ایڈ مٹ کارڈکے بغیر مجھے امتحان ہال میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا ، میں سارا گھر دیکھ چکا ہوں لیکن کہیں نہیں مل رہا‘‘، وہ پریشانی سے روپڑا۔ جہانزیب اور اس کے والد گھر میں اکیلے تھے۔ اس کی امی کسی عزیز کی عیادت کے لیے دوسرے شہر گئی ہوئی تھیں۔ ’’امی آپ کہاں ہیں؟ آکے میری مدد کریں ورنہ میں کل کیا کروں گا‘‘۔وہ ماں کو یاد کر کے رو پڑا جو اُس کی چیزیں سنبھال کر رکھتی تھیں۔

’’کتنی دفعہ سمجھایا تھا کہ اپنی چیزیں سنبھال کے رکھا کرو۔ کسی دن کوئی بڑا نقصان نہ کردو لیکن نہیں، وہ جہانزیب ہی کیا جو ماں باپ کی کوئی نصیحت بھی سنے‘‘۔بابا نے غصے سے کہا۔

ایڈمٹ کارڈ گم ہوجانے پر پریشان تو وہ بھی ہوگئے تھے لیکن بیٹے کی لاپروائی کی عادت پر انہیں غصہ بھی بہت آرہا تھا‘‘۔ ’’سارا گھر چیک کرلیا ہے،’’ ڈسٹ بن بھی چیک کرلیا ہے، تمہاری امی ادھر اْدھر بکھری چیزیں سنبھال کر رکھ دیتی ہیں۔ کیا پتا ان کی غیرموجودگی میںماسی نے تمہاررا کارڈ فالتو کاغذ سمجھ کر ڈسٹ بن میں پھینک دیا ہو‘‘؟’’میرا کارڈ اور ڈسٹ بن میں‘‘، باپ کی بات پر وہ چیخ کر صحن کے کونے میں رکھے ڈسٹ بن کی طرف بھاگا۔ کچرے سے بھرے ڈسٹ بن کو دیکھ کر وہ جھجھک گیا اور مسکین صورت بنا کر باپ کی طرف دیکھا۔

’’جو بھی کرنا ہےخود کرو گے‘‘، باپ کے صاف جواب پر اس نے ایک نظر اپنے صاف ہاتھوں کو دیکھا، پھرہچکچاتے ہوئے ڈسٹ بن میں ہاتھ ڈالا تو صبح کی استعمال شدہ چائے کی پتی نے اس کے ہاتھوں کا استقبال کیا۔ کل کے کھائے کیلوں کے چھلکوں اور دوسرے کچرے نے اس کے ہاتھوں کے ساتھ ساتھ اس کا موڈ مزیدخراب کر دیابلآخرکارڈ اس کے ہاتھ لگ گیاجو مٹی اور دوسرے کچرے سے خراب ہوگیا تھا، اسے ماسی پر بہت غصہ آرہا تھا۔ ’’اسے تو میں کل سبق سکھاؤں گا‘‘۔

’’کیوں تم اپنی لاپروائی سے سبق ‘سیکھو‘۔ ڈسٹ بن سے کارڈڈھونڈتے وقت بابا،جہانزیب کی کیفیت سے لطف اندوز ہو رہے تھے ،انہوں نےملازمہ پرآئے اس کے غصے پر اسے سرزنش کرتے ہوئے کہا۔ ’’ماسی اس گھر کی فرد نہیں جو گھر کی چیزیں سنبھالے۔ وہ صفائی کرنے آتی ہے اور اپنا کام کرکے چلی جاتی ہے، اسے کیا پتا کہ ادھر اْدھر پڑی یہ چیزیں ہمارے لیے کتنی اہم ہیں۔ یہ تو ہماراا فرض ہے کہ اپنی چیزوں کی حفاظت کریں اور بیٹا جی آپ تو یہ شکر کریں کہ آج کچرا اْٹھانے والا نہیں آیا ہے، ورنہ آپ کا یہ کارڈ تو گیا تھا، پھر آرام سے بیٹھ کر اپنی اس لاپروائی کی عادت کا رونا روتے‘‘ ۔ابو کی بات پر جہانزیب کا سر ندامت سے جْھک گیا۔

’’ابھی بھی وقت ہے بیٹا، اپنی اس عادت پر کنٹرول کرلو کہ کہیں کل کو اس سے بھی بڑا کوئی کارنامہ نہ سرانجام دینا پڑے۔ انہوں نے ڈسٹ بن اورکچرے میں خراب ہوئے اس کے ہاتھوں اورایڈمٹ کارڈ کی طرف اشارہ کیا۔اپنی لاپروائی کی وجہ سے ڈسٹ بن کی تلاشی کا تجربہ ہی اس کے لیے کافی تھا، سو اس نے اپنی چیزوں کو خود سنبھال کر رکھنے کا عہد کیااورایڈمٹ کارڈ کو کپڑے سے صاف کرنے بیٹھ گیا۔

تازہ ترین