• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کیلئے عالمی مالیاتی ادارے ( آئی ایم ایف ) سے ’’ بیل آؤٹ پیکیج ‘‘ لینے کے بجائے دوست ممالک سے مالی امداد لینے کا جو فیصلہ کیا ہے، وہ موجودہ صورتحال میں بہترین اور دانشمندانہ فیصلہ ہے۔ اسکے باوجود بھی اگر پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا تو آئی ایم ایف کیساتھ مذاکرات میں پاکستان زیادہ دباؤ میں نہیں ہو گا اور اس کی پوزیشن کمزور نہیں ہو گی۔

بعض حلقے وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کی اس پالیسی پر بہت تنقید کر رہے ہیں لیکن موجودہ حالات میں اس سے بہتر پالیسی نہیں ہو سکتی۔ تحریک انصاف کی حکومت کو ویسے تو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں کرپشن، بیڈ گورننس، اداروں کی تباہی اور معاشی بحران شامل ہیں لیکن فوری اور سب سے بڑا چیلنج کرنٹ اکاؤنٹ ( رواں حسابات ) کا خسارہ ہے، جسے کم یا ختم کرنا بہت ضروری ہے۔ اس کے بغیر دیگر چیلنجز سے نمٹنے کے لئے حالات ہی پیدا نہیں ہو سکیں گے۔ اس خسارے کو کم یا ختم کرنے اور ادائیگیوں کا توازن قائم کرنے کے لئے ایک اندازے کے مطابق پاکستان کو 12 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔ سعودی عرب نے پاکستان کو 6 ارب ڈالرکا بیل آؤٹ پیکیج دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اس پیکیج کے مطابق سعودی عرب ایک سال کے لئےپاکستان کے اکاؤنٹ میں 3 ارب ڈالر جمع کرائے گا تاکہ ادائیگیوں کا توازن برقرار رکھنے میں پاکستان کو مدد مل سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب پاکستان کو 3 ارب ڈالرتک تیل کی درآمد کے لئے ایک سال کی موخر ادائیگی کی سہولت بھی فراہم کرے گا جو تین سال تک رہے گی۔ اس حوالے سے وزیر اعظم عمران خان کو کریڈٹ جاتا ہے۔ ان کی جگہ کوئی اور پاکستانی لیڈر ہوتا تو شاید یہ بیل آؤٹ پیکیج نہ ہوتا۔ ایسا کیوں ہے۔ اس پر آگے چل کر بات کرتے ہیں۔ دوسری طرف چین نے بھی پاکستان کو بڑی امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔ چین کے سفیر یاؤ جنگ اور نائب سفیر یاؤلی جیان نے اگلے روز اسلام آباد میں وزیر اعظم عمران خان کے دورہ چین اور سی پیک منصوبے پر تھنک ٹینکس اور میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ چین کی حکومت اور عوام وزیر اعظم عمران خان کے دورے کے منتظر ہیں۔ انہیں چین بڑی امدادی رقم فراہم کریگا۔ وزیر اعظم عمران خان کے دورہ چین میں کئی اہم معاہدوں پر بھی دستخط ہونگے۔ انکا یہ بھی کہنا تھا کہ چین سی پیک پر پاکستان کے تحفظات دور کرنے کو بھی تیار ہے۔ ادھر متحدہ عرب امارات نے بھی پاکستان کو مالی امداد فراہم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

اگر سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات جیسے دوست ممالک پاکستان کو بیل آؤٹ کرنے کیلئے مالی مدد فراہم کر دیں تو پاکستان کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے کو کم کرنے اور ادائیگیوں کے توازن کو بہتر بنانے کے فوری چیلنج سے نمٹ سکتا ہے۔ اسکے بعد دیگر مسائل سے نمٹنے اور معاملات کو بہتر بنانے پر توجہ دے سکتا ہے۔ دوست ممالک کی اس مالی معاونت سے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس نہ جاناپڑے۔ اگر جانا بھی پڑا تو پاکستان آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط کو ہر حال میں تسلیم کرنے والی مجبوری میں نہیں ہو گا۔

دوست ممالک سے مالی معاونت حاصل کرنے کی پالیسی پر کچھ حلقوں کو اعتراض ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ سعودی عرب کی مالی معاونت مشروط ہے۔ سعودی عرب پاکستان کو محاذ آرائی والی اپنی علاقائی سیاست میں ملوث کر دیگا۔ اس سے نہ صرف پاکستان کے ایران اور ایران کے اتحادی ملکوں کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہوں گے بلکہ پاکستان کو اور بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان داخلی طور پر بھی عدم استحکام اور فرقہ ورانہ تصادم کا شکار ہو سکتا ہے۔ ان حلقوں کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ سعودی عرب سے ہونے والے معاہدے کی شرائط سے قوم کو آگاہ کیا جائے۔ ان حلقوں کو صرف سعودی عرب سے مالی امداد لینے پر تحفظات ہیں۔ چین، متحدہ عرب امارات اور دیگر دوست ممالک سے امداد لینے پر انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ان حلقوں کو یقیناً اس بات کا ادراک ہو گا کہ اب آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج کیلئے مذاکرات کا پہلے جیسا ماحول نہیں رہا۔ امریکہ پاکستان سے سخت نالاں ہے کیونکہ پاکستان نہ صرف علاقائی اور عالمی سطح پر ہونے والی نئی صف بندیوں میں اپنی آزادانہ پوزیشن بنانے کی کوشش کر رہا ہے اور امریکی کیمپ میں اس حد تک نہیں ہے جیسے پچھلے چند دہائیوں سے تھا بلکہ وہ اس خطے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے گریٹر گیم میں ماضی والا کردار ادا نہیں کرنا چاہتا۔ امریکا آئی ایم ایف کے معاملے میں اب براہ راست کود پڑا ہے۔ توقع یہ کی جاتی ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط اس قدر سخت ہوں گی کہ پاکستان داخلی اور خارجی محاذوں پر پہلے سے زیادہ مشکلات میں پھنس سکتا ہے۔ امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان نے چین سے لئےگئے قرضوں کو پاکستان کی اقتصادی مشکلات کا سبب قرار دیا ہے اور بین السطور یہ پیغام دیدیا ہے کہ اگر پاکستان سی پیک سے الگ نہ ہوا تو آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکیج نہیں دے گا۔ آئی ایم ایف یقینی طور پر ’’ اقتصادی اصلاحات ‘‘ کے نام پر پاکستان کو اس امریکی ایجنڈے پر لانے کیلئے مجبور کریگا۔ ان ’’ اصلاحات ‘‘ کے ذریعہ پاکستان کو بعض اسٹرکچرل تبدیلیوں اور مزید مشکل فیصلوں کیلئے بھی مجبور کیا جا سکتا ہے۔ عالمی اور علاقائی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کے اس ماحول میں اگر پاکستان آئی ایم ایف کی شرائط کو من و عن تسلیم کر لیتا ہے تو پاکستان تاریخ کے اس اہم موڑ پر آزادانہ فیصلے نہیں کر سکے گا۔ جہاں تک سعودی عرب کی شرائط کا تعلق ہے میری دانست میں وہ پہلے والی شرائط نہیں ہوں گی کیونکہ اب حالات بہت تبدیل ہو چکے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ فوری طور پر یمن کی جنگ سے نکلنا سعودی عرب کیلئے آسان نہیں لیکن اس جنگ میں زیادہ دیر رہنا بھی اس کے لئے ممکن نہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے سعودی عرب اور یمن میں ثالثی کرانے کی جو بات کی ہے، وہ سوچے سمجھے بغیر نہیں کی ہے۔کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور ادائیگیوں کے توازن جیسے فوری مسئلے سے نمٹنے کیلئےدوست ممالک سے امداد موجودہ خارجی اور داخلی حالات میں بہترین پالیسی ہے۔ ماضی کی حکومتوں نے بھی اس پالیسی پر عمل کرنیکی کوشش کی لیکن انہیں کامیابی نہیں ہوئی۔ وزیر اعظم عمران خان کی اس پالیسی میں کامیابی کے واضح امکانات کے متعدد اسباب ہیں۔ عمران خان کے اپنے ذاتی اور اپنے کاروباری مفادات نہیں ہیں۔ وہ اس بوجھ سے آزاد ہو کر دوست ممالک کے حکمرانوں سے بات کر رہے ہیں۔ دوست ممالک کے حکمراں بھی یہ بات سمجھتے ہیں اور انہیں اس بات کا بھی احساس ہے کہ عمران خان کو پاکستان کے عوام میں مقبولیت بھی حاصل ہے اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ بھی ان سے خائف نہیں ہے۔ چین کے حکمرانوں کو بھی یہ احساس ہو گیا ہے کہ عمران خان سی پیک کے منصوبوں میں اپنا مفاد نہیں رکھیں گے اور اب پہلے کی طرح ان منصوبوں پر آنکھیں بند کرکے معاہدے نہیں ہوں گے۔ چین سی پیک سے پاکستان کی علیحدگی کا متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ سی پیک چین کے ’’ ون بیلٹ ون روڈ ‘‘ کے عالمی منصوبے کا اہم جزو ہے۔ دوست ممالک نے وزیر اعظم عمران خان کو جو پذیرائی دی ہے، وہ اس امر کی نشاندہی کر رہی ہے کہ دوست ممالک عمران خان کی عالمی سطح پر پہچان کا اعتراف کرتے ہیں اور انہیں ایک عالمی لیڈر کے طورپر دیکھ رہے ہیں۔اس مرحلے پر تحریک انصاف کی حکومت کو یہ بات ضرور مدنظر رکھنی چاہئے کہ دوست ممالک کی مالی معاونت سے وقتی طور پر تو ریلیف مل سکتا ہے۔ اس سے پاکستان کا معاشی بحران ختم نہیں ہو گا۔ اس کیلئے پائیدار اور دور رس پالیسیاں مرتب کرنا ہوں گی۔ پاکستان کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک پر انحصار کم کرنے کیلئے اسی طرح کے دوسرے راستے اختیار کرنا ہونگے۔ تجارتی خسارے کو کم کرنے کے لئےدرآمدات خصوصاً لگژری آئٹمز کی درآمدات پر مکمل پابندی عائد کرنا ہو گی اور برآمدات میں اضافہ کرنا ہو گا۔ ابھی یہ موقع ہے کہ سی پیک کے منصوبوں پر دوبارہ گفت و شنیدکا راستہ اختیار کیا جائے، جس طرح ملائیشیا کے وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد نے کیا ہے۔ پاکستان کو ان حالات میں بہت جرات کے ساتھ فیصلے کرنا ہوں گے اور یہ فیصلے وہ سیاسی قیادت کر سکتی ہے، جس پر اپنے ذاتی مفادات اور الزامات کا بوجھ نہ ہو۔ عمران خان نے اب تک بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیاہے۔

تازہ ترین