• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بکھرے بکھرے ذہنی عنوانات اور بکھرے بکھرے قلبی احساسات کے ٹکڑوں سے جڑا ہوا اظہاریہ پیش خدمت ہے۔ نواز حکومت نے اپنے گزرے پانچ برس میں پاکستان اور پاکستانی عوام کی کوئی خدمت کی یا نہیں؟ اس کا فیصلہ نواز شریف کے سیاسی مخالفین اور مخالف ووٹر نہیں کریں گے، یہ فیصلے وقت اور تاریخ کے ترازو میں تُلا کرتے ہیں۔ بظاہر گزشتہ انتخابات میں عوام کے ووٹ نواز شریف کے سیاسی مخالفین اور ووٹروں کے تناسب سے کسی ایسی شکست کا تاثر نہیں دیتے جس سے نواز شریف کی حکومت پر صرف اور صرف 100حرف ہی بھیجے جائیں۔گزرے پانچ برسوں میں قومی اور صوبائی سطحوں پہ جو ترقی ہوئی وہ کسی ایسے بے بصیرت ہی کو دکھائی نہیں دے گی جس سے قدرت نے ذرا سی نظر بھی چھین لی ہو ورنہ ہر مخالف بھی نواز حکومت کو کم از کم 50 فیصد نمبر تو دے ہی جائے گا۔ یہ گفتگو دراصل میٹرو کے اسٹاپ ٹو اسٹاپ کرائے بڑھانے کے پس منظر میں ہو رہی ہے۔ عمران کا یہ اقدام قطعی طور پر زیادتی نہیں، اس اقدام نے شہباز شریف کی شبانہ روز محنت کے باوجود اُن خامیوں سے جنم لیا ہے جو اُن کے طرز حکومت پہ شروع دن سے چھائی رہیں، مثلاً میٹرو ایک عظیم منصوبہ تھا اس میں کوئی مبالغہ انگیز سبسڈی دینے کی قطعی ضرورت نہیں تھی۔ اسی طرح کے رویے انہوں نے اسپتالوں میں دس روپے کی پرچی یا باغوں میں 2روپے جیسی پرچی ختم کر کے عوام کا کوئی خاص فائدہ نہیں کیا، الٹا ان پیسوں سے کرپشن کے باوجود اداروں کے چھوٹے چھوٹے کاموں کا اتنا نقصان ہوا جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، بہرحال یہ کوتاہیاں اپنی جگہ مگر سیاسی مخالفت میں تحریک انصاف جس ڈگر پر چل پڑی ہے وہ خود اس جماعت کے لئے حکمرانی کا راستہ تنگ کرتا چلا جائے گا ۔ ہمارے سلیم صافی کا کہنا ہے:۔ ’’المیہ یہ ہے کہ یورپ میں اشفاق احمد کو دیکھ کر جج سمیت تمام افراد احتراماً کھڑے ہو جاتے ہیں مگر افسوس کہ ’’نئے پاکستان‘‘میں قلم والے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگی دیکھ کر لوگوں نے ان اساتذہ کے ساتھ سلفیاں بنانا شروع کر دیں۔ اگر یہ افراد سلفیاں بنانے کے بجائے اساتذہ کے ساتھ ہتک آمیز سلوک پر احتجاج کرتے تو نیب کو آئندہ کسی کی اس طرح کی تضحیک کرنے کی ہمت نہ ہوتی ہم پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران اور دیگر اساتذہ سے قوم کی طرف سے معافی کے طلب گار ہیں اور یقین دلاتے ہیں کہ نیب کے تضحیک آمیز سلوک سے ان کی عزت میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ ان کے وقار میں مزید اضافہ ہوا ہے‘‘۔ سلیم صافی یقیناً مجھ 72برس کے عمر رسیدہ خاکسار قلمکار سے عمر میں چھوٹے اور اپنی کالم نگاری کی خوبیوں کے حوالے سے میرے ذہنی اطمینان کا باعث بنے رہتے ہیں۔ یہ جو انہوں نے لکھا 100نہیں 1000فیصد درست ہے بس میں 72,70برس ہونے کے باعث ایک دو باتیں ان کے علم یا یاد دہانی کے لئے عرض کر دینا چاہتا ہوں۔

(1) ایوب خان کے دور سے لے کر پروفیسر مجاہدان کامران کے ہاتھوں میں ہتھکڑیوں تک پاکستان میں اساتذہ کی سرعام تذلیل، بے عزتی، جوتے مارنے یونیورسٹیوں کے اندر گھس کر عزت و وقار کے جنازے نہیں بلکہ نکلے ہوئے جنازوں کو ٹھوکروں اور ٹھڈوں پر رکھنے کی تاریخ موجود ہے اور پاکستان کےحاکموں نے ’’لا اینڈ آرڈر‘‘ کے نام پر جو تاریخ لکھی ہے، اس پر لکھنے والے لکھتے رہیں مگر خاکسار جب بھی ذہنی دبائو میں آتا ہے، عرش بریں کی جانب نظر اٹھاتا اور آس لگاتا ہے کہ نہ جانے طاقتوروں کے طاقتور نے ان سے کیسے نپٹا ہو گا یا کیسے نپٹے گا پھر ڈر جاتا ہوں اور بے عزتی کی یہ تاریخ اس کے سپرد کر دیتا ہوں۔ (2) پاکستان کے ادارے خصوصاً پنجاب میں عام انسان، چاہے وہ امیر ہو یا غریب، سوائے اس کے کہ اس میں غریب کا تناسب قریب قریب 70 فیصد ہے۔ خالصتاً غلام اور بروقت ان کے ہاتھوں عام آدمی کی ’’جان، مال، عزت‘‘ سرخ نشان کی زد میں رہتے ہیں۔ سب سے ہلکی مثال ڈولفن فورسز کی ہے شہباز شریف کی متلون مزاج حکمرانی نے پنجاب کے عام آدمی کی ان فورسز کے سامنے غلامی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی اس لئے عزیزم! اساتذہ کی بے عزتی ہی نہیں یہاں ’’انسان کی تدفین‘‘ کی عجیب داستان ہے اور یہاں کے ریاستی اہلکاروں کا اس سے کبھی بھی جی نہیں بھرا، بھرنے کا کوئی امکان نہیں، اب تو خیر امید کا موہوم سا تاثر بھی باقی نہیں رہا۔ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے اختر مینگل جو سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان بھی رہے کا کہنا ہے ’’وزیراعظم بننا کافی نہیں، لوگوں کی توقعات پر پورا اترنا ضروری ہے، لاپتہ افراد کے لئے ایک سال دیا، گوادر پر اختیار دیں اور مزید چند باتیں‘‘۔ قد اور کردار، دونوں پہلوئوں سے قد آور بلوچ لیڈر سردار عطاء اللہ مینگل کے صاحبزادے اختر مینگل سے گزارش ہے، کیا بلوچستان میں ’’لاپتہ‘‘ افراد کی کہانی صرف اس ایک جملے میں سموئی جا سکتی ہے کہ ’’لاپتہ افراد کے لئے ایک سال دیا‘‘ جو لوگ اس صوبے کے والی وارث بنے رہے کیا یہ جملہ ان کی داڑھ بھی گیلی کر سکتا ہے؟ بلوچستان میں جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے، کیا آپ اس تاریخ کے سیاہ سمندر کو اس ایک جملے میں مقید کر سکتے ہیں؟ جب یہاں ’’سچ‘‘ بولا ہی نہیں جا سکتا تب اس قسم کی ادھوری باتوں سے کیوں حساس لوگوں کا دل ٹکڑے ٹکڑے کرتے ہیں، رہ گیا ’’گوادر پر اختیار‘‘ تو کیا آپ کو گفتگو کے دوران میں یاد نہیں رہا کہ گوادر بھی بلوچستان کا حصہ ہے۔ دوسرا حوالہ بھی حالات کی تاریخ کا ہی ہے۔ ہمارے ہی برادر انصار عباسی نے رنگ روڈ کے ٹھیکے کے پس منظر میں اپنی رپورٹ کو ان نمایاں عنوانات سے عوام کے سامنے رکھا ہے کہ اس معاملے میں سابق سپہ سالار افواج پاکستان جنرل کیانی اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے درمیان کیا مکالمہ ہوا۔ انصار عباسی صاحب کی رپورٹ کے مطابق ’’نکال باہر کرو‘‘ کامران کے متعلق جنرل کیانی کا شہباز سے مکالمہ، رنگ روڈ کے ٹھیکے پر غیر اطمینان بخش کارکردگی پر شہباز نے جنرل کیانی سے بات کی تھی، جنرل کیانی نے کبھی بھائیوں کی سفارش نہیں کی۔ آسٹریلیا کی ہجرت کی خبریں جھوٹی ہیں۔ یہ رپورٹ اور شہباز شریف نے نیب کی حراست میں پیرول پر آ کر قومی اسمبلی میں جو تقریر کی اور اس واقعہ کی جو تفصیلات بیان کیں، دونوں دل کو لگتی اور بالکل درست دکھائی دیتی ہیں، شہباز شریف نے تو اس سلسلے کے دو زندہ کرداروں کے پس منظر میں جناب اسپیکر کے سامنے خود کو پیش کر دیا کہ جب چاہیں کسی بھی طرح ان کی تفصیلات کی تصدیق کر لی جائے۔ بھلا خاکسار کو ایسا کیوں محسوس ہوا؟ صحافت میں تقریباً 60کے قریب برس کا عرصہ گزارنے کے بعد اس ملک کے سیاسی واقعات، اقتصادی زوال، ملک کے دو لخت ہونے سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی تک صحافت کے کارپردازوں کے واقعات کے تحت پاکستانی میڈیا نے جو کچھ کیا، وہ یہ دھرتی جانے اور اس دھرتی پہ بسنے والی یہ مخلوق جانے، اتنا ہی کافی ہے۔

تازہ ترین