• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیما اختر

اسکول بس کے تیز ہارن کی آواز سن کر بلال نے چونک کر پیچھے دیکھا۔ وہ ننگے پاؤں، میلے کپڑے پہنے، آس پاس بکھری ہوئی گندگی میں کھڑا، کچرے کا تھیلا اپنے کندھے پر ڈالے یہ سوچ رہا تھا کہ، کاش میں بھی ان بچوں کی طرح صاف ستھرایونی فارم پہن کر اسکول جاتا۔ اس کے باپ کے لیے دو وقت کی روٹی کھلانا ہی مشکل تھا۔ تعلیم کے اخراجات پورے کرنا اس کے بس میں نہیں تھا۔

ایک دن کام سے فارغ ہوکر بلال نے باپ سے پوچھا،’’بابا، کیا میں کبھی نہیں پڑھ سکوں گا؟‘‘

’’روزانہ ایک ہی سوال ، تیرادل نہیں بھرتا؟ جب توجانتا ہے کہ میں تیری یہ خواہش نہیں پوری کرسکتا توکیوں مجھے تنگ کرتا ہے، روٹی کھااورسوجا، جتنی جلدی صبح اٹھے گا، اتنا زیادہ اور اچھا کچرا جمع ہو گا۔‘‘باپ نے غصے سے کہا۔

’’کچرا توکچرا ہوتا ہے بابا، اچھابرا کچرا کیاہوتا ہے، جواب نہ پاکرآخر وہ سوچتے سوچتے سوگیا ۔ اگلے روز کچرے کے ڈھیر کے قریب سے گزرتے ہوئے اس کے باپ شیر خان کو عربی زبان میں لکھاہوا ایک کاغذ ملاتو اس نے اسے چوم کر آنکھوں سے لگالیا۔ اب اسے رکھتا کہاں، ہاتھ میں جوتھیلا تھا، وہ گندی چیزوں سے بھرا ہوا تھا، اس نے قریبی ایک بڑی جامع مسجد کارخ کیا،یہاں دینی تعلیم کے ساتھ دوسرے علوم کی تعلیم مفت دی جاتی تھی۔ دروازے کے اندقدم رکھتے ہوئے اس کادل ہچکچایا، اسے مسجد کے احاطے کے اندر صاف ستھرے لباس پہنے، سلیقے سے ٹوپی لگائے ہوئے ایک بچہ نظر آیا، اس نے بچے کو اشارے سے بلایا،’’بیٹا، یہ اس ڈبے میں ڈال دو، اس بچے کو دیکھ کراسے اپنا بیٹا یاد آگیا۔

’’تم یہاں کیا کررہے ہو؟ ‘‘اس نے یونہی پوچھ لیا۔’’ میں یہاں پڑھتاہوں‘‘۔ بچے نے جواب دیا۔

’’یہاں کیا پڑھتے ہو؟‘‘

’’قرآن وحدیث اور دوسری علمی کتابیں۔‘‘

اتنے میں مسجد کے امام صاحب آگئے تو اس نے پوچھا،’’امام صاحب یہاں پر بچوں کی تعلیم پر کتنا خرچا آتا ہے۔‘‘

’’کچھ بھی نہیں، ہم یہ کام اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رضاکے لیے کرتے ہیں، مگر تم کیوں پوچھ رہے ہو؟‘‘

میرے بیٹے کوپڑھنے لکھنے کا بہت شوق ہے، مگر کیاکروں کچرے کے ڈھیر سے پیٹ کی آگ ہی مشکل سے بجھتی ہے، علم حاصل کرنے کے لیے تو پیسے کی ضرورت ہوتی ہے، وہ کہاں سے لاؤں۔ “

’’تم اس کوکل ہمارے پاس لے آنا۔‘‘

’’جناب ،اس کے پاس صاف ستھرے کپڑے اور جوتے نہیں ہیں۔‘‘

مولوی صاحب نے اس کے بیٹے کی عمر معلوم کی اور پھر ایک شاگرد کواشارے سے بلایا، اس کے کان میں کچھ کہا۔ شیرخان ،نے انہیں سر گوشی کر تے دیکھا تو کچرے کا تھیلا کندھے پر ڈال کر چل دیا، ابھی چندقدم آگے ہی بڑھا تھا کہ مولوی صاحب کی آواز آئی ،یہ لوکپڑے اور جوتے ، کل اسے نہلا دھلا کر ہمارے پاس لے آنا۔ ‘‘

شیرخان نے گھر پہنچ کر دیکھا ، بلال چپ چاپ کمرے کے ایک کونے میں لیٹا ہوا ہے، نہ کوئی فرمائش اور نہ کچرے کے تھیلے میں سے کچھ ڈھونڈنے کی لگن۔ شیرخان نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے اس کے سر کواپنی گود میں رکھااور بے ساختہ اس کے ماتھے کوچومنے لگا۔

وہ باپ کی گود میں چھپ گیا, ’’بابا ، مجھے پڑھنا ہے، اچھا انسان بننا ہے۔‘‘

’’ضروربیٹا ضرور۔‘‘

غیر متوقع جواب سن کر بلال اٹھ کر بیٹھ گیا۔

ہاں بیٹا! یہ کہہ کر شیرخان نے اسے نئے کپڑے اور جوتے دیے اورکہا،’’کل سویرے ہی ہم مدرسےجائیں گے،اب تجھے رونے اورکچرااُٹھانے کی ضرورت نہیں۔

بلال کی آنکھوں میں چمکتی خوشی دیکھ کر شیر خان کا چہرہ بھی خوشی سے کھل اٹھا۔

اب بلال پڑھتا اور شیر خان کچرا اُٹھتا ہے لیکن اُسے اُمید ہے کہ ایک دن اُ س کا بیٹا پڑھ لکھ کر ملک و قوم کا نا م روشن کرے گا ۔

تازہ ترین