• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترقی پذیر دنیا میں جوملک اپنے بیش بہا قدرتی وسائل، مختلف النوع ماحول اور ذہین و محنتی افرادی قوت کے باعث ترقی یافتہ ملک بننے کی صلاحیت رکھتاہے، اس کا آئینی نام ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ ہے۔ یہاں ابتدا سے منتخب، نیم منتخب، فوجی اور ملٹری۔سول مکس حکومتیں ہیں لیکن مملکت کا نام یہ ہی رہا جبکہ اپنی 70سال کی تاریخ میں پاکستان اس (اسلامی جمہوریہ) کی مخالف سمت میں سفر کرتارہا۔ اگریہ سرسید و اقبال کے وژن کے مطابق اور بابائے مملکت کے اٹل ارادے اوربے مثال عملی سیاسی جدوجہد کے نتیجے میںعظیم کامیابی کی مطابقت سے ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ بنتا تو پاکستان نے سماجی انصاف و احتساب، امن و حقیقی عوامی خوشحالی اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کی حامل مملکت ہونے کے حوالے سے ترقی یافتہ ہی ہونا تھا، جو اسٹیٹس کو کی ماری ترقی پذیر دنیا میں اپنے اسلامی تشخص کے ساتھ لازماً جدید اورفلاحی بھی ہوتا۔ لیکن اس کے برعکس 70سالہ پاکستان، الیکشن 2018تک دنیا کے رسوائے زمانہ کرپٹ ترین ممالک میں شامل رہا (نکلا اب بھی اس فہرست سے نہیں ہے) تاہم اسٹیٹس کے چٹخنے اور اب پاش پاش ہونے کےجاری عمل کی جو انہونی، دیانتدار قیادت کے بذریعہ ووٹ برسراقتدار آنے سے ہوئی، پھر جس طرح مطلوب احتساب کی قدرتی راہ ہموار ہونے سے یہ عملاً ٹاپ ٹو ڈائون ممکن ہوا، اس کے متوازی اب نئی عمران حکومت کے پاکستان کو کرپشن فری اور شفاف بنانے کے حکومتی اقدام نے پاکستان کے اسلامی جمہوریہ بننے کی امید پیدا کردی ہے، جو بڑھ رہی ہے کہ پاکستان نے خود کو اپنے قیام کے مقاصد کے مطابق تشکیل دینے کی راہ لے لی ہے۔ ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ کے رسوائے زمانہ اسٹیٹس کو (نظام بد) کو ہماری جن دو روایتی سیاسی خاندانی حکومتوں، نون لیگ اور پیپلزپارٹی نے اپنے لئے عشرہ کفارہ کو بدترین جمہوریت کا عشرہ (2008-18) بناکر انتہا پر پہنچایا ہے۔ ان کے سابق حکومتی و جماعتی قائدین کا احتساب بمطابق آئین و قانون و بذریعہ عدلیہ و نیب تو جاری ہے۔ جس میں ٹاپ بیورکریٹس اور بڑے اسکینڈلز اور سرکاری محکموں کے متوازی بنی کمپنیوں کے فرنٹ مین تک تو وسعت آگئی ہے، خود برسراقتدار حکومت کی طرف سے بھی قابل احتساب احتسابی عمل کی زد میں آرہے ہیں اور ’’ان ٹچ ایبل‘‘ بھی عام شہریوں کی صفوں میں آگئے اور آتے دکھائی دے رہے ہیں۔

نئی عمران حکومت کے کچھ اناڑی اقدامات، کمزور ٹیم اور ڈھیلے آغاز کے عام تاثر سے نیب زدہ اپوزیشن نے جو بغلیں بجانا شروع کی تھیں اور دو ماہ میں ہی حکومت کی ناکامی اور نااہلی کے جو فتوے جاری ہونے شروع ہوئے تھے، وہ وزیراعظم خان کی بین الاقوامی قبولیت، ان کے غیرملکی دوروںمیں ان کی نتیجہ خیز پذیرائی سے ماند پڑ گئی ہیں۔ اب حکومت سنبھلتی اور آگے بڑھتی معلوم دے رہی ہے۔اس کے بعد یہ اٹل حقیقت اور واضح ہوتی جارہی ہے کہ پاکستان، عمران خان کی مسلمہ دیانت اور عوام کی مشکلات کی فکر اپنے عزائم کو عمل میں ڈھالنے کاکمال یقین، پھر ان کی شخصیت کی مخصوص خودی اوروقار کا بڑا بینی فشری بننے والا ہے۔ خطے کے مسلم ممالک کی حکومتوںمیں تنازعات کے حوالے سے ان پر بطور ثالث اعتماد اس کی ایک بڑی علامت ہے۔ ان ممالک کی وزیراعظم عمران سے قربت ہر دو طرف کی مشکلات کوکم ترکرتے ہوئےختم کرنے میں پاکستانی قائد کا سفارتی نوعیت کاامکانی کردار واضح ہوتا جارہا ہے۔

جہاں تک وزیراعظم کا پاکستان کوکرپشن فری بنانے کا مشکل ترین ہدف حاصل کرنے میںکامیابی کے امکانات کا سوال ہے، وہ تو متذکرہ بڑی سفارتی کامیابیوں، جو پاکستان کو تشویشناک اقتصادی بحران سے نکالتی معلوم دے رہی ہیں، سے قبل بھی وہ پرعزم تھے کہ انہوں نےملک کو موجود بدتر صورت پر پہنچانے والے قابل احتساب ملزمان کو کڑے احتساب سے ضرور گزارنا ہے۔ اب تو وہ اور زیادہ پراعتماد اور پرعزم ہوگئے ہیں۔ سو، عمران حکومت کرپٹ نظام کے آئین و قانون سے متصادم ان بدعنوان ذرائع کی طرف توجہ دیتی معلوم ہورہی ہے جس میں عوام الناس کی سطح پر عام شہری کرپٹ سرکاری انتظامی مشینری کے ذریعے برسوں سے ستایا جارہا ہے۔ گویا تھانہ کچہری کلچر پر ہاتھ پڑتا معلوم دےرہا ہے۔ ہے تو جان جوکھوں کا کام کیونکہ اس کے نتیجے میں ملک بھر کے لاکھوں کرپٹ سرکاری کارندوں اور ان کی سرپرست افسرشاہی کی بہتی گنگا خشک ہوتی ہے۔ ایسے میں ناتجربہ کار حکومت کی بڑی منظم اور ایک سے بڑھ کر ایک حربے سے مزاحمت ہوگی۔ حکومت کو موجودہ بیوروکریسی میں بمشکل جو بااعتماد افسر میسر آئے ہیں، انہیں انسداد کرپشن کے بڑے بڑے ٹاسک پہلے ہی سونپ دیئے گئے حتیٰ کہ دائرہ دبئی سے لے کر برطانیہ تک پھیل گیا ہے کہ لوٹا ہوا جو پیسہ بیرون ممالک مختلف شکلوں میں پہنچایا گیا، اس تک کیسے رسائی کی جائے، اس کا ریکارڈ کیسے حاصل کیا جائے، کرلیا جائے تو ان سے فائدہ اٹھانے کے لئے بیرونی حکومتوں کا تعاون کیونکر حاصل کیا جائے۔

ادھر اپنے کام کے ماہر اور وفاقی کابینہ کے فطین رکن وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے کرپشن اور بدعنوانی کے خاتمے کے لئے نیا قانون لانے کا اعلان کردیا ہے۔ انہوں نے میڈیا بریفنگ میں توقع ظاہر کی ہے کہ تمام جماعتوں کو نیاقانون خوشدلی سےقبول کرنا چاہئے۔ توقع ہے کہ اس قانون میں عام شہری کو رشوت کی لعنت سے نجات کا اہتمام کیا جائے گا، جیسا کہ آج بلدیاتی نظام بحال ہونے پر بھی پیدائش و موت کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے، نکاح نامہ اور علاقہ رہائشی ہونے کی تصدیق، ڈرائیونگ لائسنس کا حصول ایک بڑے فیصدمیں رشوت کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ جہاں تک یوٹیلیٹیز کے کنکشن جیسے (بجلی ، پانی گیس وغیرہ) کا طے شدہ قواعد و ضوابط کے مطابق حاصل کرنے کا تعلق ہے، یہ تو بھاری رشوت کے بغیر ممکن ہی نہیںرہا۔ ایسی رشوت کے انسداد کے لئے کوئی ہمہ گیر اور قابل عملدرآمد قانون لایاجاتا ہے تو یہ عوام کو یکدم بہت بڑا ریلیف دے گا، یہ وہ عظیم حکومتی اقدام ہوگاجو ملک کو اقتصادی بحران سے نکالے بغیر کیا جاسکتا ہے اور اس سے عام شہری بے پناہ ریلیف محسوس کرے گا۔ تھانوں میں بغیر رشوت و سفارش کے ایف آئی آر کا اندراج بھی اسی زمرے میں آتاہے۔ اصل بات ہے کہ قانون کتناجاندار اور کتنا قابل عملدرآمد ہے اور اس کی خلاف ورزی پر بدعنوان سرکاری کارندے کتنی جلدی پکڑ میںآتے ہیں۔ اپوزیشن کسی ایسے قانون کی مزاحمت کسی بھی بہانے سے کرے تو صدارتی آرڈیننس کے ذریعے سے نافذ کردیاجائے ، اس کا بے پناہ اور جائز فائدہ حکومت کو ہوگا۔ نیب زدہ پارلیمانی اپوزیشن نے اگر ایسے کسی قانون کے خلاف مزاحمت کی تو بڑے اورمزید سیاسی خسارے سے دوچار اور حکومت سرخرو ہی ہوگی کہ کرپشن نے ہی آج پاکستان کو یہ دن دکھائے ہیں کہ عوام سخت پریشان اور قومی اقتصادیات تباہ ہوچکی ہے اور پاکستان کو سنبھالنے کا انحصار دوست ممالک پر کیا جارہا ہے۔

تازہ ترین