• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انڈیا کے شہر ممبئی میں دسویں انٹرنیشنل ٹیکسٹائل کانفرنس کا انعقاد30 نومبر سے یکم دسمبر تک کیا گیا۔کانفرنس میں دنیا بھر کے ٹیکسٹائل ماہرین، معروف عالمی ٹیکسٹائل کمپنیوں کے سربراہان، اعلیٰ حکومتی عہدیداران اور انڈیا بھر سے ٹیکسٹائل ملوں کے مالکان نے بڑی تعداد میں شرکت کی جس میں دنیا میں پولیسٹر یارن کے سب سے بڑے مینوفیکچررز ریلائنس انڈسٹریز کے صدر آر ڈی اودیشی اور انڈیا کی سب سے بڑی ٹیکسٹائل کمپنی کے منیجنگ ڈائریکٹر دلیپ جیوارکا، انڈیا کی وزارت ٹیکسٹائل کے کمشنر اے بی جوشی، انڈین ٹیکسٹائل ایسوسی ایشن کے صدر ڈی آر میتھا، پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت کی نمائندگی اور ایشیاء کے ٹیکسٹائل سیکٹر پر پریذنٹیشن دینے کیلئے مجھے بطور اسپیکر اس کانفرنس میں مدعو کیا گیا تھا۔ کانفرنس میں امریکہ، یورپ، جاپان اور چائنا سمیت دیگر ممالک کے معروف ٹیکسٹائل مشینوں کے مینوفیکچررز نے ٹیکسٹائل کی جدید ٹیکنالوجی پر مقالے پیش کئے اور انٹرنیشنل ٹیکسٹائل مشینری کی نمائش میں اپنی جدید مشینیں متعارف کرائیں۔ اس لحاظ سے یہ کانفرنس نہایت اہمیت کی حامل تھی لیکن مجھے پوری کانفرنس اور نمائش میں شرکت کا موقع نہیں مل سکا کیونکہ ایوان صدر سے مجھے صدر پاکستان کے ساتھ 3 دسمبر کو کوریا جانے کیلئے اسلام آباد بلایا گیا تھا اور مجھے صرف پہلے دن اپنی پریذنٹیشن دے کر اسلام آباد آنا پڑا۔ آج کے کالم میں، میں قارئین سے اپنی پریذنٹیشن جسے کانفرنس کی بہترین معلوماتی پریذنٹیشن قرار دیا گیا ہے کے بارے میں معلومات شیئر کرنا چاہوں گا۔
میں نے اپنی پریذنٹیشن میں پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت اور اس کے دنیا کی ٹیکسٹائل اور ایپریل انڈسٹری میں شیئر کے بارے میں بتایا کہ دنیا کی ٹیکسٹائل میں چائنا کا سب سے زیادہ حصہ 24%، ہانگ کانگ کا 9%، اٹلی 7%، جرمنی 6%، ترکی 4%، انڈیا 3%، پاکستان 2% ہے۔ پاکستان امریکہ، چائنا اور انڈیا کے بعد چوتھا بڑا کاٹن پیدا کرنے والا اور تیسرا بڑا کاٹن کی کھپت والا ملک ہے۔ پاکستان دنیا میں دوسرے نمبر پر کاٹن یارن ایکسپورٹ کرنے والا ملک ہے اور دنیا میں یارن ایکسپورٹ میں ہمارا حصہ 26% ہے۔ اس کے علاوہ ریڈی میڈ گارمنٹس، فیبرک، ہوم ٹیکسٹائل، نٹ ویئر اور ٹاولز ہماری ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کی اہم مصنوعات ہیں۔ پاکستان کا ٹیکسٹائل سیکٹر 15 ملین لوگوں کو ملازمتیں فراہم کرتا ہے اور ملک کی مجموعی ایکسپورٹ میں اس کا حصہ 54% ہے۔ میں نے پاکستان کی ٹیکسٹائل پالیسی 2009-14ء کے بارے میں بھی کانفرنس کے شرکاء کو بتایا جس کے تحت ٹیکسٹائل کی موجودہ 14 بلین ڈالر ایکسپورٹ کو بڑھاکر 2014ء تک 25 بلین ڈالر تک لے جانے کا ہدف رکھا گیا ہے۔ میں نے بتایا کہ پاکستان سالانہ تقریباً 1.4 بلین ڈالر کی ٹیکسٹائل مشینری امپورٹ کررہا ہے جس کی وجہ سے ہماری ٹیکسٹائل صنعت نہایت جدید ٹیکنالوجی کی حامل ہے۔
گلوبل ٹیکسٹائل کے تناظر میں، میں نے بتایا کہ گزشتہ 10 سالوں میں ٹیکسٹائل کی پیداوار مغرب کے ترقی یافتہ ممالک سے ایشیاء کے ترقی پذیر ممالک میں منتقل ہوئی ہے جس میں چائنا، انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش، ترکی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ٹیکسٹائل اور ایپرل کی 2011ء میں مجموعی ٹریڈ 650 بلین ڈالر تھی جس میں سب سے زیادہ گروتھ بنگلہ دیش19% ، ویتنام16%، چائنا اور ہانگ کانگ10%، انڈیا10%، ترکی 3% اور پاکستان 3% قابل ذکر ہیں۔ ایشیاء میں ٹیکسٹائل کے تناظر میں، میں نے کانفرنس کے شرکاء کو بتایا کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری ایشین ممالک کی معیشت کا ایک اہم سیکٹر ہے کیونکہ یہ سیکٹر ان ممالک میں سب سے زیادہ ملازمتیں اور زرمبادلہ کمانے کا ذریعہ ہے۔ بنگلہ دیش میں ان کی ٹیکسٹائل کا جی ڈی پی میں حصہ 12%، پاکستان کا 8.5%، ترکی کا10%، چائنا کا 7.11% اور انڈیا کا 4% ہے جبکہ مینوفیکچرنگ سیکٹر میں ٹیکسٹائل کا بنگلہ دیش میں حصہ 40% اور پاکستان میں 46% ہے۔ اسی طرح بنگلہ دیش کی ایکسپورٹ میں ٹیکسٹائل کا حصہ 88.10% اور پاکستان میں 53.79% ہے۔ چائنا کی مجموعی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ248 بلین ڈالر، انڈیا 29.16 بلین ڈالر، ترکی 24.6 بلین ڈالر، بنگلہ دیش 21.5 بلین ڈالر، ویتنام 16.8 بلین ڈالر اور پاکستان 13.8 بلین ڈالر ہے۔ اس لحاظ سے ایشیاء عالمی ٹیکسٹائل اور ایپرل ٹریڈ میں 38% شیئر کے ساتھ ایک نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ گلوبل ٹیکسٹائل اینڈ ایپرل انڈسٹری ویژن 2015ء کے مطابق دنیا کی ٹیکسٹائل اور ایپرل کی موجودہ ٹریڈ 650 بلین ڈالر سے بڑھ کر 2015ء تک 805 بلین ڈالر تک ہوجائے گی۔ میں نے ایشین ممالک کی ٹیکسٹائل انڈسٹری پر تجزیہ کرتے ہوئے بتایا کہ انڈیا نے ٹیکسٹائل کی مصنوعات میں تنوع کرکے اپنی ایکسپورٹ میں اضافہ کیا ہے، ٹیکنیکل، جیو ٹیکسٹائل جیسی نئی مصنوعات میں انڈیا دیگر ایشین ممالک کے مقابلے میں آگے ہے۔ انڈونیشیا نے اپنی بڑی مقامی مارکیٹ سے استفادہ کیا ہے، پاکستان نے کورس کاؤنٹ یارن اور اس سے تیارکردہ مصنوعات مثلاً ڈینم فیبرک، بیڈلینن وغیرہ میں ترقی کی ہے لیکن ان ممالک میں مزدوروں کی اجرت ، بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافے سے ان کی پیداواری لاگت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس سے چائنا سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ چائنا کے علاوہ دیگر ایشین ممالک میں ٹیکسٹائل کے زیادہ تر درمیانے اور چھوٹے درجے کے یونٹس ہیں۔
میں نے اپنی پریذنٹیشن میں بتایا کہ دنیا کی اسپننگ مشینری کا 96% خریدار ایشیاء اور اوشیانا ہے، دنیا کے 12.5 ملین اسپنڈلز میں سے 12 ملین اسپنڈلز ایشیاء میں خریدے گئے ہیں جس میں سے 8 ملین اسپنڈلز چائنا اور 2.4 ملین اسپنڈلز انڈیا نے خریدے ہیں۔ کپڑے بنانے کی لومز میں بھی چائنا اور انڈیا سب سے آگے ہیں۔نٹنگ مشین کی خریداری میں ایشیاء اور اوشیانا کا شیئر 87% ہے، اس لحاظ سے چائنا اور انڈیا آنے والے وقت میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کے بھی اہم پلیئر ہوں گے۔ مستقبل میں ایشین ٹیکسٹائل ممالک کو درپیش چیلنجز کے بارے میں، میں نے بتایا کہ چائنا میں مزدوروں کی اجرتیں 20% سالانہ بڑھ رہی ہیں۔ اسی طرح ایشین ممالک میں بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لہٰذا جاپان اور کوریا کی طرح چائنا بھی ٹیکسٹائل ٹریڈ سے نکل کر اپنی ہائی ٹیکنالوجی ایکسپورٹ پر توجہ دے گا اور خطے میں دیگر ایشین ممالک چائنا کی ٹیکسٹائل ٹریڈ کا شیئر لے سکتے ہیں۔ صدر پاکستان نے اپنے حالیہ دورہ کوریا میں Exim بینک کے چیئرمین سے ملاقات میں مستقبل میں چائنا کا شیئر حاصل کرنے کیلئے پاکستان میں ٹیکسٹائل کی صنعتی یونٹوں کے پھیلاؤ کیلئے سرمایہ کاری کی درخواست کی ہے۔ سیول میں صدر پاکستان کی میٹنگ کے بعد میں نے ان کی اس تجویز پر مبارکباد پیش کی اور بتایا کہ صدر کی اس تجویز سے ہماری ٹیکسٹائل صنعت کو نہایت فروغ ملے گا۔
دنیا میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے خطے ایشیاء (جس کی آبادی تقریباً 4.1 بلین ہے) میں ٹیکسٹائل کی فی کس کھپت عالمی کھپت سے نہایت کم ہے۔ امریکہ میں ٹیکسٹائل مصنوعات کی فی کس کھپت 21 کلو گرام اور یورپ میں 17.7 کلوگرام ہے، اس کے مقابلے میں ایشیائی ممالک جاپان میں فی کس کھپت 8.5 کلوگرام، چائنا میں 5.5 کلوگرام، پاکستان میں 4 کلوگرام اور انڈیا میں 2.8 کلوگرام ہے۔اس طرح دنیا میں ٹیکسٹائل مصنوعات کی فی کس کھپت اوسطاً 6.8 کلوگرام ہے۔ ہمیں ان ممالک میں ٹریڈ بڑھانے کیلئے ان ممالک کی ٹیکسٹائل مصنوعات پر کسٹم ڈیوٹی کو کم کرنا ہوگا۔ ایران میں ٹیکسٹائل کی امپورٹ پر 120% ڈیوٹی عائد ہے جس کی وجہ سے اس کی ایشین ممالک سے ٹیکسٹائل ٹریڈ میں فروغ ممکن نہیں۔ ایشین ممالک کو عالمی ٹیکسٹائل مارکیٹ میں اپنا شیئر بڑھانے کیلئے مشترکہ ٹیکسٹائل مارکیٹ اور جوائنٹ حکمت عملی تیار کرنی ہوگی تاکہ ہم ایک دوسرے کو اپنا حریف سمجھنے کے بجائے ان ممالک میں موجود موقعوں کو استعمال کرکے اپنے مارکیٹ شیئر میں اضافہ کرسکیں کیونکہ مستقبل کے ویژن میں مصنوعات کی قیمتوں کو کم کرکے بزنس حاصل کرنے کے بجائے باہمی اشتراک سے ہمیں اپنی تیکنیکی صلاحیتوں، برانڈنگ اور مارکیٹنگ نیٹ ورک کو استعمال کرنا ہوگا۔ کانفرنس میں ڈینم انڈسٹری پر ایک پینل ڈسکشن بھی رکھا گیا جس میں ایشیاء کی سب سے بڑی ڈینم مل کے چیف ایگزیکٹو عامر اختر، موفت لال، ایٹکو ڈینم مل کے منیجنگ ڈائریکٹرز اور میں نے پاکستان کی ڈینم انڈسٹری کی نمائندگی کی جس کے بارے میں، میں اپنے آئندہ کالم میں تحریر کروں گا۔
تازہ ترین