• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے سیاسی نقشے میں تبدیلیاں کچھ اتنی تیز ہو گئی ہیں کہ حساب رکھنا مشکل ہو رہا ہے۔ لگتا ہے وٹامن اور طاقت کی دواؤں کی ایک بڑی کھیپ ہر جگہ پہنچا دی گئی ہے اور ہر دھکے والی ٹرین ایکسپریس یا کچھ تو بلٹ ٹرین میں بدل گئی ہیں۔ عدالتوں کو دیکھیں تو ایک نہ رکنے والا سلسلہ ہے۔ فیصلوں کا اور نئے کیس سننے کا۔ یوں لگتا ہے حکومت تو خواب خرگوش میں سہانے خوابوں اور فردوس بروئے زمین کی سیر میں مگن ہے اور عدالتیں ہر کام چلا رہی ہیں۔ ایک سرسری جائزہ لیا تو صرف دو ہفتوں میں جو فیصلے آئے ہیں اور جو احکامات دیئے گئے ہیں ان میں بلوچستان امن عامہ کیس، ریکوڈک، نیب اور کارکے، کراچی میں ووٹروں کی گنتی، CNG کی قیمتوں، انتخابی حلقوں کی دوبارہ حلقہ بندی، کراچی امن و امان کیس، وحیدہ شاہ کیس، لال مسجد کا کمیشن، جعلی ووٹوں کا عمران خان اور بے نظیر بھٹو کا کیس، ملک ریاض ارسلان کیس، کالاباغ ڈیم کیس اور بھی کئی دوسرے کیسوں کے فیصلے صادر ہوئے جبکہ جو کیس ابھی چل رہے ہیں ان میں صدر کے دو عہدوں کا کیس، ججوں کی تقرری کا ریفرنس، سرکاری افسروں کی تقرری اور تبادلوں کا کیس وغیرہ شامل ہیں۔ ایک طرح جو کام حکومت کرنے سے غافل ہے، وہ عدالتیں کر رہی ہیں مگر جو کام حکومت کو نہیں کرنا چاہئے وہ جاری ہے اور خود نیب کے ایڈمرل بخاری فرماتے ہیں روزانہ سات ارب کی چوری ہوتی ہے۔ ملک چوروں کی فہرست میں اوپر کی جانب سر پٹ بھاگ رہا ہے۔ چور ملک چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں کیونکہ آخری وقت قریب ہے۔ صدر صاحب یوں تو پٹواری کا تبادلہ ہو تو میٹنگ کی صدارت کرتے ہیں مگر اب وہ سب کچھ چھوڑ کر ملالہ کی خیریت دریافت کرنے خود لندن پہنچ گئے ہیں اور ایران کا اہم دورہ بھی منسوخ کر دیا جس کا وعدہ صدر احمدی نژاد سے کیا تھا۔ شاید امریکی دوبارہ ناراض ہو رہے تھے مگر جن خبروں نے ملک اور کراچی کو ہلا کر رکھ دیا وہ لندن سے آئیں اور دل ہلا دینے والی تھیں۔ مشہور زمانہ اسکاٹ لینڈ یارڈ کی پولیس 48 گھنٹے کے قریب ایک تنظیم کے دفتر میں بیٹھی رہی۔ ڈبے کے ڈبے شواہد کے جمع کئے، کئی لیڈروں سے سوالات کئے اور پھرBBC کو بیان بھی دے مارا۔ مسئلہ قتل کے کیس کا تھا اور ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کا۔ کراچی پورا کا پورا دم بخود ہو گیا۔ افواہ یہ ہے کہ کئی جانے پہچانے لوگ فوری ٹکٹ کٹا کر دوسرے ملکوں کو سدھارے، چڑیاں اڑنے لگیں کہ گورنر بھی جا رہے ہیں۔ چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں کئی مخالفوں نے تو یہ تک کہہ دیا کہ کیا کراچی کی قیادت بدلنے والی ہے۔ کئی سفارت کاروں نے کراچی کے مستقبل کی قیادت کے بارے میں سوالات کرنا شروع کردیئے ۔ یہ بھی سننے میں آیا کہ اب کی بار کراچی کو ٹھیک کر ہی دیا جائے گا یعنی عدالت عالیہ کا جو حکم ووٹروں کو چیک کرنے کیلئے دیا گیا ہے اور فوج کو استعمال کرنے کا کہا گیا ہے اس کے ساتھ ہی کیوں نہ اسلحہ کی چیکنگ بھی کر لی جائے کیونکہ فوج کو گھر گھر تو جانا ہی ہے۔ کہا گیا کہ اگر یہ آپریشن شروع ہوا تو کراچی میں فوری الیکشن ہونا تو مشکل ہو جائے گا۔ دھند اور دھواں اتنا بڑھا کہ لوگ حواس باختہ لگنے لگے۔ غلطی سے یا صحافتی جذبے میں میں نے ایک لائن ٹویٹر پر لکھ دی کہ لندن میں ایک تنظیم کے دفتر کی چیکنگ ہو رہی ہے اور ایک نجیTV نے یہ خبر دیدی ہے۔ حواس باختہ لوگ اس TV کو چھوڑ کر مجھے گالیاں اور دھمکیاں دینے پر اتر آئے، پھر جب کئی سو گالیوں سے بھرے پیغام لکھ دیئے گئے تو ایک ذمہ دار لیڈر نے رابطہ کیا اور کہا یہ سب وہ نہیں ان کے دشمن جو ٹویٹر وغیرہ زیادہ استعمال کرتے ہیں ان کا کام ہے۔ میں نے ان محترم لیڈر کی بات من و عن مان لی کیونکہ سوشل میڈیا تو ہے ہی مادر پدر آزاد، کوئی بھی کچھ بھی کسی کے نام سے لکھ سکتا ہے اور بڑے بڑے لوگ وضاحتیں کرتے نظر آتے ہیں کہ ان کا جعلی اکاؤنٹ بنا کر کوئی استعمال کر رہا ہے۔
مگر جو صورتحال بن رہی ہے وہ زیادہ اہم ہے۔ غور کریں کراچی کی ہلاکتوں کے بعد اور عدالت کے حکم کے بعد اب الیکشن کمیشن اور فخرو بھائی فوج کی مدد سے کراچی میں مہم چلائیں گے اور ہر ووٹر کو دیکھ کر یا تو اس کے ووٹ کی تصدیق کریں گے یا منسوخ کر دیں گے۔ 62 لاکھ لوگوں کو ملنا اور تصویر اور شناختی کارڈ سے موازنہ کر کے OK کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ بے شمار لوگ تو کسی فوجی اور پولیس والے کے سامنے آتے ہوئے گھبرائیں گے کہ کسی پرانے کیس میں نہ دھر لئے جائیں۔ ہو سکتا ہے قومی اسمبلی کی دو چار ہی سیٹوں کے نتیجے پر اثر پڑے مگر ہر ایک کی چیکنگ اور ساتھ ہی اگر گھروں کی بھی چیکنگ کر لی گئی اور اسلحہ وغیرہ پکڑا گیا تو کراچی کا امن بحال ہو سکتا ہے۔ کام تو پہاڑ جیسا ہے مگر مسئلہ بھی پہاڑ سے کم نہیں، کرنا تو ہو گا۔
تو اس دوران انتخابات کا کیا ہو گا۔ لوگوں نے گھوڑے دوڑانا شروع کر دیئے ہیں۔ سوالات کی بھرمار ہے۔ عبوری حکومت تو زیادہ سے زیادہ مارچ تک بنانی ہی پڑے گی۔ حکومت اور حزب اختلاف نے مل کر ایک عبوری وزیراعظم چن بھی لیا تو اس PM کو مدد تو فوج اور نوکرشاہی اور دوسرے اداروں یعنی عدلیہ، میڈیا کی ہی لینی ہو گی۔ اگر اس بیچارے (ہاں بیچارے) نئے وزیراعظم کو عدلیہ کی طرف سے وہ لسٹ دے دی گئی جس میں فیصلوں پر عملدرآمد کرنے کا کہا گیا ہو تو وہ کیا کرے گا۔ کوئی PPP یا نواز شریف کا چاہنے والا ان فیصلوں پر تو عمل نہیں کرا سکے گا تو پھر؟ زیادہ دباؤ پڑا تو دل کا دورہ بھی پڑ سکتا ہے یا استعفیٰ بھی دیا جا سکتا ہے۔ اگلا عبوری PM تو پھر فخرو بھائی بنائیں گے اور وہ تو ہر عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کے سخت حامی ہیں۔ یہ بھی نظر میں رہے کہ موجودہ فوجی قیادت کراچی کے حالات سے اس طرح واقف ہے جیسے ہر آدمی اپنے ہاتھ کی لکیروں سے۔ جنرل کیانی، ISI کے سربراہ رہے ہیں۔ آج کل جو جنرل صاحب ISI کے سربراہ ہیں وہ کراچی کے کور کمانڈر رہے ہیں اور آج کل جو کور کمانڈر ہیں وہ کراچی ہی میں رینجرز کے سربراہ تھے۔ سارے ہی اہم لوگ کراچی کی ہرتنظیم اور اسکے چھوٹے چھوٹے عہدیداروں کو جانتے اور پہچانتے ہیں۔ اب ان حالات میں اگر اسکاٹ لینڈ یارڈ والے کوئی دھماکہ کر دیتے ہیں تو یہ فوجی لوگ کراچی کو سنبھالنے کی پوری قوت اور معلومات رکھتے ہیں۔ یہ کئی لوگوں سے سن چکا ہوں کہ سفارت کار اور خود فوجی قیادت بھی اس بات پر سوچ بچار کر رہے ہیں کہ آگے آنے والی کراچی کی قیادت کس کے ہاتھ میں ہو گی۔ جو بھی ہو گا وہ ہو گا تو اسی تنظیم کا مگر کون ہو گا۔ اگر گورنر صاحب کو چڑیا کے مطابق جانا ہی ہے تو دوسرا گورنر کس جماعت سے ہوگا اور کیا وہ 12 سال سے ایک پل کا کام کرنے والے ڈاکٹر عشرت کی جگہ لے سکے گا۔
دوسری طرف سوالات یہ بھی ہیں کہ غیر معمولی حالات میں کیا ان لوگوں کو ملک چھوڑ کر جانے دیا جائے گا جن کے پاس نہ صرف اہم اطلاعات ہیں بلکہ جو اربوں کھربوں کے معاملات میں شریک بھی رہے ہیں۔ کون روکے گا اور نہیں تو کون ذمہ داری لے گا ان کے فرار کی۔ کئی تو چلے بھی گئے ہیں۔ ایک وزیر صاحب دبئی سے جمعہ کو کراچی آئے اور ہفتہ کو پھر روانہ ہو گئے۔ کئی دہری شہریت والے تو اب مستقل روانگی کا پروگرام بنا رہے ہیں۔ وزیراعظم راجہ صاحب بیچارے احکامات پر عملدرآمد کراتے پگھلتے جا رہے ہیں مگر لوگ کہتے ہیں وہ خود 48 گھنٹے میں اسمبلی کی تحلیل کا حکم دینے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ آخر جان بھی تو بچانی ہے اور عدالت کا فیصلہ بھی تو موجود ہے، رینٹل کیس میں!
تازہ ترین