• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مفت خور معیشت کا گزارہ قرض کی مے پہ نہیں ہوگا تو گھر کی زبوں حالی کا کیا بنے گا؟ لیکن مفت خوری کی شیخیاں دیدنی ہیں کہ کاسہ گدائی بڑھانے پہ غیرت سے مر جانے والوں کو کوئی اُن کی قسمیں کیا یاد دلائے! وزیراعظم عمران خان کے پہلے دورہ سعودی عرب اور ایک اعلیٰ سطحی سعودی وفد کی پاکستان آمد کے بعد معاملات طے نہ پانے کی افسردہ خبریں دی گئی تھیں کہ بدلے میں جو تقاضے کیے جا رہے تھے وہ پاکستان کے اسٹرٹیجک اور علاقائی مفادات سے لگا نہیں کھاتے۔ لگتا تھا کہ ”قومی حمیت“ ابھی ایسی شرمندہ نہیں ہوئی تھی۔ مگر، صبح شام بدلتے بیانات اور عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) کے پاس جانے نہ جانے کی اُلجھن نے شیئر اور کرنسی مارکیٹ کے ایسے چھکے چھڑائے کہ لگا جیسے مالیاتی سونامی آئی کہ آئی۔ ایسے میں بیچاری حمیت بس سٹپٹا کے رہ گئی۔ اچانک ایک منحرف سعودی صحافی جمال خوشقجی کے ترکی میں سعودی قونصل خانے میں بہیمانہ قتل پہ جیسے آسمان ٹوٹ پڑا اور ہر طرف سے انگلیاں اصلاح کے روحِ رواں پہ اُٹھنے لگیں۔ ایک طرف تُرکی کے سلطان اردوان نے آسمان سر پہ اُٹھا لیا تو دوسری جانب عین اس موقع پر ریگستان میں عالمی سرمایہ کاری کے لیے ڈیوس (Devos)کا اسٹیج سجا تھا۔ لیکن امریکہ اور مغربی ممالک کی حکومتیں اور بڑی کاروباری کارپوریشنز کے لیے واشنگٹن پوسٹ کے سعودی کالم نگار کے خوفناک قتل کے باعث اس اہم کاروباری کانفرنس میں شرکت کی خفت اُٹھانا ممکن نہ رہا اور اسٹیج تقریباً خالی ہو گیا۔ (گو کہ امریکی سیکرٹری خزانہ نے آخری وقت میں شرکت بھی کی اور اس کے ساتھ ہی ٹرمپ نے برادر حکومت کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کا عندیہ بھی دے دیا اور شاید بلیک میل کرنے کے لیے)۔ اب لے دے کے اُردن کے شاہ اور خلیج کے بھائی بند شیوخ رہ گئے اور ہمارے وزیراعظم جو بقول اُن کے بہت ہی شدت سے قرض کی مے کے طالب تھے۔ اوپر سے میزبانوں کا عالمی سرپرست صدر ٹرمپ تیل کی قیمت کم کروانے اور پیداوار بڑھانے کے لیے اس اندوہناک واقعے کو استعمال کرتے ہوئے ہمارے برادر ملک کے بازو مروڑنے پہ تلا تھا۔ اور کچھ روز پہلے صدر ٹرمپ ہمارے بھائیوں کو یہ خوفناک یاددہانی بھی کرا چکا تھا کہ امریکی فوجی پشت پناہی کے بغیر یہ دو ہفتے بھی برقرار نہیں رہ سکتی۔ ایسے میں ہمیشہ ہماری تنگ دستی میں مدد کرنے والے دیرینہ شفیق ملک کی متلاشی نگاہیں اسلامی دُنیا کی واحد نیوکلیئر پاور اور سب سے بڑی فوجی طاقت پہ پڑنی ہی تھیں۔ اور جیسا کہ میں نے گزشتہ کالم میں پیشین گوئی کی تھی کہ برادر ملک کے مخدوش سفارتی حالات میں عمران خان کا ستارہ خوب چمکے گا اور ایسا چمکا کہ پھر سے اپنی کھڑکی سے باہر ”تبدیلی آئی رے“ کے فلک شگاف ترانے سُنائی دے رہے ہیں۔ غیب سے من و سلویٰ کے برسنے سے اگر گھر کا چولہا وقتی طور پر گرم ہو جائے تو چند ایک سچے معیشت دانوں کی نکتہ چینی کو کوئی کیوں درخورِ اعتنا سمجھے۔

خیر سے برادر ملک نے تین ارب ڈالرز اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے تیزی سے خالی ہوتے ہوئے زرِمبادلہ کے خانے میں سال بھر کے لیے بطور زرِ ضمانت رکھ دینے اور تین سال کے لیے تین ارب ڈالرز سالانہ کے مساوی تیل کو اُدھار دینے کا وعدہ کر لیا ہے۔ چین پاکستان اکنامک کاریڈور (CPEC) کی مرکزی بندرگاہ گوادر (جو ایران کی بندرگاہ چا بہار سے فقط 76 ناٹیکل میل یا 107 فضائی میل دُور ہے) میں ایک تیل کی ریفائنری لگانے اور بلوچستان میں تانبے سونے کی ریکوڈک کی کان میں سرمایہ کاری پہ رضامندی کا اظہار کیا گیا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان نہایت گہرے مذہبی، مالی اورا سٹرٹیجک تعلقات ہیں۔ پاکستان نے سعودی عرب کی سلامتی اور استحکام کا عہد کر رکھا ہے۔ اس کی اسلامی فوج کی سربراہی بھی ہمارے ہی ایک جرنیل کے پاس ہے۔ جب وزیراعظم نواز شریف کو ایٹمی بم دھماکوں کی پاداش میں عالمی معاشی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تو اُنہوں نے نہ صرف فارن کرنسی اکاؤنٹس منجمد کر لیے تھے بلکہ انہیں سعودی عرب نے اُدھار تیل کی رعایت بھی دی تھی اور اُن کی تیسری حکومت میں ڈیڑھ ارب ڈالرز کا چیک بھی خزانے میں جمع کرایا تھا۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی اُسی روایتی فیاضی سے خوب فائدہ اُٹھایا ہے۔ قوم سے اپنے خطاب میں اُنہوں نے یہ مژدہ بھی سُنایا ہے کہ دو اور دوست ملکوں سے بھی اسی نوعیت کی خیر کی اُمید ہے۔ ڈالر کیا برسنے لگے (بھلے مانگے تانگے کے سہی اور وہ بھی قرض) مفت خور (Parasitic) اور طفیلی معیشت کی جان میں جان آئی اور ہم نے اسٹاک مارکیٹ کو پھر سے اُوپر چڑھتے اور ڈالر کی روپے سے قدر گرتی دیکھی۔ اور عمران خان کی پژمردہ حکومت کو ایسا ٹیکہ لگا کہ خان صاحب للکارے کہ کان کھول کر سُن لو کہ ڈاکوؤں کی اپوزیشن میں سے کوئی بھی بچ کر نہیں جا پائے گا۔

ہماری تو دُعا ہے کہ ہو زورِ بیاں اور زیادہ اور بچ کر نہ کوئی جائے، خواہ بے پیندہ جمہوریہ کا باجہ بج جائے۔ لیکن خان صاحب اکیلے چنے ہیں اور بہت ہی بڑا بھاڑ جھونکنے چلے ہیں۔ اسد عمر خوب جانتے ہیں کہ پاکستان کی مفت خور طفیلی معیشت چلتی ہی فراڈ پہ ہے اور جس غیردستاویزی معیشت کو ضابطے میں لانے کی فضول خرچ ریاست جو کوشش کر رہی ہے وہ رشوت خور نوکرشاہی کے ہاتھوں کیسے بارآور ہو سکتی ہے۔ اُمرا، اشرافیہ اور جدید نوآبادیاتی مقتدرہ کا بھاری بوجھ غیررسمی معیشت اُٹھا سکتی ہے نہ رسمی کاروبار۔ اپنی سرشست میں یہ طفیلی معیشت قرضوں کی سبیل پہ چل سکتی ہے اور اب خیر سے یہ توقع ہے کہ اسی برس 30 ارب ڈالرز کے نئے قرضوں کی افزائش سے قرضوں کا مجموعی بوجھ 120 ارب ڈالرز تک پہنچ جائے گا۔ اب جواز یہ ہے کہ زہر (قرض) کو مارنے کے لیے زہر (قرض) چاہیے اور یہ بھولتے ہوئے کہ نشے کی طرح زہر کی بڑھی ہوئی طلب کے لیے، زہر کی اور زیادہ مقدار کی ضرورت پڑتی ہے۔ اور اسے کہتے ہیں قرض کا پھندہ (Debt Trap)۔ ہمارے وزیرِ خزانہ کی یہ بھول ہے کہ دوستوں کی ”امداد“ سے (جو کہ قرضِ حسنہ نہیں) آئی ایم ایف سے جو قرض ملنا ہے اُس کی شرائط ”نرم“ پڑ جائیں گی۔ آئی ایم ایف کا توازنِ ادائیگی کے استحکام (Stabilization) کا ڈھانچہ جاتی اصلاحات کا فارمولہ ایک ہی ہے اور وزیرِ موصوف نے نہایت تابعداری سے اُس پر بڑے کروفر سے پہلے ہی عمل شروع کر دیا ہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ عمران خان غریب لوگوں کو اس غلط فہمی میں مبتلا کر رہے ہیں کہ وہ آئی ایم ایف سے اب ایسا پروگرام لے سکیں گے جس سے غریبوں پہ آنچ نہیں آئے گی۔ پیداواری بجٹ آپ آدھا سے زیادہ کاٹ چکے، تیل اور گیس کی قیمتیں چڑھا چکے، روپے کی قدر گرا چکے۔ فضول ریاستی اخراجات میں کمی کی بجائے بھینسوں اور گاڑیوں کی مضحکہ خیز فروخت سے ناقابلِ برداشت غیرپیداواری ڈھانچوں اور ریاستی مراعات کے بھیانک جال سے صرفِ نظر کر چکے۔ اور باقی کی کسر آئی ایم ایف پوری کر دے گا۔ بیرونی ادائیگیوں کے لیے معیشت کی پیداواری اور پائیدار بنیاد کو مضبوط کیے بنا اور قابلِ واپسی ادائیگیوں کا بوجھ بڑھا کر آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان دوسروں کو قرض دینے کی پوزیشن میں آ جائے گا یا پھر دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائے گا۔ اگر پوری طفیلی معیشت، ریاستی جدید نوآبادیاتی ڈھانچے اور حکمرانی کے پورے نظام میں انقلابی تبدیلی نہیں لائی جاتی (جس کا تبدیلی کے ایجنڈے میں کہیں ذکر نہیں) تو قرضوں کا جال اور بھی جان لیوا ہو جائے گا۔

تازہ ترین