• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان بوجوہ آج جن معاشی مشکلات کا شکار ہے، بیرونی قرضوں کے بھاری بوجھ، درآمدات کے مقابلے میں برآمدات کے بہت زیادہ ہونے، زرمبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے کمی اور روپے کی قدر کا گھٹتے چلے جانا وہ مسائل ہیں جنہیں مستقل بنیادوں پر حل کیا جانا چاہیے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام غیر ضروری درآمدات پر پابندی عائد کی جائے۔ زرعی اور صنعتی پیداوار کو بین الاقوامی منڈیوں میں مسابقت کے لائق بنانے کے لئے کھاد، بجلی، گیس وغیرہ ارزاں نرخوں پر فراہم کرکے اشیاء کی لاگت میں کمی لائی جائے۔ ٹیکس نیٹ کو ان تمام شہریوں تک وسیع کیا جائے جن کی آمدنی قابل ٹیکس ہے اور ٹیکس وصولی کے نظام کو زیادہ سے زیادہ آسان بنایا جائے ۔ ظاہر ہے کہ ان اقدامات کے لیے وقت درکار ہے جبکہ ملک کو مالی وسائل کی فوری ضرورت ہے۔موجودہ وفاقی حکومت نے اس مقصد کے لئے سخت شرائط پر قرض فراہم کرنے والے ادارے آئی ایم ایف کے پاس جانے سے پہلے دوست ملکوں سے تعاون کے حصول کی کوشش کرنے کا فیصلہ کیا جو بلاشبہ قابل فہم ہے اور یہ امر انتہائی طمانیت بخش ہے کہ ہمارے دوست مشکل وقت میں پوری کشادہ دلی سے ہمارے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں۔سعودی عرب کے بعد چین اور متحدہ عرب امارات نے خوش آئند یقین دہانیاں کرائی ہیں۔ پاکستان میں چین کے سفیریاؤجنگ اورنائب سفیر یاؤلی جیان نے جمعہ کو وزیراعظم عمران خان کے دورہ چین اور سی پیک منصوبے پربریفنگ دیتے ہوئے غیر مبہم الفاظ میں واضح کیا ہے کہ چین پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔پاکستان کے لیے مالی تعاون کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ان کا ملک دو ارب ستر کروڑ ڈالر کی رقم پہلے ہی فراہم کرچکا ہے جبکہ بڑے پیمانے پر مزید مالی تعاون بھی کیا جائے گا۔ چینی سفیر نے پاکستانی معیشت میں چینی سرمایہ کاری بڑھانے اور سی پیک کے تعلق سے پاکستان میں پائے جانے والے تمام تحفظات دور کرنے پر مکمل آمادگی ظاہر کی ۔ ان کے مطابق چین سی پیک کے بائیس منصوبے انیس ارب ڈالر کی لاگت سے مکمل کرے گا جبکہ اب تک ان منصوبوں کے ذریعے 75 ہزار پاکستانی شہریوں کو روزگار مہیا ہوا ہے اور منصوبوں کی تکمیل تک مزید سات لاکھ افراد کو روزگار میسر آئے گا۔ یاؤ جنگ اور ان کے نائب نے پاکستان کی خواہش کے مطابق سعودی عرب سمیت کسی بھی ملک کی سی پیک میں شمولیت کا خیرمقدم کیا جس کے بعد اس حوالے سے پائے جانے والے شکوک و شبہات دور ہوجانے چاہئیں۔ پاکستان کے ساتھ دوستوں کے تعاون کے ضمن میں گزشتہ روز ہی ایک اور اچھی خبر متحدہ عرب امارات سے ملی ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے مطابق امارت پاکستان میں آئل ریفائنری اور جدید ترین ایل این جی ٹرمینل کے قیام کے علاوہ مالی امداد کی فراہمی پر بھی غور کرے گا۔یہ بات انہوں نے امارات کے ایک اعلیٰ سطحی وفد سے ملاقات کے بعدمیڈیا کو بتائی۔ مشکل وقت میں دوست ممالک ملکوں کی جانب سے تعاون کی یہ فراخ دلانہ آمادگی اہل پاکستان کے لیے ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں کے مترادف ہے ۔ تاہم پاکستان کو ہر حوالے سے اپنے پیروں پر کھڑا کرنے اور امداد لینے کے بجائے امداد دینے والا ملک بنانے کے لیے ضروری ہے کہ تمام معاملات میں میرٹ اور شفافیت کا مکمل اہتمام کیا جائے، قومی وسائل کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے ہر قسم کی جانبداری سے پاک احتساب کا ایسا بے لاگ نظام تشکیل دیا جائے جسے کسی مخصوص جماعت یا خاندان کے خلاف انتقامی کارروائی کے ہتھیارکے طور پر استعمال نہ کیا جاسکے۔ قومی وسائل لوٹنے والے خواہ اپوزیشن میں ہوں یا حکومت کی صفوں میں، صنعت کار ہوں یا جاگیر دار، جج اور جرنیل ہوں یا میڈیا پرسنز، احتساب کا یہ ادارہ سب کے خلاف یکساں توانائی کے ساتھ حرکت میں آئے تاکہ ملک حقیقی معنوں میں ہر طرح کی کرپشن سے نجات پاسکے جو ہماری موجودہ معاشی ابتری کا اصل سبب ہے۔ مستقل بنیادوں پر معاشی بہتری کے اقدامات اسی صورت میں مؤثر ہوسکتے ہیں ورنہ کتنے بھی مالی وسائل میسر آجائیںان کی حیثیت چھلنی میں پانی بھرنے کی کوشش سے زیادہ نہ ہوگی ۔

تازہ ترین