• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی وزیرخزانہ اسد عمر نے پاکستان میں دہشت گردوں کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کو روکنے کے حوالے سے کی گئی کاوشوں پرعالمی ماہرین کے سوالات کے تسلی بخش جواب دینے میں متعلقہ اداروں کی بظاہرناکامی پر بجا طور پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔ منظر عام پر آنے والی رپورٹوں کے مطابق وزیرخزانہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو ، فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی ، سیکوریٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان ، قومی احتساب بیورو ، نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی اور انسداد نارکوٹکس فورس سمیت تمام متعلقہ حکام کو متنبہ کیا ہے کہ پاکستان کی ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں ممکنہ شمولیت سے متعلق سنجیدہ معاملات سے نمٹنے میں کوئی سستی برداشت نہیں کی جائے گی۔ صورت حال کی سنگینی کو سمجھنے کیلئے اس کے پس منظر پر ایک نگاہ ڈالنا ضروری ہے۔ منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام کے نگراں عالمی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی جانب سے سال رواں کی پہلی سہ ماہی میں پاکستان کو جون کے اجلاس میں دہشت گردوں کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ روکنے میں ناکام رہنے والے ملکوں کی گرے لسٹ میں شامل کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا تھا۔جس کے بعد مئی کے تیسرے ہفتے میں حکومتی حلقوں نے بتایا کہ عالمی ادارے کے مطالبات کی تکمیل کیلئے حتمی ایکشن پلان تیار کرلیا گیا ہے۔جولائی کے پہلے ہفتے میں ملک کی اعلیٰ ترین سیاسی اور عسکری قیادت پر مشتمل قومی سلامتی کمیٹی نے قوم کو یقین دہانی کرائی کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی منی لانڈرنگ کے حوالے سے پیش کردہ سفارشات پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے گاجبکہ ماہ رواں کی نو تاریخ کو ایشیا پیسفک گروپ کے نو رکنی وفد نے پاکستان کے بارہ روزہ دورے کے پہلے دن پاکستان کے تین اداروںفیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی، فنانشل مانیٹرنگ یونٹ اور اینٹی نارکوٹکس فورس سے ایکشن پلان کے حوالے سے سوالات کیے۔اپنے دورے کے تیسرے دن گروپ اس نتیجے پر پہنچا کہ اسلام آباد کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے نکلنے کیلئے مزید اقدامات کرنا ہوں گے۔گروپ کے ارکان نے قانونی فریم ورک نامکمل اور ادارہ جاتی انتظامات کو کمزور پایا اور انہوں نے غیر منافع بخش تنظیموں کی سرگرمیوں کی جانچ پڑتال، بروکریج ہاؤسز، کمپنیز ایکٹ کے تحت رجسٹر ایکسچینج کمپنیوں اور کارپوریٹ اداروں کے عطیات کیلئے موجود نظام زیادہ مضبوط نہ ہونے پر خدشہ ظاہر کیا۔جبکہ اپنے بارہ روزہ دورے کے اختتام پر پیش کی گئی۔ رپورٹ میںایشیا پیسفک گروپ کے وفد نے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت روکنے کیلئے پاکستانی اقدمات کو بین الاقوامی معیارات کے تناظر میں غیر تسلی بخش قرار دیا۔رپورٹ میں قوانین، قواعد و ضوابط اور میکانزم میں خرابیوں اور اداروں کی خامیوں کا ذکر کیا اور کہا گیا ہے کہ اس رفتار سے کام کر کے پاکستان فنانشل ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے باہر نہیں آسکتا۔واضح رہے کہ گرے لسٹ سے نکلنے کیلئے جون میں کیے گئے سمجھوتے کے تحت پاکستان کو آئندہ برس ستمبر تک منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت روکنے کیلئے 'ایف اے ٹی ایف کے دس نکاتی ایکشن پلان پر عملدرآمد کرنا ہے۔اس سلسلے میں حکومت کو دہشت گرد تنظیموں اور مشتبہ دہشت گردوں کے مالی اثاثوں، خاندانی پس منظر اور دیگر معلومات مرتب کر کے اسے جنوری تک تمام اداروں کو فراہم کرنا ہے، اگر پاکستان ان اقدامات پر مکمل طور پر عمل کرنے میں ناکام رہا تو اس کا اندراج بلیک لسٹ میں کردیا جائے گا۔اس کے نتیجے میں جس تباہ کن صورت حال سے سابقہ پیش آئے گا وہ محتاج وضاحت نہیں،تاہم یہ امر ضرور وضاحت طلب ہے کہ وزیر خزانہ نے ایشیا پیسفک گروپ کی آمد سے پہلے متعلقہ اداروں اور حکام کو اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے چوکس کرنے کی کیا کوشش کی اور یہ کوشش کامیاب کیوں نہیںہوئی۔ کم از کم اب گرے لسٹ سے ملک کو نکالنے کیلئے تمام مطلوبہ اقدامات کا کسی لیت و لعل کے بغیر عمل میں لایا جانا یقینی بنایا جانا چاہیے کیونکہ اب بھی یہ کام نہ ہوا تو قوم کو ناقابل تلافی نقصانات کا سامنا کرنا ہوگا۔

تازہ ترین