• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صدر زرداری فرانس میں ملالہ کانفرنس میں شرکت کے لئے لندن پہنچ گئے ہیں۔ صدر نیک دل، فرشتہ صفت اور قوم کی بیٹیوں کے کسٹوڈین بھی ہیں، اُن کی غیرت گوارا نہیں کرتی کہ پاکستان کی کسی بیٹی کو گولی تو کجا کانٹا بھی لگے، فرانس میں بے شمار ملالاؤں کو آئے دن ایک مختصر سا حجاب بھی اوڑھنے نہیں دیا جاتا اور تنگ کیا جاتا ہے، وہ انسانی حقوق کی اس پامالی کی طرف بھی توجہ دلوائیں اور اُس ملالہ کے بارے میں نعرئہ فریاد ہی بلند کر دیں جو 86برس کے لئے پابند سلاسل کر دی گئی ہے اور ہمارے ہاں بلب جلانے کے لئے بجلی نہیں مگر عافیہ کو ہر روز جیل میں بجلی کا کرنٹ لگایا جاتا ہے۔ اگر وہ اپنی اس ملالہ کو چھڑا لیں تو کیا پتہ وہ آئندہ انتخابات جیت جائیں اور اگر خدانخواستہ ہار گئے تو عافیہ کی آہ نے عرش کو چھو لیا ہو گا۔ صدر زرداری اقبال کے اس شعر پر ہی غور کر لیں #
میں بھی مظلومیِ نسواں سے ہوں غم ناک بہت
نہیں ممکن مگر اس عقدئہ مشکل کی کشود
فرانس کیوں مسلمان عورتوں کے گلے کی پھانس بن رہا ہے، وہ یہ حجاب تنازع کو ختم کرے اور پاکستان میں عورت جس طرح عدم تحفظ کی فضا میں جی رہی ہے، اسے بے خطر بنائے، ملالہ ہمارا چاند کا ہالہ ہے اُس نے گولی کھا کر ہر پاکستانی عورت کو تحفظ دینے کے لئے پہلے اپنوں پھر دوسروں کی توجہ دلائی ہے، وہ اس عمر میں بھی افلاطون کے مکالمات لکھ سکتی ہے، ہم نے صنف ِ نازک کا مطلب صنف ِ کمزور کیوں لے لیا ہے، ملالہ ایک نہیں کروڑوں ہیں، ملالہ یوسف زئی جلدی سے ٹھیک ہو کر پاکستان کے دیہات میں دیکھو کہ ہر ملالہ کے جگر کے تیر ستم پا رہے۔ اُن کے سکولوں میں مویشی باندھ دیئے جاتے ہیں مگر وہاں بچیوں کو پڑھنے نہیں دیا جاتا کچھ لوگ مذہب کی آڑ میں بھی قوم کی ملالاؤں کو نشانہ ستم بناتے ہیں جبکہ اُن کے پیمبر نے ہر مرد عورت پر یکساں حصولِ علم فرض قرار دیا ہے۔
#####
بھارتی وزیر داخلہ نے کہا ہے : آئندہ کرکٹ سیریز کے لئے پاکستانیوں کو سخت چھان پھٹک کے بعد ویزے جاری کریں گے، پاکستانی کرکٹ شائقین ہوں یا دوسرے پاکستانی سب کو جانچ پڑتال کے سخت ترین عمل سے گزرنا ہو گا۔ ایک زمانہ تھا کہ بھارت ہر وہ کام کرتا تھا آنکھیں بند کر کے جو سابق سوویت یونین آف رشیا کرتا تھا مگر آج اُس نے روس کی بیعت چھوڑ کر یونائیٹڈ سٹیٹس آف امیرکا کے دست ِ حق شکن پر بیعت کر لی ہے، اسی لئے اُن پاکستانیوں کو وہ بھارت داخل ہونے دے گا جو جانچ پڑتال کے سخت ترین عمل سے گزر کر سرخرو ہو ں گے اور ہماری جانب سے دمادم یہ صدا بھارتی باشندوں کو دی جا رہی ہے # لنگ آ جا پتن واہگے او یار ! ہم تو بھارت سے پیار کرتے ہیں کہ وہ ہمارا ہمسایہ ہے، اور ہر بھارتی کو جی آیاں نوں کہتے ہیں، مگر اب یہ جو بھارتی وزیر داخلہ نے ہمیں ایک فل ڈوز دی ہے تو اس کے لئے ہمارے حکمران حکیموں کو کوئی نسخہ ٴ کیمیا تیار کر لینا چاہئے۔ بھارت کے عوام کو بھی اپنے وزیر داخلہ ششل کمار شندے کے اس سخت ترین بیان پر رنج پہنچا ہو گا، اس لئے کہ دو ملک بنے ہیں ایک ہی تاریخ کو دو نفرتیں تو وجود میں نہیں آئیں، یہ ششل کمار شندے، اتنے مندے میں نہ پڑیں اور اگر چھان بین کے نام پر پاکستانیوں کو بے لباس کرنا ہے، تو یہ عمل واہگہ پر پاکستانی وزارت داخلہ بھی اختیار کر سکتی ہے۔ جب دونوں ہمسایہ ملکوں کے لوگ راضی تو کیا کرے گا یہ ششل کمار قاضی، پاکستان اپنے پیارے راج دلارے ہمسایہ کے ساتھ پیار محبت کرنا چاہتا ہے اور ہندوستانی عوام کی بھی یہی اکشا ہے پھر یہ شردھا لو وزیر کیوں اتنا سخت بنتا ہے کہ توڑا جا سکے۔
#####
وزیر اعظم پرویز اشرف نے کہا ہے : جعلی ووٹ ختم، اب تحصیلدار اور پٹواری کچھ نہیں کر سکے گا۔ وزیر اعظم راجا جی کے منہ میں گھی شکر، ویسے وہ جب بھی بولتے ہیں یوں لگتا ہے کہ عندلیب ِ گلستانِ زرداری نے گلابوں کا تختہ دیکھ لیا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم (موجودہ) شیریں گفتار اور منکسر المزاج ہیں، اُن کی اس اچھی بات کا ہمیں تو کم از کم سو فیصد یقین ہو گیا ہے، اس لئے ہم ان پر اور صدر محترم پر ایک ہی شعر کے دو مصرعے برابر تقسیم کرتے ہیں، وزیر اعظم کے لئے یہ مصرع مناسب رہے گا کہ ع خلافِ شرع مرا شیخ تھوکتا بھی نہیں۔ اور صدر گرامی قدر کی نذر یہ مصرع # مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں۔ اس شعری پیشکش سے ہمارے نظام میں وہ توازن پیدا ہو گا جو نظام سقہ کو بھی نصیب نہ ہوا۔ یہ اب پرانی بات ہے کہ راجا کی آئی تھی بارات اور کوئی ساری رات ناچنے میں مگن رہی تھی، اب تو وہ انتخابات بھی جنم دینے والے ہیں، اس لئے پوری قوم امید سے ہے کہ ایک ایسی حکومت قائم ہو گی جس میں شیر ایک گھاٹ اور بکریاں دوسرے گھاٹ پر پانی پئیں گی۔ حکومت تو موم کی ناک ہے آج اِدھر کل اُدھر
جب راجا جی کہیں گے # گوریئے ! میں جانا پردیس
تو گوری کہے گی # میں نئیں جانا پردیس
#####
جرمن رومن کیتھولک چرچ کا بیان ہے کہ جرمنی میں 66پادری بچوں کے ساتھ زیادتی کے مرتکب پائے گئے۔ یہ اعداد و شمار صرف ایک عشرے کے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگ کہا کرتے تھے : دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی مگر اب یہ محاورہ بھی یوں بدلنا ہو گا کیونکہ چاروں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی ، ایک تنہا جرمنی ہی نہیں مغرب کے اکثر پادریوں کی ایسی حرکتیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ یہ عبادت گاہوں میں ہی نہیں ہر جگہ پر ایک سنگین غیراخلاقی جرم ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ ہٹلر کی قوم ان 66پادریوں کو سنگسار کرتی ہے یا ان کا سنگار کرتی ہے۔ عبادت گاہیں سانجھی ہوتی ہیں اور شیطان انسانوں سے مقدس جگہوں پر ناکردنی کرا کے بہت خوش ہوتا ہے۔ لگتا ہے کہ ابلیس نے عبادت گاہوں میں پَرے جما لئے ہیں اور وہ جبریل  سے کہہ رہا ہے #
خضر  بھی بے دست و پا الیاس بھی بے دست و پا
میرے طوفاں یم بہ یم، دریا بہ دریا، جُو بہ جُو
انسان خطا کا پتلا ہے، اُسے جائز طریقے سے کسی پتلی ہی سے باقاعدہ نکاح کر لینا چاہئے، چاہے وہ جرمنی یا مغرب کا کوئی پادری ہی کیوں نہ ہو، لیکن یوں نہیں کرنا چاہئے جیسے جرمن پادریوں نے کیا۔ باقی یہ بھی ایک مغالطہ ہے کہ گناہ عبادت گاہ میں کرنا زیادہ گنا ہ ہے۔ گناہ، آخر گناہ ہے چاہے مسجد میں ہو چاہے مندر میں یا چرچ میں اور چاہے عبادت گاہوں سے باہر ہو۔ البتہ توبہ کرنے سے گناہ دھل جاتے ہیں کیوں کہ انسان بہک بھی جاتا ہے اور وہ بے اختیار ہو جاتا ہے جیسا کہ بلبل شیراز نغمہ سنج ہے #
گناہ گرچہ نبود اختیارِ ما حافظ
تو در طریق ادب کوش و گو گناہ من است
(اے حافظ ! گناہ اگرچہ میرے اختیار میں نہ تھا تاہم تم حد ادب میں رہو اور یہی اعتراف کرو کہ میرا ہی گناہ ہے)
تازہ ترین