• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی دوست کی جھوٹی تعریف کرنا مشکل کام ہے.... اور دوست کی سچی تعریف کرنا اس سے بھی مشکل۔ سو ایک بات تو طے ہے کہ مجھے آج ایک مشکل کام درپیش ہے ۔اوردوست اگر مزاح نگار ہو تو یہ کام تقریباً نا ممکن ہو جاتا ہے کیونکہ ہمارے ہاں ہرمزاح نگار یہی سمجھتا ہے کہ وہ پاکستان کا واحداور بہترین مزاح نگار ہے ،خود اپنے بارے میں میرایہی خیال ہے ،تاہم یہ اور بات ہے کہ گزشتہ تین ماہ سے میں نے کوئی مزاحیہ مضمون نہیں لکھا ، مگر یہ کوئی ایسی قابل اعتراض چیزبھی نہیں کیونکہ لوگ غالب کو آج بھی شاعری کا بادشاہ مانتے ہیں حالانکہ(بقول منیر نیازی ) استاد نے گزشتہ دو سو برس سے کوئی شعر نہیں کہا۔

گل نوخیز اختر لکھار ی ہے ، کالم نگار ہے ، ڈرامہ نویس ہے ، شاعر ہے ،مزاح نگار ہے اور سب سے بڑھ کر ایک بہترین شوہر ہے ۔ جی ہاں ، سوال بنتا ہے کہ مجھے کیسے علم ہواکہ جناب ایک اچھے شوہر ہیں ، تو مجھے یوں پتہ ہے کہ جب بھی نوخیز کو اپنی بیگم کا فون آتا ہے تو وہ اِس قدر مودب ہو کر اُن سے بات کرتاہے کہ دنیا کا کوئی شوہر اُس وقت نوخیز کی ہمسری نہیں کر سکتا ، یوں تو ہر سمجھدار خاوند کو اپنی بیوی سے ایسے ہی بات کرنی چاہئے مگر جو ملائمت نوخیز کے لہجے میں ہوتی ہے وہ گاڈ گفٹڈ ہے ۔نہ جانے کیوںمجھے لگتا ہے کہ جس دن دنیا کے سارے شوہر ایسے ہو گئے اُس روز قیامت کا اعلان ہو جائے گا۔اگر یہ تقریب کامیاب خاوندوں کے اعزاز میں منعقد ہو رہی ہوتی اور گل نوخیز اختر اس کی صدارت فرما رہے ہوتے تو میں نوخیز کی کامیاب ازدواجی زندگی کے مزید کچھ اصول بیان کرتا مگر یہ محفل چونکہ نوخیز کے فن تحریر کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے برپا کی گئی ہے تو ہم آگے چلتے ہیں اور نوخیز کی مزاح نگاری پر بات کرتے ہیں ۔

خدا کو جان دینی ہے ، مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ دو تین سینئر مزاح نگاروں کے بعد اگر پاکستان کا کوئی چوٹی کا مزاح نگار ہے تو وہ گل نوخیز اختر ہے۔یہ بات رسمی تعریف ہے اور نہ ہی کسی دوست کی مدح سرائی ، یہ میری سوچی سمجھی رائے ہے جسے میں پوری ذمہ داری کے ساتھ بیان کر رہا ہوں، نوخیز کی تحریروں میں برجستہ قہقہے بھی ہیں اورکھلکھلاتی مسکراہٹیں بھی ، زیرِ لب تبسم بھی ہے اور شگفتگی بھی۔آپ گزشتہ بیس برس سے مسلسل مزاح لکھ رہے ہیں اور ہر گزرتے برس کے ساتھ اس میں تازگی بڑھ رہی ہے ، حالانکہ عموماً اتنا وقت گزرنے کے بعد مزاح نگاروں کے چھابے میں سودا ختم ہو جاتا ہے مگر نوخیز کے پاس شاید عمروعیار کی زنبیل ہے جس میں سے روزانہ وہ ایک پھڑکتی ہوئی تحریر نکالتا ہے اورہمارے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر دیتاہے۔نوخیز کے جملے سنجیدہ سے سنجیدہ آدمی کو بھی ہنسنے پر مجبور کر دیتے ہیں چاہے وہ شخص کوئی بیزارسرکاری افسر ہویا نالائق برادر نسبتی۔ہمارے ہاں خواتین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُن میں حس مزاح نہیں ہوتی، نوخیز کے اعلیٰ مزاح نگار ہونے کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ یہ خواتین کے سامنے انہی پر لکھی ہوئی طنزیہ تحریر پڑھتے ہیں اور داد سمیٹ لیتے ہیں۔ صرف ایک موقع پر ایسا ہوا کہ کسی خاتون نے ان کے مزاحیہ مضمون پر داد نہیں دی، ہوا یوں کہ موصوف ایک تقریب میںاپنا سپر ہٹ مضمون ’’گرل فرینڈ‘‘ پڑھ رہے تھے، جب مذکورہ خاتون بھی وہاں موجود تھی،مضمون کا ایک حصہ کچھ یوں تھا’’ گرل فرینڈ ز ہمیشہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ وہ صرف آپ سے ہی بات کرتی ہیں،ورنہ ان کے پاس کسی کے لئے کوئی ٹائم نہیں،ایسے میں اگر آپ کبھی رات کے دو بجے ان کو چیک کرنے کے لئے فون کریں تو اکثر کے فو ن سے یہی آواز آئے گی کہ’ ’آپ کا مطلوبہ نمبر پچھلے دو گھنٹے سے مصروف ہے۔‘‘ اگر آپ بعد میں شکوہ کریں کہ رات کو کس سے بات ہو رہی تھی تو اس کا جواب دینے کی بجائے فوراً رونی صورت بنا کر کہیں گی ’’شکیل ! تم مجھ پر شک کر رہے ہو، اپنی گڑیا پر؟ـ‘‘مضمون ختم کرنے کے بعد جب نوخیز صاحب تعریف سمیٹ چکے تو وہ خاتون اسٹیج پر آئیں اور نہایت سنجیدگی سے بولیں ’’ آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ میں گڑیا ہوں!‘‘یہ وہ لمحہ تھا جب نوخیز صاحب گڑبڑا گئے کیونکہ خود کو گڑیا کہنے والی خاتون میک اپ میں بھی پچاس برس کی لگ رہی تھیں۔بے شک خواتین کی حس مزاح کا کوئی مقابلہ نہیں ۔

گل نوخیز اختر اب تک ٹی وی چینلز کے لئے سینکڑوں مزاحیہ ڈرامے اور اسکرپٹ تحریر کر چکے ہیں۔ اردو کا پہلا مزاحیہ ناول ’’ٹائیں ٹائیں فش ‘‘لکھنے کا اعزاز بھی نوخیز کو حاصل ہے ، اس کے علاوہ آپ ایک سکہ بند شاعر ہیں ،ذاتی طور پر مجھے ان کی ’’ہکلی ‘‘غزل بہت پسند ہے ، اس غزل کی خاص بات یہ ہے کہ جب تک آ پ اس کو ہکلاتے ہوئے نہیں پڑھیں گے۔ یہ وزن میں نہیں ہو گی، اس کے علاوہ نوخیز کی نظم ’’محبت لمس کی محتاج ہوتی ہے ‘‘ ایک ایسی نظم ہے جو ہر نوجوان کو زبانی یاد کر لینی چاہئے تاکہ بوقت ضرورت کام آسکے۔نوخیز کی شخصیت کا ایک اور پہلو بھی بہت دلچسپ ہے اور وہ ان کی ڈراؤنی کہانیاں ہیں ۔ موصوف نے خود بھی یہ کہانیاں لکھیں اور انہیں سنانے میں بھی یدطولیٰ رکھتے ہیں ۔ کسی سرد اور اندھیری شام اگر آپ نوخیز کی زبانی کوئی ڈراؤنی کہانی سن لیں تو کم از کم اُس رات سکون سے نہیں سو پائیں گے ،تمام رات آپ کو یوں لگے گا جیسے کوئی اَن دیکھا جسم آپ کے گرد منڈلا رہا ہے اور موقع پاتے ہی وہ آپ کو آکٹو پس کی طرح جکڑ لے گا۔بالکل ویسے جیسے نوخیز کی تحریریں ہمیں جکڑ لیتی ہیں۔نوخیز کی شخصیت کے یہ تمام پہلو اپنی جگہ مگر سب سے لاجواب بات نوخیز کی مجلس (company)ہے۔ہم دوست جب بھی اکٹھے ہوتے ہیں سب سے زیادہ ڈیمانڈ گل نوخیز اختر کی ہوتی ہے ، جس محفل میں نوخیز نہ ہو اُس میں لطف ہی نہیں رہتا، ہر ایک منٹ کے بعد نوخیز کی زبان سے جملے یوں نکلتے ہیں جیسے اسٹین گن سے گولیاں ،نوخیز کی باتیں تھمنے کا نام لیتی ہیں اور نہ ہمارے قہقہے،ہم خود کو خوش نصیب سمجھتے ہیں کہ گل نوخیز اختر ہمارا دوست ہے، ایک ایسا دوست جس نے کبھی مایوس ہونا سیکھا ہی نہیں ۔یہ گل بھی ہے ، نوخیز بھی اور اختر بھی۔ یہ وہ ستارہ ہے جو صرف فیشن کے طور پر نہیں بلکہ حقیقت میں اپنی زندگی کی کہانی ہر شخص کو پوری ایمانداری کے ساتھ سناتا ہے اور بتاتا ہے کہ اس مقام تک پہنچنے کے لئے اُس نے کیا کیا پاپڑ بیلے ، نوخیز کی زندگی ہر اُس نوجوان کے لئے ایک گائیڈ بک ہے جسے لکھنے کا شوق ہے ، مزاح نگاری کا چسکا ہے یا وہ ڈرامہ نویس یا کالم نگار بننا چاہتے ہیں۔

ایک عام انسان زندگی میں صرف دو مرتبہ دلہا بنتا ہے ، ایک ،اپنی شادی کے موقع پر اور دوسرا، اپنے اعزاز میں منعقد ہونے والی تقریب کے موقع پر۔ گل نوخیز اختر آج کی تقریب کے دلہا ہیں، اس لئے آج ہم اِن کی صرف تعریف ہی کریں گے۔ ویسے بھی دوستوں پر بھری محفل میں تنقید نہیں کی جاتی ، اس کام کے لئے خدا نے رشتہ دار بنائے ہیں ۔ آخر میں اہل ملتان سے ایک التماس۔آپ نے آج ملتان کے اس سپوت کو خراج تحسین پیش کرکے بے شک ایک عمدہ روایت قائم کی ہے ، خدا باقی شہروں کو بھی توفیق دے کہ وہ لکھاریوں کے اعزاز میں ایسی ہی تقاریب منعقد کرنے کے لئے اُن کے فوت ہونے کا انتظار نہ کیا کریں۔ تاہم ملتان والو! آج آپ کے اِس ٹی ہاؤس میں مجھے کئی لوگوں کی تصاویر نظر آ رہی ہیں جن میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جنہیں میں تو کیا شاید یہاں موجود اور لوگ بھی نہیں جانتے ۔میری گزارش ہے کہ اگر آپ کو واقعی گل نوخیز اختر پر فخر ہے تو اِس کی تصویر بھی یہاں آویزاں کر دیں۔ یہ اس مزاح نگار کا نہیںبلکہ ملتان ٹی ہاؤس کا اعزاز ہوگا۔

نوٹ: گل نوخیز اختر کے اعزاز میں منعقدہ تقریب میں ملتان ٹی ہاؤس میں پڑھا گیا۔

تازہ ترین