• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعظم عمران خان نے سعودی عرب سے واپس آتے ہی قوم سے خطاب میں جہاں یہ خوشخبری دی کہ سعودی عرب اور دوسرے دوستوں کی مدد سے پاکستان جلد مالی بحران سے نکل آئے گا اُس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتادیا کہ کسی بھی ایسے سیاستدان کو این آر او نہیں دیا جائے گا جو اس کا متلاشی ہے۔ عمران خان کے اس بیان کے بعد پی ایم ایل این اور پی پی پی دونوں سیاسی جماعتوں نے ببانگ دہل کہہ دیا کہ نہ جانے عمران خان صاحب کو کون یہ خبریں دے رہا ہے کہ ہم میں سے کوئی این آر او کی خواہش رکھتا ہے بلکہ ایک نجی محفل میں میاں نواز شریف نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اگر این آر او چاہیے ہوتا تو اپنی زندگی بھر کی ساتھی کو اس طرح بستر مرگ پراکیلا چھوڑ کر اپنی بیٹی کے ساتھ پاکستان واپس ہی نہ آتا اور نہ گرفتاری دیتا بلکہ لندن میں بیٹھے بیٹھے ہی ڈیل کرلیتا۔ شہباز شریف بھی مقدمات کا سامنا کررہے ہیں اور جیل میں ہیں۔ آصف علی زرداری کو جیل سے ڈرانا ایسے ہی ہے کہ آپ شیر کے بچے کو کہیں کہ جنگل میں نہ جانا۔ اس کے ساتھ ساتھ پچھلے دنوں آصف زرداری کے بیانات ایک این آر او مانگنے والے لیڈر کے بیانات جیسے نہیں بلکہ اُس کے بالکل اُلٹ ہیں۔ ہوسکتا ہے محترم وزیر اعظم کو برادر حکومت نے کہا ہو کہ ہم نواز شریف کے معاملات سے خود کو الگ رکھے ہوئے ہیں اور اسی لیے عمران خان نے یہ بیان دیا ہو۔ مگر این آر او کے متعلق وزیر اعظم کے بیان میں کچھ حقیقت ہے اور وہ حقیقت نواز شریف یا شہباز شریف کے این آر او مانگنے سے تعلق نہیں رکھتی مگر ان کے بہت قریبی لوگوں سے رکھتی ہے۔ انتہائی قابل اعتماد ذرائع کے مطابق فواد حسن فواد اور احد چیمہ معافی کے بدلے کچھ ایسے راز حکومت کے حوالے کرنا چاہتے ہیں جس سے نیب اور عدالتوں کو میاں نواز شریف اور شہباز شریف کے خلاف ثبوت حاصل کرنے میں بہت فائدہ ہوگا اور ہوسکتا ہے عمران خان صاحب اسے ہی این آر او کہہ رہے ہوں۔ اس کے علاوہ لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک سابق وفاقی وزیر جن کے بارے میں پہلے بھی بہت چرچہ تھا کہ وہ پی ٹی آئی جوائن کرنے والے ہیں، ہوسکتا ہے اپنے لیے کوئی سہولت مانگ رہے ہوں مگر جہاں تک شریف خاندان کا تعلق ہے نہ ایسی کوئی کوشش کی گئی ہے اور نہ ہی کی جائیگی۔ اب ایک بہت بڑا سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا وزیر اعظم کے اختیار میں کوئی ایسی معافی دینا ہے جو کہ قانون اور آئین کے مطابق اُن کے دائرہ اختیار میں نہ ہو ؟وہ پھر کیسے اس طرح کی بات کرسکتے ہیں کہ کوئی این آراو نہیں دیا جائے گا۔ پرویز مشرف کا دور مختلف تھا، مشرف تن تنہا ہر اختیار پر قابض تھے اور بحیثیت صدر پاکستان اس طرح کا فیصلہ کرنا مشرف کے اختیار میں تھا کہ سزا کے بعد کسی کو بھی معافی دے دی جائے۔ نواز شریف کی سزا جو کہ نیب کورٹ نے دی تھی اُسے اسلام آباد ہائیکورٹ نے معطل کردیا باقی کیسز میں ابھی کوئی فیصلہ ہوا ہی نہیں تو پھر یہ اختیار عدالت عالیہ کا ہے کہ کس کیس کو چلائے اور کس کو ختم کرے اور ایسی ہی ایک عدالت میں ایک کیس محترم وزیر اعظم کے خلاف بھی چل رہا ہے تو وہ کس طرح اس طرح کا بیان دے سکتے ہیں۔ مگر وزیر اعظم کے بیان سے ہٹ کر اگر ہم مسلم لیگ نواز کی حالت زار پر نظر ڈالیں تو ہمیں واضح طور پر نظر آئے گا کہ نواز لیگ نے اپنی غلطیوں سے کچھ بھی نہیں سیکھا۔

انتخابات ہوگئے نتائج آگئے،کچھ جیت گئے کچھ ہار گئے۔ بڑا شور اُٹھا، بڑی آوازیں اُٹھیں نا انصافی کی مگر نہ نظام میں خلل پڑا نہ کوئی ہلچل مچی رفتہ رفتہ سب نے سب کچھ قبول کرلیا اور یہی جمہوریت کہلاتی ہے۔ انتخابات تو گزشتہ ستر سال سےہورہے ہیں اور ہر دفعہ ہی نتائج سے کوئی خوش ہوتا ہے اور کوئی ناراض۔ کبھی خوش ہونے والے زیادہ ہوتے ہیں تو کبھی ناراض ہونے والے مگر سلسلہ رُکتا نہیں اور مجھے یقین ہے کبھی بھی نہیں رُکے گا۔ ہاں یہ ضرور ہوتا ہے کہ ہارنے والے اپنی غلطیوں، کوتاہیوں اور نااہلیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھتے ہیں اور اُسی کی بنیاد پر اگلے انتخاب کی تیاری کرتے ہیں۔ موجودہ الیکشن میں بھی ہارنے والے جیتنے والوں پر دھاندلی کا الزام عائد کررہے تھے۔ کچھ احتجاج کا، کچھ قانون کا سہارا لے رہے ہیں اور اس سے زیادہ وہ کچھ کر نہیں سکتے کیونکہ ایک نظام اور قانون کے تحت جیتنے والے فاتح قرار پاتے ہیں۔

موجودہ انتخابات کرپشن کے خلاف نعرے کی بنیاد پر لڑے گئے اور عمران خان نے اپنی ہر تقریر میں مخالفین کی کرپشن اور اقربا پروری کو شدت سے نشانہ بنایا۔ آہستہ آہستہ اُن کا یہ بیانیہ عوام میں شدید پسندیدگی اختیار کرگیا۔ اس کا اُنھیں دہرا فائدہ ہوا، ایک تو عوام اُن کے ہر مخالف کو بے ایمان اور بددیانت کہنے لگے دوسرے اُن سمیت اُن کے ہر نمائندے کو ایمانداری اور دیانت داری کا سرٹیفکیٹ بھی دے دیا گیا۔آپ گلی کوچوں میں جائیں یا سوشل میڈیا پر کوئی بھی عمران خان اور ان کے رفقاء کی ایمانداری، دیانت داری پر آپ کو بڑے بڑے لیکچرز دے ڈالے گا اور اُن کے مخالفین کو جن الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے وہ تو یہاں بیان بھی نہیں کئے جاسکے اور یہ ہی بنیادی وجہ بنی عمران خان کے انتخابات جیتنے کی مگر ہارنے والوں خصوصاً مسلم لیگ نواز نے اس سے کچھ سبق نہیں سیکھا۔ نون لیگ کی قیادت نے ان انتخابات کے دوران زمینی حقائق کو اچھی طرح دیکھ لیا۔ میں انتخابی نتائج کی بات نہیں کررہا میں عوامی رائے کی بات کررہا ہوں بدقسمتی سے نون لیگ کی قیادت بجائے اس کے کہ کوئی سبق سیکھتی اور عوام کے اندر اپنے خلاف بننے والی اس رائے کو اپنے عمل سے جھٹلاتی کہ نون لیگ میں بادشاہت نہیں ہے کہ باپ کے بعد بیٹا یا بھائی کے بعد بھائی ہی اقتدار کا حقدار ہے اور اپنی پارٹی سے دوسرے رہنماؤں کو بھی مرکزی منصبوں کے لیے آگے لاتی مگر ایسا نہ کرسکی اور مرکز اور پنجاب جہاں شہباز شریف کو پتا ہے کہ انہیں ہارنا تھا وہاں بھی انہوں نےخود کو وزیر اعظم اور اپنے بیٹے حمزہ کو وزیر اعلیٰ کے لیے نامزد کردیا جو کہ اب دونوں جگہ اپوزیشن لیڈر ہیں۔ اس عمل نے مسلم لیگ نواز کے تابوت میں ایک کیل اور ٹھونک دی اور مخالفین کو مزید اپنے خلاف بولنے کا موقع دیا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ شروع سے ہی مسلم لیگ نواز مرکزی عہدے اپنے گھر کے اندر ہی رکھتی رہی ہے۔ یہ کیسی بادشاہت ہے کہ دوسرے سیاسی کارکنوں کو اپنے سے کمتر عہدوں پر ہی رکھا جائے۔ شاہد خاقان عباسی کو بھی وزارت عظمیٰ انتہائی مجبوری میں دی گئی کیونکہ نواز شریف کسی صورت مرکز کی سیاست شہباز شریف یا حمزہ شہباز کے حوالے نہیں کرنا چاہتے تھے۔ مسلم لیگ نون کے اسی انداز سیاست نے آج عوام کے اندر اُن کی مقبولیت کو کم کردیا ہے۔ یہ ہی نہیں اس انداز سیاست یا جمہوری بادشاہت کی وجہ سے دیگر سیاسی رہنماؤں نے بھی اپنے گھر کے لوگوں کو اسمبلی میں لانا شروع کردیا۔ آج مسلم لیگ نون کی پنجاب اور مرکز میں خواتین کی خصوصی نشستوں پر آنے والی نوے فیصد خواتین کسی رہنما کی بیوی، بیٹی،بہن یا ماں ہیں۔ قربانی دینے والے کارکن بس قربانی ہی دیتے ہیں فائدہ کوئی اور اٹھاتا ہے اور یہی اندازِ سیاست آہستہ آہستہ نون لیگ کو عوامی حلقوں میں انتہائی غیر مقبول بنارہا ہے میں نواز لیگ کو بتانا چاہتا ہوں کہ عمران خان کی حکومت کی نااہلی انھیں وہ فائدہ نہیں دے سکتی جو مسلم لیگ نواز اپنے اندر بیٹھے آستین کے سانپوں کو ختم کرکے حاصل کرسکتی ہے۔

تازہ ترین