• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چند روز قبل کی بات ہے کہ ایک آرتھوپیڈک سرجن کے پاس ایک مظلوم مریض گیا ۔ اس کنے ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ میرے گھٹنے یعنی گوڈے میں شدید تکلیف ہے اور چلنے پھرنے سے عاری ہوتا جا رہا ہوں۔
ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ تمہارے گوڈے خراب ہو گئے ہیں اور نئے گھٹنے ڈالنے پڑیں گے ۔اگر امریکن گوڈا ڈالو گے تو خرچہ پونے پانچ لاکھ کے قریب آئے گاجس میں سرجن کی فیس اور ہسپتال میں ایک ہفتہ کا قیام شامل ہے اور بیس ہزار روپے کی ادویات دوران سرجری لگیں گے جو اس کے علاوہ ہے۔اگر تائیوان کا گوڈا ڈالوگے تو اس میں کوئی ڈیڑھ لاکھ روپے کم کر لو۔یہ خرچہ صرف ایک گوڈے کا ہے ،دو کا خرچہ آپ خود لگا لیں۔مریض جب نے یہ قیمت سنی تو اس کا اوپرکا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے رہ گیا اس نے اداس صورت بنا کر عرض کی کہ ڈاکٹر صاحب میں تو غریب آدمی ہوں کوئی دس بارہ ہزار روپے میں میرا یہ مسلئہ حل نہیں ہوسکتا ؟ڈاکٹر نے کہا تو میر ے پاس کیا کرنے آئے ہو ،جاؤ کسی سرکاری ہسپتال کا منہ دیکھو۔وہاں علاج نہیں کروانا تو موٹر کار کا گوڈا لگوا لووہ تمیں اسی قیمت میں مل جائیگا ۔یہ امریکن گوڈا ہے تو پچیس سے تیس سال چلے گا،زندگی رہے نہ رہے گوڈا پچیس تیس سال چلے گا۔امریکہ واقعی جس ملک میں گیا وہاں پھر وہ گوڈوں سمیت ہی برس ہا برس بیٹھا رہااور وہاں کے لوگوں کو گٹھنے ٹیکنے پر انہیں مجبور کر تا رہا۔مریض بے چارہ اپنا سا منہ لیکر رہ گیا۔ویسے بھی آج جو بھی غریب مریض سرکاری ہسپتال میں جاتا ہے وہ وہا ں جا کر اپنا سا منہ لے کر رہ جاتاہے کیونکہ کوئی اس کی سننے والا نہیں ہوتا۔یہ بڑی تکلیف دہ اور تلخ حقیقت ہے کہ جو مریض گھٹنوں یعنی گوڈوں کی تکلیف میں مبتلا ہوتے ہیں وہ بیان سے باہر ہے۔
پہلی بات یہ ہے کہ شاید ہی ایک یا دو سرکاری ہسپتالوں میں گھٹنوں کو تبدیل کرنے کی جدید ترین سہولیات موجود ہوں ۔کیونکہ ہم نے یعنی بڑے بڑے ڈاکٹروں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت سرکاری ہسپتالوں کے نظا م کو خراب کیا تاکہ ان کے پرائیویٹ ہسپتال اور کلینک چل سکیں۔آج آپ کو شہر میں جتنے بھی بڑے بڑے پرائیویٹ ہسپتال نظر آرہے ہیں۔آج سے بیس برس قبل اسی ملک کے نامورسرکاری ڈاکٹر وں نے ہی ان کی بنیادیں رکھی تھیں اور یہی ڈاکٹردوران ڈیوٹی سرکاری ہسپتالوں کی جان بوجھ کر بنیادیں ہلا رہے ہیں۔یہ بڑے بڑے ڈاکٹر ہی توہیں جو سرکاری ہسپتالوں کے گوڈوں میں بیٹھ گئے ہیں اور اب غریب مریض کو کہتے ہیں کہ سرکار سے کہو کہ وہ تمہارے گوڈے تبدیل کرائے ۔سرکار کے تو اپنے گوڈے ہلنے شروع ہو گئے ہیں اور ویسے بھی بیت المال اور زکوة اور سرکار سے مدد لیکر گوڈے تبدیل کروانے کا طریقہ کار اتنا مشکل اور پیچدہ ہے کہ جو تھوڑے بہت گوڈے کام کرتے ہیں وہ بھی پھرے مار مار کرختم ہوجاتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب مارکیٹ میں امریکن گوڈا دو سے ڈھائی لاکھ روپے میں اور تائیوان کاگوڈا ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے میں مل جاتاہے تو پھر پرائیویٹ ہسپتال میں اس قدر اپنے اخراجات کس قانون کے تحت اس میں شامل کر لیتا ہے،حکومت کی کون سی باڈی ہے جو گوڈوں کی پرائیویٹ ہسپتالوں کی فیس طے کرتی ہے ۔ ماضی میں یہ کہا گیا کہ حکومت ایک ایسی باڈی بنائیگی جو پرائیویٹ ہسپتالوں کی کوالٹی ،سہولیات اور کمروں کرائے تک کو طے کرئیگی مگر وہ باڈی آجتک فعال نہ ہوسکی۔
ایک اور ڈاکٹر نے اپنے کلینک کے باہر لکھ کر لگایا ہوا ہے کہ ایک ہزار روپے لگا کر ٹوکن حاصل کریں اگر مقررہ تاریخ پر آپ نہیں آئیں گے تو ٹوکن کی فیس ضبط کر لی جائیگی اور پھر ایک ہزارمزید دے کر ٹوکن حاصل کرناہوگا۔
کوئی ان الله کے نیک بندے سے پوچھے اگر انہیں اس روز کوئی تکلیف ہو جاتی ہے یا ان کا بچہ بیمار ہو جاتا ہے اور وہ کلینک نہیں کر پاتے تو کیا وہ مریض جو دوسرے شہر یا اسی شہر سے آیا ہوگااس کو دو ہزار روپے واپس کریں گے؟ااصولاً انہیں ایسا کرنا چاہیے۔
خدا جانے ہمارے ڈاکٹروں کو کیا ہو گیا ہے مرنا یاد نہیں او ر قبر کو بھول چکے ہیں،مرضی کی فیس لے رہے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ہڈیوں کی بعض تکلیفیں بہت اذیت ناک ہوتی ہیں او ر ان کا علاج بھی خاصا مہنگا بھی ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ گھٹنے کی قیمتوں ،اپریشن،ہسپتال کے اخراجات کا تعین خود کرئے ۔اگر کوئی ڈاکٹر یہ کہتا ہے کہ ہم باہر کے ممالک کے مقابلے میں اتنہائی کم فیسیں لے رہے ہیں تو ان ڈاکٹر صاحبان کی خدمت میں عرض ہے کہ پاکستان کی ساڑھے سات کروڑ آبادی کی روزانہ آمدنی ایک ڈالر امریکی سے بھی کم ہے توجب ان کے گوڈے خراب ہوتے ہونگے جو کہ یقینا ہوتے ہیں وہ کہاں جاتے ہوں گے۔
اس ملک میں تین کاروبار آج عروج پر ہیں ،سکول کالج قائم کرلیں،پرائیویٹ ہسپتال بنا لیں یا کوئی ہوٹل ،دنوں میں کروڑ پتی ہو جائیں گے کیونکہ تینوں کی فیسیں اور نرخ طے کرنے والا کوئی نہیں،کوئی باڈی ان کو مانیڑنہیں کر سکتی۔
اس ملک میں صرف ڈینگی مچھر ہی نہیں جس کو ختم کر کے ہم خوش ہورہے ہیں اس ملک میں کئی اور قسم کے ڈینگی بھی ہیں جو لوگ اس ملک اور عوام کو لوٹ رہے ہیں وہ بھی کسی ڈینگی مچھر سے کم نہیں۔پاکستان میں عوام کی اکثریت وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہو چکی ہے اور مستقبل میں ہڈیوں کی تکلیفیں مزید بڑھ جائیں گی۔
لہٰذا اس سلسلے میں کوئی ایسی حکمت عملی اختیار کریں کہ غریب مریضوں کا علاج ہو سکے۔
تازہ ترین