• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

23 جولائی کو روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والی خبر کےمطابق’’جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ بینچ نے وزارت اطلاعات سندھ کے سیکشن آ فیسر سارنگ لطیف کی درخواست ضمانت مسترد کردی۔ جسٹس گلزار نے کہا لگتا ہے نیب کو یہ ٹرائل چلانے کا کوئی شوق نہیں، مقامی پراسیکیوٹر تو شاید ہر پیشی پر پیسے لیکر چلا جاتا ہے،کرپشن مقدمات میں تو نیب جانے انکا ایمان جانے، پانچ ارب کا کیس ہے۔ میں احتساب کے حوالے سے یہ ریمارکس آئینہ ہیں ۔یہ کسی ایک نہیں،ہر حکومت کا وتیرہ رہا ہےکہ وہ قانون کو اپنی گھر کی لونڈی بنا کر رکھنے کیلئے کوشاں رہتی ہے۔ یہ امر واضع ہے کہ دنیا کے قوانین عوام ووطن کی آسودگی کے اصول پر استوار ہوتے ہیں۔کوئی قانون بعینہ نفس بُرا نہیں ہوتا،تاہم اس کا دارومدار قانون سازوں کے علاوہ اس کی درست تشریح و تعبیر کے مطابق قوت نافذہ پر بھی ہوتا ہے۔پاکستان میں اکثر قوانین برطانوی ساختہ ہیں،ان میں ایسے قوانین بھی ہیں جو آج بھی برطانیہ و ہندوستان میں لاگو ہیں،بالخصوص برطانیہ میں اس کے مثالی اثرات معاشرے کے شب وروز میں عیاں ہیں۔پاکستان میں قوانین پر عمل کا فقدان ہے،جس کی وجہ سے ایک فرد قوانین ہی کو ناقص قراردے دیتا ہے،یوں قانون سے بیزاری عوامی نفسیات کا جیسے جُز لاینفک بن چکی ہے۔اس طرح معاشرہ جنگل کا قانون کے استعارے کے باوصف مادر پدر آزادی پر چل پڑتا ہے،اور یا پھر اُن قدیم و دقیانوسی قوانین کی طرف رجعت چاہتاہے جہاں ہر معاملے ومسئلے کا فیصلہ گھنٹوں میں کردیا جاتا تھا۔ اب اس حوالے سے دیکھا جائے،تو پاکستانی عوام کی غالب اکثریت یا معدودچند طبقات کے علاوہ پوری آبادی احتساب کی خواہاں ہے۔اس کی اساسی وجہ یہ ہے،پاکستان وسائل سے مالا مال ہے،اس کے لوگ محنت کش و جفاکش ہیں،اس کے باوجود ملک میں غربت ،جہالت اور بیماریوں کا اندھیراہر سو پھیلا ہواہے،جبکہ دوسری طرف چند بالادست طبقات کا طرز زندگی شہنشائوں سے بھی افضل ہے۔یہ عناصر سرِبازار ملکی دولت کو لوٹ کر آئے روز مست سے مست ہورہے ہیں،اورعوام زندہ در گور ہوچکےہیں۔ایسے عالم میں عین فطرت کے مطابق عوام کی خواہش ہے کہ کوئی طاقتور ان زورآوروںکا کڑا احتساب کرے۔بنابریں پاکستانی عوام کی ایک بڑی تعداد اس سلسلے میں ایرانی انقلاب کے روح رواں حضرت امام خمینی کے طریقہ احتساب ہی کو دراصل نجات کا حقیقی راستہ متصور کرتی ہے،ایک تعداد ایک ایسے انقلاب کی بھی متمنی ہے،جو ان سارے انسانی قزاقوں،بددیانت ،بدروح خائینوں ،لٹیروں کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائے۔لیکن زمانہ موجود میں اُن کی تمام اُمیدیں دم توڑتی نظر آتی ہیں۔عوام نے دیکھ لیا کہ کس طرح احتساب کے نام پر مخالفین کوسڑک کے بیچ چوراہے پرسیاسی طور پر عریاں کردیا جاتاہے، لیکن اس کا ماحصل صفر ہی ہوتا ہے۔قومی خزانے میں کچھ نہیں آتا۔ بنابریں عوام کی زندگی پر ایسے منتقم احتساب کے مثبت اثرات کے مرتب ہونے کا تصور بھی محال ہو جاتا ہے۔اس وجہ سے احتساب کا نام سنتے ہی لوگ منہ پھیر لیتے ہیں۔یہ بدنیتی پر مبنی ناقص طریقہ کار ہی ہے ،جس سے قانون کے شکنجے میں آئے قومی خائن آسانی سےپھر سے اپنا کھیل جاری رکھنے کی سکت پالیتے ہیں۔معزز سپریم کورٹ کی ان امراض کی نشاندہی قانون کی عمل درآمد کی راہ میں حائل اُن رکائوٹوںکی جانب اشارہ ہے،جس کے، مملکت خداداد میں دور ہونے کےدور دور تک آثار دکھائی نہیں دیتے.......

تازہ ترین